ہم الیکشن کی تاریخ ملنے تک چین
سے نہیں بیٹھیں گے: بلاول بھٹو زرداری
چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی و سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''ہم الیکشن کی تاریخ ملنے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے‘‘ اگرچہ اس سے کسی پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا اور ہم خود ہی پیچ و تاب کھاتے رہیں گے اس لیے اسی کو غنیمت سمجھیں گے کیونکہ کھانے کو کچھ تو دستیاب ہوگا، پیچ و تاب ہی سہی جبکہ ویسے بھی ایک عرصے سے معدہ خالی چلا آ رہا ہے اور پیٹ میں چوہے دوڑتے محسوس ہو رہے ہیں اور بلیاں جن کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہی ہیں جس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ وہ بھی ہمیں خالی پیٹ ہی دیکھنا چاہتی ہیں اور جلد از جلد اپنے ''سو چوہے‘‘ پورے کر کے بیرونِ ملک جانا چاہتی ہیں۔ آپ اگلے روز کراچی میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
پوری قوم نوازشریف کی منتظر ہے: شہبازشریف
سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''پوری قوم نوازشریف کی منتظر ہے‘‘ اور جو کچھ بھی ان کے ساتھ گزشتہ ادوار میں ہوتا رہا ہے اور جس کی بدولت وہ آج اس حالت کو پہنچے ہوئے ہیں‘ اس کا حساب لینا چاہتے ہیں اس لیے میں نے انہیں واپسی کا مشورہ نہیں دیا کیونکہ میں اس قوم کو بہت اچھی طرح سے جانتا ہوں، اسی لیے اپنے دورِ حکومت میں بھی انہیں واپس آنے سے روکے رکھا، اس لیے اگر وہ آئے تو اپنے فیصلے پر ہی آئیں گے اور جو کچھ یہاں متوقع ہے، اس کے لیے بھرپور تیار بھی ہوں گے۔ آپ اگلے روز لاہور میں رانا تنویر حسین اور رانا مشہودسمیت مختلف وفود سے ملاقات کر رہے تھے۔
نوازشریف واپس نہیں آئیں گے: سردار لطیف کھوسہ
سابق گورنر پنجاب اور ماہرِ قانون سردار لطیف کھوسہ نے کہا ہے کہ ''نوازشریف واپس نہیں آئیں گے‘‘ کیونکہ انہیں یہاں مقدمات کا سامنا کرنا پڑے گا، وہ مقدمات بھی‘ جو شہبازشریف حکومت میں ختم نہیں ہوئے اور اُس وقت حکومتی احباب کی جانب سے صرف اپنے مقدمات ختم کرانے پر ہی اکتفا کیا گیا تھا تاکہ ان کی راہیں صاف ہو سکیں جبکہ نواز شریف تین دفعہ پہلے بھی وزارتِ عظمیٰ کا مزہ چکھ چکے ہیں اس لیے اب دوسروں کا بھی حق بنتا ہے جو انہیں ملنا چاہئے؛ اگرچہ اول تو الیکشن ہوتے ہی نظر نہیں آتے، اور اگر ہو بھی گئے تواس میں کامیاب ہونا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ آپ اگلے روز شیخوپورہ میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
تمام پارٹیوں کی یکساں نمائندگی پر مشتمل
قومی حکومت بنائی جائے: سراج الحق
امیرِ جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کہا ہے کہ ''تمام پارٹیوں کی یکساں نمائندگی پر مشتمل قومی حکومت بنائی جائے‘‘ کیونکہ صرف اور صرف اسی صورت میں قوم ہماری خدمات سے فائدہ اٹھا سکتی ہے اور جس کا ماضی میں ہمیں ایک ہی بار موقع ملا تھا جب ضیاء الحق نے ایک دو وزارتوں سے نوازا تھا جبکہ اس کی پرویز مشرف کو بھی توفیق حاصل نہ ہوئی تھی اور ان کا دور بھی بنا وزارت ہی گزرگیا تھا، اس لیے موجودہ صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ قومی حکومت بنا کر تمام پارٹیوں کے حقوق کا یکساں خیال رکھا جائے۔ آپ اگلے روز اسلام آبادچیمبر میں خطاب کر رہے تھے۔
