تاخیر ہو سکتی ہے مگر الیکشن سے
نہیں بھاگ سکتے: بلاول بھٹو زرداری
چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''تاخیر ہو سکتی ہے لیکن الیکشن سے بھاگ نہیں سکتے‘‘ اگرچہ تاخیر کا مطلب بھی الیکشن سے فرار ہی ہے کیونکہ تاخیر کا کوئی اندازہ نہیں کہ کہاں تک ہو سکتی ہے، اس میں مہینے لگیں یا سال‘ اور یہ جو تاخیر کی ہامی بھری گئی ہے تو اس کا مطلب بھی یہی ہے۔ نیز میں والد صاحب کے بیان کا بھی انکار نہیں کر سکتا جو الیکشن سے پہلے حلقہ بندیاں چاہتے ہیں جس کا مطلب سوائے تاخیر کے اور کچھ بھی نہیں اور پچھلے بیانات میں فوری الیکشن کا مطالبہ کرکے دوسری سیاسی جماعتوں کو جو آئینہ دکھانے کی کوشش کی گئی اس پر پارٹی کا ردعمل کچھ اتنا خوشگوار نہیں تھا۔ آپ اگلے روز اندرونِ سندھ عوامی رابطہ مہم میں کارکنوں سے خطاب کر رہے تھے۔
مذہب کے نام پر انتشار ناقابلِ
برداشت ہے: نگران وزیراعظم
نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ ''مذہب کے نام پر انتشارناقابلِ برداشت ہے‘‘ کیونکہ اگر دیگر ایسے بے شمار عناصر اور وجوہات موجود ہیں جن کے نام پر یہ کام کیا جا سکتا ہے تو مذہب کو بیچ میں لانے کی کیا ضرورت ہے؛ چنانچہ دوسرے اسباب کا سہارا لینا چاہئے، نیز جب سیاست ہی اتنا بڑا معاملہ موجود ہے جس میں اس کام کی بھرپور گنجائش موجود ہے تو اِدھر اُدھر دیکھنے کی کیا ضرورت ہے جبکہ الیکشن کے بارے میں بھی پورے وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ اس کے انعقاد سے سخت انتشار پھیلنے کا خطرہ ہے تو اس کا انتظار کر لینا چاہئے‘ زیادہ دور جانے کی کیا ضرورت ہے۔ آپ اگلے روز پندرہ روزہ دورے پر گلگت پہنچنے کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
جیل یا رائیونڈ‘نوازشریف کی
21اکتوبر کو واپسی : شہبازشریف
سابق وزیراعظم شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''جیل یا رائیونڈ‘ نوازشریف کی 21اکتوبر کو واپسی ہوگی‘‘ اس لیے لوگ استقبال کے لیے ایئرپورٹ پر بھی موجود ہونے چاہئیں اور باقی دونون جگہوں پر بھی تاکہ ان کا شایانِ شان استقبال کیا جا سکے اور ہو سکتا ہے کہ دیگر رہنمائوں کا استقبال بھی دونوں جگہوں پر کرنا پڑے کیونکہ اس دوران کوئی بھی فیصلہ آ سکتا ہے اور اسی ممکنہ صورتحال کے باعث واپسی ملتوی بھی ہو سکتی ہے اس لیے عوام واپسی کے لیے کسی اگلی تاریخ کے اعلان کے بھی منتظر رہیں اور ہمارا فرض ہے کہ عوام کو تازہ ترین صورتحال سے بروقت آگاہ کریں جو ہر وقت تغیر پذیر رہتی ہے۔ آپ اگلے روز لندن میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
صدر نے الیکشن کی جو تاریخ دی‘ یہ
