مہنگائی اور ہڑتالوں کی وجہ مناسب
وقت پر بتائوں گا: نواز شریف
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''مہنگائی اور ہڑتالوں کی وجہ مناسب وقت پر بتائوں گا‘‘ اور یہ مناسب وقت نظامِ عدل میں کچھ تبدیلیوں کے بعد شروع ہوگا اور جس کے انتظار میں شہباز شریف بھی یہاں آئے ہوئے ہیں کیونکہ انہیں خطرہ ہے کہ کہیں وہ بھی کسی الزام میں دھر نہ لیے جائیں حتیٰ کہ میری واپسی کی تاریخ بھی اسی مناسب وقت کے انتظار میں ابھی تک حتمی شکل اختیار نہیں کر سکی، اس لیے ہم مل کر مصائب کو ٹالنے کا ورد کر رہے ہیں۔ آپ اگلے روز لندن میں میڈیا کے سوالوں کا جواب دے رہے تھے۔
پُرامن انتخابات کا انعقاد ہماری ترجیح ہے: مرتضیٰ سولنگی
نگران وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے کہا ہے کہ ''پُرامن انتخابات کا انعقاد ہماری ترجیح ہے‘‘ جبکہ اس کے لیے انتخابات کا انعقاد بے حد ضروری ہے جس کے ابھی تک کوئی واضح امکانات نظر نہیں آتے جبکہ الیکشن کمیشن نے بھی انتخابات کیلئے کوئی تاریخ نہیں دی، نیز اس کے علاوہ بھی کئی اسباب موجود ہیں اور مزید پیدا کیے جا سکتے ہیں جن کی بنیاد پر یہ مزید ملتوی کیے جا سکتے ہوں اس لیے ہماری ترجیح انتخابات کے انعقاد ہی سے مشروط ہے، دیکھتے ہیں کہ کب نو من تیل میسر آئے گا اور کب ناچ شروع ہو گا، اس لیے کسی کو بھی اس معاملے میں بے صبری دکھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایرانی سفیر سے ملاقات کر رہے تھے۔
اگلے وزیراعظم بلاول بھٹو زرداری
ہی ہوں گے: مرتضیٰ وہاب
میئر کراچی مرتضیٰ وہاب نے کہا ہے کہ ''اگلے وزیراعظم بلاول بھٹو زرداری ہی ہوں گے‘‘ اورمیں نے اپنا فرض سمجھتے ہوئے عوام کو آگاہ کردیا ہے تاکہ وہ بے خبری ہی کا شکار نہ رہیں اور اگر ممکن ہو تو بروقت اپنا بندوبست کر لیں؛ تاہم اگر یہ صورتحال درپیش آتی ہے تو اصل اختیار و اقتدار زرداری صاحب کے ہاتھ میں ہو گا جو آن کی آن میں خدمت کے انبار لگا دیتے ہیں اور دنیا انگشت بدنداں ہو کر رہ جاتی ہے۔اس لیے تیز رفتار خدمت کے حوالے سے عوام بے نیاز اور بے فکر ہو جائیں کہ:
ایں سعادت بزور بازو نیست
آپ اگلے روز طلال چودھری کی تنقید کا جواب دے رہے تھے۔
شہبازشریف کی دور اندیشی نے فیڈریشن کو بچا لیا: صفدر
مسلم لیگ نواز کے رہنما کیپٹن (ر) محمد صفدر نے کہا ہے کہ ''شہبازشریف کی دور اندیشی نے فیڈریشن کو بچا لیا‘‘ اور سب سے پہلے تو انہوں نے نیب ترامیم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سب کو مقدمات سے بچایا اور اب لندن میں بیٹھ کر برے وقت سے بچا رہے ہیں اور اسی لیے پارٹی کے دبائو کے باوجود واپس نہیں آ رہے اور اس سے زیادہ دور اندیشی کی مثال اور کیا دی جا سکتی ہے۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ اگر وہ بچ گئے ہیں تو ساری فیڈریشن ہی بچ گئی۔ آپ اگلے روز گوجرانوالہ میں عدالت میں پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