پس پردہ کوئی اور ہوتا ہے اور نشانے
پر سیاستدان: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ اور پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''پس پردہ کوئی اور ہوتا ہے اور نشانے پر سیاستدان ہوتے ہیں‘‘ اس لیے ضروری ہے کہ پس پردہ والے پردے سے باہر نکلیں اور سیاستدانوں کو حسبِ سابق اس خطرناک صورتحال سے باہر نکالیں جس میں وہ الیکشن کی وجہ سے دوچار ہیں اور اس مصیبت سے نکلنے کے لیے انہیں کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا اور جو الیکشن سے انکار بھی نہیں کر سکتے اور الیکشن کا سامنا کرنے کے لیے بھی تیار نہیں، اس لیے وقت آ گیا ہے کہ نشانے پر رکھنے کے بجائے سیاستدانوں کی دستگیری کی جائے اور انہیں اس دلدل سے نکالنے کا جتن کیا جائے۔ آپ اگلے روز خوشاب میں جے یو آئی ورکرز کنونشن سے خطاب کر رہے تھے۔
شفاف الیکشن سیاسی جماعتوں
کے بس کی بات نہیں:رضا ربانی
پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما اور سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے کہا ہے کہ ''شفاف الیکشن سیاسی جماعتوں کے بس کی بات نہیں‘‘ اس لیے غیر سیاسی جماعتوں سے درخواست ہے کہ موجودہ خطرناک صورتحال سے ملک کو نکالیں اور سیاسی جماعتوں کو راہِ راست پر لاکر شفاف الیکشن کرائیں خواہ اس میں دو‘ چار سال ہی کا وقت لگ جائے کیونکہ یہ انہی کا کام ہے اور ماضی میں بھی یہ خدمت کئی بار سرانجام دی جا چکی ہے۔ اس لیے امید ہے کہ حسبِ سابق قوم کو اس بحران سے نکالنے میں تاریخی کردار ادا کیا جائے گا۔ آپ اگلے روز معاشی بحالی اور سیاسی استحکام کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں یاسمین سحر کی غزل:
سر کی دستار گرانے کے لیے کافی ہیں
تیری باتیں ہی رلانے کے لیے کافی ہیں
حرف دو چار تسلی کے مجھے وہ کہہ دے
چھوڑ کر شہر کو جانے کے لیے کافی ہیں
زندگی ہاتھ میں پتھر لیے نکلی ہوئی ہے
راستے ٹھوکریں کھانے کے لیے کافی ہیں
تیری تصویریں پرانی پڑی ہیں میرے پاس
جو تری یاد دلانے کے لیے کافی ہیں
چار چھ لوگ جو بیٹھے ہیں سرہانے میرے
میری میت کو اٹھانے کے لیے کافی ہیں
زندگی کون سنے گا تری روداد یہاں
ایک دو باتیں زمانے کے لیے کافی ہیں
روٹھنے والے کی آنکھوں کی چمک کہتی ہے
ایک دو پھول منانے کے لیے کافی ہیں
ہاتھ میں کس لیے دیوان اٹھایا ہوا ہے
ایک دو غزلیں سنانے کے لیے کافی ہیں
خود کو تم فکر سے آزاد کرو میرے پاس
حوصلے درد چھپانے کے لیے کافی ہیں
ہو گا اک آدھ کوئی راہ دکھانے والا
لوگ رستے سے ہٹانے کے لیے کافی ہیں
رنگ بھرنا ہے حقیقت کا اگر تم نے سحرؔ
چار کردار فسانے کے لیے کافی ہیں
تم بھی مرنے کی سحرؔ کر لو کوئی تیاری
لوگ اب شور مچانے کے لیے کافی ہیں
آج کا مطلع
لرزشِ پردۂ اظہار کا مطلب کیا ہے
ہے یہ دیوار تو دیوار کا مطلب کیا ہے