"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں، متن اور سدرہ سحر عمران

شفاف الیکشن چیئرمین پی ٹی آئی کے
بغیر بھی ممکن ہیں: نگران وزیراعظم
نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ ''شفاف الیکشن عمران خان کے بغیر بھی ممکن ہیں‘‘ بلکہ شفاف الیکشن کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان کے بغیر ہی ہوں اس لیے مختلف سطحوں پر ان کو الیکشن سے دور رکھنے کے لیے کارروائیاں جاری ہیں تاکہ صرف شفاف لوگ ہی الیکشن لڑ سکیں جبکہ دونوں بڑی پارٹیوں کی لیڈر شپ مجسم شفاف ہے اور ان کی شخصیت اور کارگزاریوں کا کوئی بھی پہلو شفافیت سے خالی نہیں ہے اور ان کے اثاثے اس قدر صاف و شفاف ہیں کہ ان کے آر پار بھی دیکھا جا سکتا ہے اور جن کا جواز پیش کرنے کی ضرورت کبھی محسوس ہی نہیں کی گئی۔ آپ اگلے روز ایک امریکی خبر رساں ایجنسی کو انٹرویو دے رہے تھے۔
اقتدار بے معنی اور گھر کی لونڈی
کے مترادف ہے: آصف زرداری
سابق صدر اور پاکستان پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنما آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''میرے نزدیک اقتدار بے معنی اور گھر کی لونڈی کے مترادف ہے‘‘ کیونکہ پہلے ہی عوامی خدمت کے باعث اتنا کچھ اکٹھا ہو چکا کہ اب مزید کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور جو آئندہ کیلئے بھی کافی ہے جبکہ اسے نظرِ بد سے بچانے کیلئے تھوڑی کمی بیشی بھی کرتے رہتے ہیں، اس لیے ہم جیسے درویش لوگوں کے نزدیک اقتدار کی کیا حیثیت اور اہمیت باقی رہ جاتی ہے اور اس کے لیے زیادہ تردد کرنا بھی نہیں چاہئے۔ اس لیے اس بار ہم لوگ اقتدار حاصل کرنے کی کوشش ہی نہیں کر رہے کہ ایسی بے معنی چیز کا ہم نے کیا کرنا ہے۔ آپ اگلے روز پیپلزپارٹی بلوچستان کے صدر کی قیادت میں آنے والے وفد سے ملاقات کر رہے تھے۔
نوازشریف کی واپسی سے صرف آئین
شکن پریشان ہیں: مریم نواز
سابق وزیر اعظم کی صاحبزادی، مسلم لیگ نواز کی سینئر نائب صدر اور چیف آرگنائزر مریم نواز نے کہا ہے کہ ''نوازشریف کی واپسی سے صرف آئین شکن پریشان ہیں‘‘ اگرچہ پچھلی حکومت نے بھی اس میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رکھی اس لیے کچھ احباب بھی اس پریشانی میں مبتلا ہیں ، اور نوازشریف صاحب بعض آئینی مجبوریوں کی وجہ سے وزیراعظم بننے کیلئے واپس نہیں آ رہے بلکہ ایک دیرینہ خواب کی تعبیر دیکھنے کیلئے واپس آ رہے ہیں اگرچہ ان کی واپسی کی راہ میں اب بھی متعدد رکاوٹیں موجود ہیں اور اگر وہ وطن واپس نہ آئے تو مذکورہ بالا خواب چکنا چور ہو کر رہ جائینگے۔ آپ اگلے روز آزاد کشمیر میں ایک اجلاس سے وِڈیو لنک خطاب کر رہی تھیں۔
تمام سیاسی جماعتوں کو الیکشن لڑنے کی
آزادی ہونی چاہئے: مرتضیٰ سولنگی
نگران وفاقی وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے کہا ہے کہ ''تمام سیاسی جماعتوں کو الیکشن لڑنے کی آزادی ہونی چاہئے‘‘ لیکن اس میں خصوصی طور پر ان کی لیڈرشپ کو شامل ہونا ضروری نہیں ہے، مثلاً کچھ جماعتوں کے لیڈران کو اس کی ہرگز ضرورت نہیں کیونکہ ان کو اپنی مقبولیت کا پورا پورا اندازہ ہے جبکہ دیگر جماعتیں جو اس وقت بڑی خوش فہمی بلکہ غلط فہمی میں مبتلا ہیں، خاص طور پر اپنی مقبولیت کے حوالے سے، ان کے لیے ضروری ہو گیا کہ الیکشن لڑ کر اپنی حیثیت اور مقبولیت کا صحیح اندازہ کریں کہ وہ کتنے پانی میں ہیں، اس لیے وہ لیڈران کے بغیر بھی الیکشن لڑ سکتی ہیں۔ آپ اگلے روز کراچی میں نیوز پیپر ایڈیٹرز کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
ہمارا بیانیہ عام آدمی سے ہٹ کر نہیں ہو سکتا: رانا ثنا
سابق وفاقی وزیر داخلہ اور مسلم لیگ نواز کے مرکزی رہنما رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ ''ہمارا بیانیہ عام آدمی سے ہٹ کر نہیں ہو سکتا‘‘ کیونکہ عام آدمی جس آسودگی اور خوش حالی سے لطف اندواز ہو رہا ہے وہ ہماری شبانہ روز محنت کے نتیجے میں ہے اور اس طرح ہم اور عام آدمی لازم و ملزوم ہو چکے ہیں جبکہ ہمارا بیانیہ کڑے احتساب کا ہے جس پر اطلاق ہم پر نہیں ہوتا کیونکہ ایسا کوئی کام کیا ہی نہیں گیا جو احتساب کے زمرے میں آتا ہو کیونکہ سارا کچھ درست سمجھ کر اور نیک نیتی ہی سے کیا گیا اور جس چیز کو نیک نیتی سے کیا جائے، وہ غلط ہو ہی نہیں سکتی جبکہ ہمارا بیانیہ بھی اس طرح کا ہے۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں شریک تھے۔
اور‘ اب آخر میں سدرہ سحر عمران کی شاعری:
اندھیروں پر ٹیکس نہیں لگتا
ہمارے دماغ
مویشیوں کی طرح بندھے ہوئے ہیں
کوئی ہمارے پیروں کے
سرد انگوٹھوں سے باندھی گئیں
غلامی کی سفید ڈوریاں
کھولنا چاہے تو
ہم اندھیرے کی طرح
چیخ اٹھتے ہیں
نہیں نہیں...
آنکھ والوں کو
ہماری چوکیداری پر مت لگائو
ہم آگ کی اَن پڑھ خندقوں میں
اپنے پَر جلا کر خوش ہیں
ہمیں پرندوں کی طرح
آسمانی قصوں میں مت الجھاؤ
تمہارے چراغ
ہماری آنکھوں میں چبھ رہے ہیں
انہیں بجھاؤ!!
٭......٭......٭
ہم اندھیری گلیوں کے جنمے ہوئے
نہ کوئی چراغ ہمیں دیکھ کر
کبھی مسکرایا
نہ چاندنی رات سے بہتی ہوئی روشنی
ہمارے پاؤں پکڑتی ہے
خوابوں کی سبز تتلیاں
ہمارے بستوں میں مرگئیں
اور ہماری پنسلوں نے کبھی
روٹی، کپڑا اور مکان
لکھنا نہیں سیکھا!
آج کا مقطع
نام تو پھر بھی بڑی بات ہے دنیا میں ظفرؔ
یہ بھی کیا کم ہے جو کچھ اپنا نشاں رہ جائے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں