سابق وزیراعظم کو مقدمات کے ذریعے سیاست سے
بے دخل کرنے کا تاثر درست نہیں:نگران وزیراعظم
نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ ''چیئرمین پی ٹی آئی کو مقدمات کے ذریعے سیاست سے بے دخل کرنے کا تاثر درست نہیں‘‘ بلکہ مقدمات سے تو ان کی سیاست کو فائدہ اور سپورٹ میں اضافہ ہوا ہے اور عوامی سپورٹ ختم کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ان کے خلاف سارے مقدمات واپس لے کر انہیں رہا کر دیا جائے اور وہ ''پرانے‘‘ والی جگہ پر واپس آ جائیں لیکن کچھ احباب‘ جو دیگر مختلف جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں‘ اس تجویز سے اتفاق نہیں کرتے اور ان کا خیال ہے کہ مقبولیت کا بلبلہ ان کے اندر رہنے سے جلد ہی پھٹ جائے گا، اس لیے ان کی رائے کا احترام کرتے ہوئے پرانے سٹیٹس کو برقرار رکھنے ہی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں امریکی میڈیا کو ایک انٹرویو دے رہے تھے۔
میں اور شہباز شریف حالات کا سامنا
کرنے کے لیے تیار ہیں: نواز شریف
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''میں اور شہباز شریف حالات کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں‘‘ جو نیب ترامیم کو کالعدم قرار دینے کے فیصلے کے بعد بظاہرگمبھیر ہو گئے ہیں اور جہاں تک میرا تعلق ہے تو مجھے پارٹی کی طرف واپسی کی جو کلیئرنس دی گئی ہے اس پر آنکھیں بند کر کے اعتبار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ زیر تفتیش کیسز کے حوالے سے جو امیدیں باندھی جا رہی ہیں وہ مضحکہ خیز ہیں اور واپسی پر ریلیف کے حوالے سے بھی ابھی تک کسی جانب سے کوئی خاطر خواہ تسلی نہیں کرائی گئی اور ان حالات میں کوئی خطرہ مول لینے کے لیے ہرگز تیار نہیں ہوں۔ آپ اگلے روز لندن میں ایک اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔
سابق اتحادی جماعت کا گڑھ اس
کے لیے گڑھا بن گیا: فیصل کریم کنڈی
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما فیصل کریم کنڈی نے کہا ہے کہ ''ہماری ایک سابق اتحادی جماعت کا گڑھ ہی اس کے لیے گڑھا بن گیا‘‘ بلکہ سبھی اتحادیوں کے گڑھ ہی ان کے لیے گڑھا بن چکے ہیں کیونکہ آنے والے الیکشن انہیں گڑھے میں دھکیلنے کے لیے کافی ہیں اس لیے کوئی کھل کر ان کی حمایت نہیں کر رہا بلکہ جو اس کی حمایت کر رہا ہے وہ بھی عوام کے سامنے سرخرو رہنے کے لیے یہ سب کر رہا ہے اور سبھی اس گڑھے میں گرنے سے بچنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں جبکہ مخالفین کے بارے میں بھی کوئی حتمی اور فیصلہ کن صورتحال نظر نہیں آ رہی بلکہ حالات روز بروز خراب سے خراب تر ہوتے جا رہے ہیں اور مذکورہ گڑھا بھی کسی صورت پُر ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ آپ اگلے روز ندیم افضل چن اور شازیہ مری کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
معمارِ پاکستان ویلکم بیک! پاکستان
کی خوشحالی کا دور واپس آ رہا ہے: مریم نواز
سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی، مسلم لیگ نواز کی سینئر نائب صدر اور چیف آرگنائزر مریم نواز نے کہا ہے کہ ''معمارِ پاکستان ویلکم بیک! پاکستان کی خوشحالی کا دور واپس آ رہا ہے‘‘ جبکہ پاکستان کی خوشحالی ان کے پچھلے ادوار میں ہی شروع ہو گئی تھی اور ان کے مشہورِ زمانہ اقدامات ہی سے اس کا آغاز ہوا تھا کیونکہ ذاتی خوشحالی اور تیز رفتار ترقی بھی ملک و قوم ہی کی ترقی اور خوشحالی شمار ہوگی جس نے اپنی انتہائوں کو چھو لیا تھا اور ساری دنیا اسے دیکھ کر انگشت بدنداں رہ گئی تھی کہ اتنی جلدی اور اس قدر خوشحال کیسے ہوا جا سکتا ہے، اس لیے اس ترقی و خوشحالی میں جو کسررہ گئی تھی وہ اسے پوری کرنے کے لیے واپس آ رہے ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے ایک بیان جاری کر رہی تھیں۔
عوام کے لیے صحت کی سہولتوں کی
فراہمی کے لیے کوشاں ہیں: جمال ناصر
پنجاب کے صوبائی وزیر بہبود آبادی جمال ناصر نے کہا ہے کہ ''عوام کے لیے صحت کی سہولتوں کی فراہمی کے لیے کوشاں ہیں‘‘ اور جو مہنگائی روز بروز بڑھ رہی ہے اس کا علاج عوام نے خود ہی دریافت کر لیا ہے اور اشیائے صرف خریدنا بند کر دی ہیں جس سے مہنگائی منہ کے بل گرتی نظر آ رہی ہے اور ہمیں اس سلسلے میں کچھ بھی کرنا نہیں پڑ رہا اور چین کی بانسری بجا رہے ہیں جسے سن کر عوام خاصے محظوظ ہو رہے ہیں بلکہ انہوں نے بھی یہ بجانے کے لیے بانسریاں خرید لی ہیں اور ہمارے ساتھ مل کر چین کی بانسری بجانے میں مصروف ہیں اور صحت کی سہولتوں کے حوالے سے بھی وہ اپنے مطالبات سے دست کش ہو گئے ہیں اور یہ قابلِ رشک عقلمندی ہم پوری قوم میں پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں
ایں کار از تو آید و مرداں چنیں کند
آپ اگلے روز راولپنڈی کے ایک ہسپتال کے دورے کے موقع پر گفتگو کر رہے تھے۔
اور‘ اب ہزارہ سے رستم نامی کی غزل:
خرچ ہوتا ہوں آنے جانے میں
میں لگا ہوں اُسے منانے میں
لطف آتا ہے اُن کو بھی شاید
اپنے پیچھے ہمیں پھرانے میں
وہ قیامت کو آئے گا‘ یعنی
ایک دو دن ہیں اُس کے آنے میں
لے سکیں گے نہ وہ جگہ میری
جو لگے ہیں مجھے گرانے میں
صرف ہم کو ہی کوسنے والو!
کیا نہیں ہو رہا زمانے میں
اِس گرانی میں کون پوچھتا ہے
کیا پکایا ہے آج کھانے میں
لُوٹتے ہیں سبھی یہی کہہ کر
فرق پڑتا نہیں خزانے میں
بھولنا اِس لیے نہیں ممکن
دیر ہے اُس کے یاد آنے میں
ہم ہیں سکریپ کی طرح نامیؔ
زندگی کے کباڑ خانے میں
آج کا مقطع
تم سے تو ہے ظفرؔ کا بس اتنا مطالبہ
خود سے اسے زیادہ جدا مت کیا کرو