بدنیتی ہے: مولانا فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام(ف) کے سربراہ اور پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''صدر نے الیکشن کی جو تاریخ دی یہ بدنیتی ہے‘‘ کیونکہ الیکشن کی تاریخ صرف الیکشن کمیشن دے سکتا ہے جو سیاسی جماعتوں کے مسائل کو اچھی طرح سے سمجھتا ہے اور اسی لیے وہ الیکشن کی تاریخ دینا مناسب نہیں سمجھتا کیونکہ الیکشن کیلئے ملک میں ماحول ہی سازگار نہیں ہے اور یہ کب تک ناسارگار رہے گا اس کا اندازہ نہ ہم لگا سکتے ہیں نہ الیکشن کمیشن جبکہ انتخابات سے ملک میں امن و امان کو سخت خطرہ لاحق ہے جس کو الیکشن پر قربان نہیں کیا جا سکتا، اس لئے اولیت امن و امان کو حاصل ہے، الیکشن تو کسی وقت بھی ہو سکتے ہیں۔ آپ اگلے روز ملتان اور سکھر کا دورہ کر رہے تھے۔
پی ٹی آئی میں شمولیت میری
بیوقوفی تھی: ندیم افضل چن
پیپلزپارٹی کے رہنما ندیم افضل چن نے کہا ہے کہ ''پی ٹی آئی میں شمولیت میری بیوقوفی تھی‘‘ اور اسے چھوڑنا اس سے بھی بڑی بیوقوفی، کیونکہ سیاست بجائے خود ایک بیوقوفانہ طرزِ عمل ہے جس کا اصل مقصد عوام کو بیوقوف بنانے کے سوا کچھ بھی نہیں اور ایک بیوقوف ہی کسی دوسرے کو بیوقوف بنا سکتا ہے کیونکہ لوہے کو لوہا ہی کاٹتا ہے جبکہ کچھ لوگ اس کے ذریعے مال پانی بناتے ہیں جو اس سے بھی بڑی بیوقوفی ہے اور جس میں پکڑے جانا اس سے بھی بڑی بیوقوفی؛ چنانچہ اول سے آخر تک بیوقوفیوں کا یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ آپ اگلے روز ایک ٹی وی پروگرام میں سیاست پر گفتگو کر رہے تھے۔
اور‘ اب اوسلو‘ ناروے سے فیصل ہاشمی کی نظم
جانے کتنے بے بس چہرے
آنکھوں کے سیال جہاں میں رہتے ہیں
ابھی ابھی کچھ روشنیوں کے سایے
اس دنیا سے چھپ کر ملنے آئے تھے
اور اب فردائوں کی کتنی باتیں
پھسلی پڑی ہیں پلکوں پر
...باتیں جن سے اوروں کی دلچسپی کو ہم
اپنے طور خیال کیا کرتے ہیں
کس کے پاس سمے ہوگا‘ جو
اپنی اس مصروفیت کی دوری کے نزدیک میں
تنہا کھڑے ہوئے بیمار بدن سے پوچھے:
بھائی، تمہیں کتنے ہی دنوں سے
دیکھ رہا ہوں
بے حرکت‘ خاموش
آنکھوں کے دریا کے ریلے میں بہتے
یہ کون سا دکھ ہے
جس میں دل کی ساری تہیں
اب پائیدان پہ مسلی پڑی ہیں
کاندھے کون سی دنیاؤں کی آرزوئوں کا
بوجھ اٹھا کر جھکے ہوئے ہیں
کہتے ہو تو بانٹ لوں اس کو؟
اس دنیا میں کمی نہیں ایسے لوگوں کی
پھر بھی یہ محسوس ہوا ہے
جانے ان کو مجھ تک آتے آتے
کتنی دیر لگے گی
کیسے کیسے جھنجھٹ ہیں اور
کیسے کیسے شمسی نظاموں کے پُر پیچ
مداروں میں یہ جکڑے ہوئے ہیں
اور میں کب تک آنکھیں بچھائے
زندہ رہوں گا!
آج کا مقطع
دن پر سوچ سلگتی ہے یا کبھی رات کے بارے میں
کوئی بات نکل آتی ہے کائنات کے بارے میں