آٹھواں عجوبہ (طنزو مزاح)
ممتاز مزاح نگار اور ہمارے دوست حسین احمد شیرازی کا یہ تیسرا مجموعہ ہے جسے پوری آب و تاب سے شائع کیا گیا ہے۔ انتساب، اپنے ابا جی، امی جی، لبنیٰ، سارہ، انعم، یاسر، سرمد اور عمیر کے نام ہے۔ اندرونِ سرورق عطا الحق قاسمی، ڈاکٹر رئوف پاریکھ، ڈاکٹر اشفاق احمد ورک کی تحسینی آرا کتاب کے حوالے سے درج ہیں۔ پسِ سرورق مصنف کا
تصویری خاکہ اور مختصر تعارف درج ہے۔ کتاب کے اندر بھی انہی حضرات کی رائے نسبتاً تفصیل سے درج ہے۔ ڈاکٹر رئوف پاریکھ کے مطابق: شیرازی صاحب وطن سے بے حد محبت کرتے ہیں اور اسے چہار عالم میں کامران و سرخ رو دیکھنا چاہتے ہیں لیکن اہلِ وطن کی بعض عجیب خصلتوں کے شاکی بھی ہیں اور نوکر شاہی کی اعلیٰ سطح پر طویل عرصے تک متمکن رہ چکے ہیں لہٰذا اس ملک کی پوشیدہ بیماریوں اور ناگفتہ بہ کمزوریوں سے بخوبی واقف ہیں۔ بس یوں سمجھئے کہ گھر کے بھیدی ہی نے اس کتاب میں بھی لنکا ڈھائی ہے اور اس میں دردِ دل جا بجا تفکر اور فکاہات و مطائبات کے پردے میں نظر آئے گا۔ کتاب جاوید اقبال کے کارٹون سے بھی مزین ہے۔
اور‘ اب آخر میں افضال نوید کی غزل:
جانے کا سلسلہ ہوا اور ساریاں کھُلیں
کل رات ایک شہر کی رہداریاں کھُلیں
پُرپیچ راستوں سے گزرنا تھا جس کے بعد
کس کس نگر کی ہو گئیں تیاریاں کھلیں
اڑنا تھا بھاپ بن کے گزرتے ہی ریت سے
دریائے تند و تیز کی ہمواریاں کھلیں
معلوم پڑتا ہی نہیں تھا جاگتے تو تھے
اُس زلف کے حصار میں بیداریاں کھلیں
صدیوں کے فاصلوں سے گزر کر وہ آیا تھا
ٹھہری ہوئی تھیں جتنی بھی سرشاریاں کھلیں
اپنا ہی تھا گریز کہ ملنے سے دور تھے
ایسی کشش ملی ہمیں بیزاریاں کھلیں
اندر ہی گھومتے ہوئے ذرّے تھے چارسو
جن کے اثر سے روح پہ ہمواریاں کھلیں
لہرا کے سُر لگاتا مغنّی رہا جو رات
کیا کیا نہ اُس کے ہاتھ سے تہہ داریاں کھلیں
پلٹے بدل بدل کے چلن ساز کا لگے
لگتے ہی تان وقت کی لے کاریاں کھلیں
تعمیر انہدام نے کچھ اور ہی کیا
ہونے میں ملیامیٹ جو معماریاں کھلیں
دیکھا دھنک میں شام تو کچھ اور ہی لگا
کُرتے پہ اُس کے رنگوں بھری دھاریاں کھلیں
نام و نمود تھام کے بارش نے آنا تھا
ہر شاخ سے بندھی ہوئی گلکاریاں کھلیں
کب سے رسومِ دہر کے چنگل میں تھا وہ شخص
اکرامِ چارہ گر ہوا لاچاریاں کھلیں
ہم کو وجودِ تنگ سے فرصت نہ ملتی تھی
بارش ہوئی تو کتنی گراں باریاں کھلیں
آج کا مطلع
کھڑی ہے شام کہ خوابِ سفر رکا ہوا ہے
یقین کیوں نہیں آتا اگر رکا ہوا ہے