٭... ایک خاتون گاڑی میں کسی تنگ سی سڑک پر جا رہی تھی کہ گاڑی بند ہو گئی۔ وہ نیچے اتری، بونٹ کھولا اور انجن کو چیک کرنے لگیں کہ عقب سے آنے والی گاڑی کا ڈرائیور ہارن پر ہارن بجائے چلا جا رہا تھا۔ انہوں نے گاڑی سٹارٹ کرنے کی بہت کوشش کی لیکن ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ انہوں نے دوبارہ کوشش کی جبکہ پچھلی گاڑی والے صاحب ہارن برابر بجائے چلے جا رہے تھے۔ وہ اُن کے پاس آئیں اوربولیں:
''بھائی صاحب! آپ میری گاڑی سٹارٹ کر دیں، آپ کا ہارن میں بجاتی ہوں‘‘۔
٭... ایک صاحب اپنی گاڑی میں کسی دوسرے شہر جا رہے تھے کہ شہر کے قریب پہنچ کر اُن کی گاڑی بند ہو گئی، وہ نیچے اترے گاڑی کا انجن دیکھنے لگے کہ اچانک کہیں سے آواز آئی: اس کا کاربوریٹر خراب ہے۔
انہوں نے اِدھر اُدھر دیکھا مگر وہاں کوئی نہ تھا، صرف سڑک کے کنارے ایک گھوڑا گھاس چر رہا تھا، وہ کوشش کرتے رہے مگر گاڑی سٹارٹ کرنے میں ناکام ہو گئے تو پھر دوبارہ آواز آئی:
''تمہیں کہا نا! اس کا کاربوریٹر خراب ہے‘‘۔
انہوں نے فوراً آواز کی طرف منہ موڑا تو دیکھا کہ گھوڑے کے ہونٹ ہل رہے تھے۔ وہ اس قدر سراسمیہ ہوئے کہ گاڑی کو وہیں چھوڑ کر شہر کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے اور ایک ریسٹورنٹ میں گھس گئے اور ویٹر سے کچھ پینے کو مانگا۔ وہاں دو آدمی پہلے سے بیٹھے تھے جنہوں نے انہیں پریشان دیکھ کر پوچھا: بھائی صاحب! کیا بات ہے، آپ اتنے پریشان کیوں ہیں؟ جس پر وہ صاحب بولے: کوئی بات نہیں۔ ''لیکن آخر کوئی بات تو ہے‘‘۔ جب انہوں نے زیادہ اصرار کیا تو ان صاحب نے اپنی سرگزشت سنانا شروع کی جسے وہ سنتے ہوئے مسکراتے رہے، جب سرگزشت ختم ہوئی تو وہ قہقہہ لگا کر ہنس پڑے۔ ان صاحب نے دونوں افراد کے اس ردعمل پر حیرت کا اظہار کیا تو ان میں سے ایک بولا: ہم اس گھوڑے کو اچھی طرح جانتے ہیں،وہ بکواس کرتا ہے، اسے گاڑی کے پرزوں کے بارے کچھ نہیں پتا ہے۔
٭... ایک صاحب اپنی گاڑی میں اوورسپیڈنگ کرتے ہوئے کہیں جا رہے تھے کہ سارجنٹ نے انہیں روکا اور گاڑی کے کاغذات دکھانے کو کہا تو وہ بولے:
''مجھے مت روکو، میں بہت جلدی میں ہوں، میری گاڑی کی ڈگی میں لاش ہے!‘‘
''لاش ہے؟‘‘ سارجنٹ گھبرا کر بولا اور فوری طور پر فون پر اپنے اعلیٰ افسر کو اطلاع دی جس نے کہا کہ میں ابھی آ رہا ہوں۔ تھوڑی دیر بعد وہ بھی آ پہنچا اور ان صاحب سے کہا: ڈگی کھولیے، انہوں نے ڈگی کھولی تو اس میں کچھ نہیں تھا، اس افسر نے پوچھا:
وہ لاش کہاں ہے؟
''کون سی لاش؟‘‘۔ وہ صاحب بولے، جس پرو ہ افسر بولا:جو گاڑی کی ڈگی میں تھی اور میرے سارجنٹ نے جس کا مجھے بتایا تھا۔
''اس احمق نے آپ کو یہ بھی بتایا ہوگا کہ میں اوورسپیڈنگ کر رہا تھا‘‘۔ ان صاحب نے اطمینان سے جواب دیا۔
٭... ایک صاحب رات گئے پب سے باہر نکلے اور اپنی گاڑی میں بیٹھتے ہی قریبی تھانے میں فون کر دیا کہ فوراً فلاں جگہ پر پہنچیں، کوئی میری گاڑی کا ہینڈل، بریکیں اور کلچ وغیرہ چرا کر لے گیا ہے، تھوڑی دیر بعد انہوں نے دوبارہ فون کیا کہ آپ زحمت نہ کریں، میں غلطی سے پچھلی سیٹ پر بیٹھ گیا تھا۔
٭... ایک خاتون کا دانٹ خراب تھا جسے نکلوانے کے لئے وہ ڈینٹسٹ کے پاس گئیں۔ جب ان سے کہا گیا کہ منہ کھولیں تو خاتون نے منہ بہت زیادہ کھول دیا جس پر ڈینٹسٹ بولا: بی بی منہ اتنا زیادہ کھولنے کی ضرورت نہیں، میں نے باہر کھڑے ہو کر ہی آپ کا دانت نکالنا ہے‘‘۔
٭... ایک شخص نے اپنا خراب دانت نکلوانا تھا، وہ ایک سستے سے ڈینٹسٹ کے پاس گیا جس نے سڑک کے کنارے ہی اپنا کاروبار شروع کر رکھا تھا، اس سے دانت نکلوانے کی اجرت پوچھی تو وہ بولا میں فی دانت پانچ روپے لیتا ہوں۔ ان صاحب نے دانت نکلوا کر اسے دس روپے کا نوٹ دیا تو وہ اپنی جیب ٹٹول کر بولا:
''کھلے پیسے تو نہیں ہیں، ایسا کرو، ایک دانت اور نکلوا لو!‘‘۔
٭... ایک شخص فٹ پاتھ پر بیٹھے ایک دست شناس کے پاس گیا جس نے تختی پر یہ نوٹ لکھ کر لگا رکھا تھا کہ پچاس روپے میں دو سوال پوچھ سکتے ہیں۔ اس نے پچاس روپے دست شناسی کو دے کر پوچھا۔
''فی سوال پچیس روپے آپ کی فیس کچھ زیادہ نہیں؟‘‘ جس پر اس نے کہا:
''کوئی زیادہ نہیں، اب دوسرا سوال پوچھو!‘‘
اور‘ اب آخر میں کاشف مجید کی شاعری:
وہ شخص یونہی نہیں مہربان ہوتا ہے
کھرا نکلتا ہوں جب امتحان ہوتا ہے
میں آدھا خواب میں ہوں آدھا خواب سے باہر
عجیب طرح کا مجھ کو گمان ہوتا ہے
بتانا پڑتا ہے حیرت کے کس مقام پہ ہوں
اجالا میرے لیے امتحان ہوتا ہے
میں عشق کرتا ہوا اس مقام تک آیا
جہاں زمیں نہ کوئی آسمان ہوتا ہے
میں ہنستا رہتا ہوں گھر میں بھی اور باہر بھی
ہنسی ہنسی میں مرا امتحان ہوتا ہے
٭......٭......٭
کبھی نہ دیکھے خواب محبت سے پہلے
اور اک حالت تھی اس حالت سے پہلے
اپنے آپ سے دور بہت ہی دور تھا میں
بے زاری سے پہلے وحشت سے پہلے
کوئی میرے ساتھ رعایت کرتا تھا
من مانی کے بعد اجازت سے پہلے
خوبی ہے یا عیب مجھے معلوم نہیں
صورت دیکھتا ہوں میں سیرت سے پہلے
جانا ٹھیر گیا ہے کوئی دان کرے
تھوڑی بہت اداسی رخصت سے پہلے
کوئی قیامت ٹوٹنے والی ہے مجھ پر
ایک گنہ بس ایک قیامت سے پہلے
آج کا مطلع
اسے منظور نہیں چھوڑ جھگڑتا کیا ہے
دل ہی کم مایہ ہے اپنا تو اکڑتا کیا ہے