"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں، متن اور اوکاڑہ سے مسعود احمد

عام انتخابات میں پارٹی کی قیادت کروں گا: نوازشریف
سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''عام انتخابات میں پارٹی کی قیادت کروں گا‘‘ لیکن عام انتخابات کا ابھی سر پیر ہی نہیں ہے‘ اس لیے ہر طرح سے خاطر جمع رکھیں کیونکہ اگر انتخابات ہونے ہی نہیں تو میں قیادت کس کی کروں گا اور واپسی کیسے ہو گی اور یہ شرط بھی اس لیے عائد کی ہے کہ یہ انتخابات ہوں گے تو ہی مجھے آنا پڑے گا ورنہ انتخابات کے علاوہ تو واپسی کا ویسے بھی کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا بلکہ اگر یہ نہ ہونے ہوئے تو اس کا اعلان ہوتے ہی صحت دوبارہ بھی خراب ہو سکتی ہے کیونکہ اب واپسی کا تعلق صرف اور صرف انتخابات سے ہے جبکہ واپسی کی تاریخ کے حسبِ معمول بیانات ضرور منظرِ عام پر آتے رہیں گے۔ آپ اگلے روز لندن میں پارٹی کے رہنمائوں سے ملاقات کر رہے تھے۔
انتخابات90دن میں ہوتے نظر
نہیں آ رہے: مولا بخش چانڈیو
پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما مولا بخش چانڈیو نے کہا ہے کہ ''انتخابات 90روز میں ہوتے نظر نہیں آ رہے‘‘بلکہ کبھی بھی ہوتے نظرنہیں آ رہے کیونکہ جب تک مخالفین کی صورت میں ایک رکاوٹ موجود ہے، انتخابات کرانا اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے اور اچھے بھلے پائوں پر کلہاڑی مارنے کو کوئی بھی تیار نہیں ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اب انتخابات کی بس باتیں ہی ہوا کریں گی یا آئندہ تاریخ کی کہانیوں میں ان کا ذکر ہوا کرے گا یا امتحانی پرچوں میں ان کے بارے میں سوال آیا کریں گے اور انتخابات کا موضوع ایک تاریخی حیثیت اختیار کر جائے گا۔ آپ اگلے روز حیدر آباد میں میڈیا سنٹر کے زیراہتمام ایک ورکشاپ سے خطاب کر رہے تھے۔
حلقہ بندیاں کرانا آئینی اور قانونی
تقاضا ہے: احسن اقبال
سابق وفاقی وزیر اور مسلم لیگ نواز کے مرکزی رہنما احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''حلقہ بندیاں کرانا آئینی اور قانونی تقاضا ہے‘‘ اگرچہ پرانی حلقہ بندیوں پر بھی الیکشن ہو سکتے ہیں کہ تین ماہ میں الیکشن کرانا بھی ایک آئینی تقاضا ہے لیکن اس کام میں اتنی جلدی کیا ہے کہ جلدی کا کام تو ویسے بھی شیطان کا ہوتا ہے۔ نیز ''سہج پکے سو میٹھا ہو‘‘ اور ''دیر آید درست آید‘‘ جیسے محاورے بھی کوئی معمولی نہیں ہیں جبکہ یہ محاورے اسی لیے بنائے جاتے ہیں کہ ان پر عمل کیا جائے اور اس وقت ہم پستی کے جن گڑھوں میں گرے ہوئے ہیں اس کی وجہ محض محاوروں پر عمل نہ کرنا ہے اور معلوم نہیں یہ خمیازہ کب تک بھگتتے رہیں گے، اس لیے دانشمندی کا تقاضا ہے کہ ان پر فوری طور پر عمل شروع کر دیا جائے تاکہ ہم اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کر سکیں۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی سے انٹرویو میں اظہارِ خیال کر رہے تھے۔
