آخری خواہش
ایک ملک میں جہاں سزائے موت ایک مشین کے ذریعے دی جاتی تھی‘ وہاں ایک بار ایک سردار‘ ایک مسلمان اور ایک یہودی کو کسی جرم میں سزائے موت دی جانی تھی۔ انہوں نے سب سے پہلے مسلمان کو مشین کے نیچے فِٹ کیا اور پوچھا کہ آپ کی کوئی آخری خواہش ہے تو بتائیں۔ اس نے کہا کہ میرا منہ کعبہ شریف کی طرف کر دیں۔ ایسا ہی کیا گیا اور جب مشین کا بٹن دبایا گیا تو اس کا بلیڈ تیزی سے نیچے آیا لیکن گھڑڑڑڑڑ گھڑڑڑڑڑ کرتا ہوا چھ انچ کے فاصلے پر رک گیا۔ مسلمان سے کہا گیا کہ تکنیکی طور پر آپ کی سزا پر عملدرآمد ہو چکا ہے‘ اس لیے آپ جائیں۔ اس کے بعد انہوں نے یہودی کو لٹایا اور اس سے بھی اس کی آخری خواہش پوچھی تو اُس نے کہا کہ میرا منہ یروشلم کی طرف کر دیا جائے۔ اب کی بار بھی بلیڈ پانچ انچ کے فاصلے پر آ کر رک گیا۔ یہودی کو بھی سزا پر عمل درآمد ہونے کی بنا پر رہا کر دیا گیا۔ اب سردار صاحب کی باری آئی۔ انہیں مشین کے نیچے لٹایا اور آخری خواہش پوچھی گئی تو وہ بولے: '' آخری خواہش پر لعنت بھیجو‘ پہلے اس مشین کو تو ٹھیک کراؤ!‘‘
ہونٹ ہلانے والا اونٹ
ایک شخص ایک فائیو سٹار ہوٹل میں ایک اونٹ اور ایک بکری کو لے کر آیا اور اس کی انتظامیہ سے کہا کہ یہ دونوں گانا بہت اچھا گاتے ہیں‘ اگر آپ چاہیں تو اپنے مہمانوں کو انٹرٹین کرنے کے لیے انہیں خرید سکتے ہیں۔ انتظامیہ نے اس میں دلچسپی ظاہر کی اور آزمانے کے لیے بڑے ہال کو خالی کروا کر وہاں ٹھہرے ہوئے جملہ مہمانوں کو ہال میں اکٹھا کیا جس کے بعد وہ شخص اونٹ اور بکری کو سٹیج پر لایا۔ وہاں پران دونوں نے جو گانا سنایا تو ہال کافی دیر تک تالیوں سے گونجتا رہا‘ اس پر بھاؤ تاؤ کے بعد ہوٹل والوں نے وہ دونوں جانور خرید لیے۔ رقم کی ادائیگی کے بعد وہ شخص بولا:
ایک ضروری بات جو میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ گانا صرف بکری گاتی ہے جبکہ اونٹ ساتھ ساتھ ہونٹ ہلاتا جاتا ہے!
لڑائی
ایک سکھ بھاگا بھاگا کہیں سے آ رہا تھا‘ سر سے خون بہہ رہا تھا۔ کسی نے روک کر پوچھا کہ سردار جی کیا بات ہے تو سردار بولا وہ جی ہونا کیا ہے‘ پچھلے چوک میں کچھ لوگ جمع تھے‘ میں بھی ان میں جا گھسا‘ یکا یک کسی نے مجھے زور کا تھپڑ دے مارا۔ میں نے سوچا یہاں کوئی معاملہ ہے اس کے بعد کسی نے مجھے سر سے اٹھا کر پکی سڑک پر پٹخ دیا‘ میں نے کہا یہاں کوئی گڑ بڑ معلوم ہوتی ہے اور جب کسی نے میرے سر میں ڈانگ دے ماری تو میں نے سمجھا کہ یہاں تو لڑائی ہو رہی ہے!
بڑی مشکل سے
ایک سردار صاحب نے رات کہیں موٹرسائیکل پر جانا تھا‘ سخت سردی کا موسم تھا‘ جب تھوڑی دور جانے پر سامنے سے سرد ہوا کے تھپیڑے پڑے تو انہیں ایک ترکیب سوجھی۔ انہوں نے کوٹ اُتارا اور پچھلی سائیڈ آگے کرکے پہن لیا اور سفر پر روانہ ہو گئے ۔راستے میں ایک گاؤں کے قریب ان کا ایکسیڈنٹ ہو گیا۔ ایکسیڈنٹ کی آواز سن کر ایک اور سکھ موقع پر پہنچا اور سردار جی کو ہلانے جلانے لگا‘ اتنے میں کہیں سے اور سردار بھی وہاں آن پہنچے اور صورتحال کے بارے میں دریافت کیا تو سردار بولا: کیا بتاؤں بھائی‘ بہت برا ایکسیڈنٹ ہوا ہے حتیٰ کہ سردار صاحب کی گردن اُلٹی ہو گئی تھی جو میں نے بڑی مشکل سے سیدھی کی ہے۔ پہلے تو کچھ ہوں ہاں کرتے تھے اب وہ بھی نہیں کرتے۔
کتنی بہنیں؟
ایک سکھ نوجوان کی منگنی کی رسم ادا ہو رہی تھی۔ دونوں کے والدین نے مشورہ کرتے ہوئے کہا کہ لڑکے اور لڑکی کو کچھ دیر کے لیے تنہا چھوڑ دیا جائے تاکہ وہ ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کریں جب لڑکا اور لڑکی تنہا ہوئے تو سوچ سوچ کر لڑکابولا:
باجیٖ آپ کتنی بہنیں ہیں؟
پہلی چار تھیں‘ اب پانچ ہو گئی ہیں۔ لڑکی نے جواب دیا۔
اور‘ اب آخر میں ڈاکٹر ابرارا حمد کی نظم
میرے پاس کیا کچھ نہیں
میرے پاس راتوں کی تاریکی میں
کھلنے والے پھول ہیں اور بے خوابی
دنوں کی مرجھائی ہوئی روشنی ہے اور بینائی
میرے پاس لوٹ جانے کو ایک ماضی ہے
اور یاد...
میرے پاس مصروفیت کی تمام تر رنگا رنگی ہے
اور بے معنویت
اور ان سب سے پرے کھلنے والی آنکھ
میں آسماں کو اوڑھ کر چلتا
اور زمین کو بچھونا کرتا ہوں
جہاں میں ہوں
وہاں ابدیت اپنی گرہیں کھولتی ہے
جنگل جھومتے ہیں ‘بادل برستے ہیں‘مور ناچتے ہیں
میرے سینے میں ایک سمندر نے پناہ لے رکھی ہے
میں اپنی آگ میں جلتا
اپنی بارشوں میں نہاتا ہوں
میری آواز میں
بہت سی آوازوں نے گھر کر رکھا ہے
اور میرا لباس
بہت سی دھجیوں کو جوڑ کر تیار کیا گیا ہے
میری آنکھوں میں
ایک گرتے ہوئے شہر کا سارا ملبہ ہے
اور ایک مستقل انتظار اور آنسو
اور ان آنسوؤں سے پھول کھلتے ہیں
تالاب بنتے ہیں
جن میں پرندے نہاتے ہیں
ہنستے اور خواب دیکھتے ہیں
میرے پاس
دنیا کو سنانے کے لیے کچھ گیت ہیں
اور بتانے کے لیے کچھ باتیں
میں رد کیے جانے کی لذت سے آشنا ہوں
اور پذیرائی کی دل نشیں مسکراہٹ سے
بھرا رہتا ہوں
میرے پاس ایک عاشق کی وارفتگی
در گذر اور بے نیازی ہے
تمہاری اس دنیا میں
میرے پاس کیا کچھ نہیں ہے
وقت اور تم پر اختیار کے سوا؟
آج کا مطلع
نہ گماں رہنے دیا ہے نہ یقیں رہنے دیا
راستہ کوئی کھلا ہم نے نہیں رہنے دیا