عوام آج پیپلزپارٹی کی طرف دیکھ رہے ہیں: منیر واہلہ
پاکستان پیپلزپارٹی کے عہدیدار منیر قمر واہلہ نے کہا ہے کہ ''عوام آج پیپلزپارٹی کی طرف دیکھ رہے ہیں‘‘ اور اس میں آج بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور یہ روزِ اول کی طرح ویسی کی ویسی ہی ہے اور عوام کے ساتھ اس کا رویہ بھی تبدیل نہیں ہوا کیونکہ سب کو صرف اپنی ہی فکر ہے‘ عوام کی نہیں جبکہ ارتقا و تبدیلی ایک قدرتی امر ہے لیکن اس سے بھی اس کا کچھ نہیں بگڑا اور اس کا طور طریقہ بقول شخصے یہی ہے کہ:
زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد
اس لیے اسے اپنا نام گل محمد پارٹی رکھ لینا چاہئے۔ آپ اگلے روز شیخوپورہ میں دیگر رہنمائوں کے ہمراہ ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
تھیڑز پر فحاشی پھیلانے والوں
سے بلیک میل نہیں ہوں گے: عامر میر
پنجاب کے نگران وزیر اطلاعات عامر میر نے کہا ہے کہ ''تھیڑز پر فحاشی پھیلانے والوں سے بلیک میل نہیں ہوں گے‘‘ کیونکہ اگر کئی دیگر معاملات میں بلیک میل ہوا جا سکتا ہے تو تھیڑز کو نشانے پر لینے کی کیا ضرورت ہے۔ مثلاً ہم جو مہنگائی کے ہاتھوں بلیک میل ہو رہے ہیں کہ اب حالات سے تنگ عوام نے خود کشیاں شروع کردی ہیں۔ علاوہ ازیں محکمہ بجلی کے ہاتھوں کھل کر بلیک میل ہو رہے ہیں تو ہم اس کو کافی سمجھتے ہیں اور تھیڑز جیسی چھوٹی موٹی چیزوں سے بلیک میل ہونا مناسب نہیں سمجھتے جبکہ امید ہے کہ یہ لوگ خود ہی باز آ جائیں گے جبکہ دعا ہے کہ خدا ان کو ہدایت دے۔ آپ اگلے روز لاہور میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں اوکاڑہ سے مسعود احمد کی غزل:
جہاں پناہ تھے لیکن پناہ گیر ہوئے
فقیر زادی ترے عشق میں فقیر ہوئے
بس ایک گھر کی طرف دیکھنا ضروری تھا
ہم اس گلی کے مسلسل ہی راہ گیر ہوئے
تو کیا پڑی تھی ہمیں ڈھال کے تکلف کی
جب آ کے دل میں ترازو نظر کے تیر ہوئے
کوئی وسیلہ کسی طور کام آ نہ سکا
ہمارے سارے مسائل ہی جوئے شیر ہوئے
ہماری سیف تمہاری میاں سے کیا نکلی
ہمارے تیر تمہاری کماں کے تیر ہوئے
درخت ایسے نمائش نہیں کیا کرتے
وگرنہ ان میں بھی کتنے بھگت کبیر ہوئے
پتا چلا یہ سراسر گریز کرنے سے
کسی کے واسطے ہم کتنے ناگزیر ہوئے
یہی کمال ترے ابروں کی جنبش سے
جو بے ضمیرتھے سب صاحبِ ضمیر ہوئے
رہا کرو بھی تو اڑ کر کہیں نہیں جاتے
قفس نشین تری ذات کے اسیر ہوئے
لگے ہوئے ہیں مسلسل ہوا کو چھیڑنے میں
تمہاری زلف کے جھونکے بڑے شریر ہوئے
وہ بار بار جسے پِیٹ کر مٹانا پڑا
ہمارے نقشِ کفِ پا وہی لکیر ہوئے
شکاریوں نے کمانیں کسیں تو موقع پر
شجر غریب پرندوں کے دستگیر ہوئے
آج کا مطلع
موسم کا ہاتھ ہے نہ ہوا ہے خلاؤں میں
پھر اس نے کیا طلسم رکھا ہے خلاؤں میں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں