وقت آ گیا ہے کہ لوگ اپنے محسن کو پہچانیں
اور بڑھ چڑھ کر استقبال کریں: حمزہ شہباز
سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ ''وقت آ گیا ہے کہ لوگ اپنے محسن کو پہچانیں اور بڑھ چڑھ کر اس کا استقبال کریں‘‘ کیونکہ وہ جس طرح کے حالات میں لوگوں کو چھوڑ کر گئے یہی ان کا اصل احسان ہے کہ قوم ان حالات کا مقابلہ کر کر کے جفاکش ہو چکی ہے اور اب ہر طرح کے حالات کا سامنا کر سکتی ہے اور بنیادی طور پر ایک قوم کو بہادر بنا دینا کوئی چھوٹا موٹا احسان نہیں۔ اگرچہ قوم ابھی مکمل طور پر بہادر نہیں ہوئی‘ اس لیے وہ اسے مزید بہادر بنانے کیلئے ایک بار پھر تشریف لا رہے ہیں تاکہ رہی سہی کسر بھی نکل جائے۔ اس لیے لوگوں کو چاہئے کہ پیشتر اس کے کہ انہیں وہیں بھیج دیا جائے ‘ جہاں سے وہ گئے تھے‘ ان کے استقبال میں کوئی کسر نہ چھوڑیں۔ آپ اگلے روز قصور میں ایک جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔
دو ہی جلسوں سے مخالفین کی ٹانگیں
کانپ گئیں: مقبول صدیقی
ایم کیو ایم کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے کہا ہے کہ ''دو ہی ٹائونز میں ہمارے جلسوں سے مخالفین کی ٹانگیں کانپ گئی ہیں‘‘ اگرچہ ٹانگیں کانپنے کا جلسوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور یہ کسی اور ہی سبب سے کانپتی ہیں کیونکہ مخالفین کی کانپیں ہی ٹانگا کرتی ہیں اور چونکہ ابھی کئی اور ٹائونز باقی ہیں جن میں ہم نے جلسے کرنے ہیں اس لیے مخالفین اپنی ٹانگوں کو مزید زحمت دینے کیلئے تیار رہیں جبکہ ہر جماعت اپنی ٹانگوں پر ہی کھڑی ہوتی ہے اور سارا زور ٹانگوں پر ہی ہوتا ہے اس لیے ہم سمیت سب کو چاہیے کہ اپنی ٹانگوں پر بھی توجہ مرکوز رکھیں کیونکہ مخالفین کے جلسوں سے وہ کانپ سکتی ہیں اور لینے کے دینے بھی پڑ سکتے ہیں۔ آپ اگلے روز فاروق ستار اور دیگران کے ہمراہ اورنگی ٹائون میں جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔
21 اکتوبر سے ملکی سیاست کا رنگ و
ماحول بدل جائے گا: رانا ثنا
سابق وفاقی وزیر داخلہ اورمسلم لیگ نواز کے مرکزی رہنما رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ ''21اکتوبر سے ملکی سیاست کا رنگ اور ماحول بدل جائے گا‘‘کیونکہ اگر میاں صاحب کو وہیں بھیجا گیا‘ جہاں سے وہ گئے تھے تو ملکی سیاست کا رنگ و روپ کافی سوگوار ہو جائے گا اور یہ تاریخ آئندہ کسی اور طریقے سے یاد کی جائے گی اور یہ بات صاحبِ موصوف کو وطن واپسی کے وقت یاد رکھنی چاہئے تھی؛ تاہم وہ ان مشیروں کی طبیعت درست ضرور کریں گے جنہوں نے انہیں واپس آنے پر مجبور کیا جبکہ اس کے ساتھ ہی ان کی صحت پر بھی منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں جس کے علاج کیلئے دوبارہ باہر جانا بھی ممکن نہ ہوسکے گا۔ آپ اگلے روز لاہور سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
لیاری ہمارا رہے گا‘ متحدہ کے دہشت گرد
ماضی کی حرکتیں دہرانا چاہتے ہیں: سعید غنی
پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما سعید غنی نے کہا ہے کہ ''لیاری ہمارا رہے گا، متحدہ کے دہشت گرد ماضی کی حرکتیں دہرانا چاہتے ہیں‘‘ اور اگر وہ ہمیں لیاری تک محدود کرنا چاہتے ہیں تو اس پر بھی تیار ہیں کیونکہ وہاں سے بھی اپنا حکم جاری کرکے کام چلا سکتے ہیں۔ نیز ماضی کی حرکتیں دہرانا کوئی اچھی بات نہیں ہے کیونکہ اگر ذہن زرخیز ہوتو نئی سے نئی حرکتیں بھی ایجاد کی جا سکتی ہیں جیسا کہ ہماری روایت ہے کہ پرانی حرکتیں کبھی نہیں دہرائیں بلکہ ہمیشہ تازہ طریقے اور حربے سامنے لاتے ہیں اور اگر وہ چاہیں تو یہ ہنر ہم سے سیکھ سکتے ہیں جو معمولی فیس کے عوض سکھایا جا سکتا ہے، اس لیے بہتر ہے کہ وہ پرانی حرکتوں کے بجائے نئے حربے سیکھ لیں تاکہ مستقبل میں بھی ان کے کام آ سکیں۔ آپ اگلے روز دیگر رہنمائوں کے ہمراہ لیاری میں ایک جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔
چیئرمین پی ٹی آئی وائرس ‘ خاتمہ
کریں گے: احسن اقبال
سابق وفاقی وزیر اور مسلم لیگ نواز کے مرکزی رہنما احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''چیئرمین پی ٹی آئی ایک وائرس ہیں‘ اس وائرس کا خاتمہ کریں گے‘‘ کیونکہ ان کی مقبولیت پورے ملک میں وائرس کی طرح پھیل چکی ہے اور ابھی تک اس کے خاتمے کیلئے کوئی ویکسین بھی تیار یا دریافت نہیں ہو سکی جبکہ اس کے خاتمے کے بغیر الیکشن کرانا نری حماقت ہو گا، اس لیے سارے کام چھوڑ کر اس کے تدارک کی کوئی تدبیر سوچنی چاہئے، پیشتر اس کے کہ پانی سر سے گزر جائے اور بھیگے سروں کے ساتھ کفِ افسوس ملتے رہیں جبکہ سر بھیگنے سے سرسام کا خطرہ بھی دو چند ہو جاتا ہے جس پر قوم ہمیں ہرگز معاف نہیں کرے گی۔ آپ اگلے روز ایک ورکرز کنونشن سے خطاب کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں سیالکوٹ سے محمود کیفی کی غزل:
یہ کوئی داستاں نہیں‘ یہ کوئی ماجرا نہیں
پیار کی انتہا نہ کہہ‘ پیار کی انتہا نہیں
کون ہے مجھ میں سوچتا‘ کون ہے مجھ میں بولتا
کتنا عجیب شخص ہوں‘ خود سے بھی آشنا نہیں
راز ہے میری زندگی‘ راز ہے میری موت بھی
عمر تمام ہو گئی‘ راز مگر کھلا نہیں
وہ مجھے ڈھونڈتا رہا‘ میں اُسے ڈھونڈتا رہا
میں اُسے مل سکا نہیں‘ وہ مجھے مل سکا نہیں
مجھ پہ پڑی مصیبتیں میرے عمل کے ہی سبب
مجھ پہ کرے گا ظلم وہ‘ ایسا مرا خدا نہیں
قلب ہے میرا ایک گُل‘ یاد ہے تیری بُوئے گُل
ہاں گل و بو کے درمیاں کوئی بھی فاصلہ نہیں
رنج تھا یہ کہ دوست نے میرا مذاق اُڑایا تھا
خوش ہوں کہ میرے حال پر میرا عدو ہنسا نہیں
جتنے پرانے دوست تھے چہرے سبھی کے یاد ہیں
نام بھی رکھتا یاد میں‘ اتنا تو حافظہ نہیں
یارو قرارِ قلب کو ڈھونڈو نہ مال و زر میں تم
دنیا کے مال نے کبھی سکھ کسی کو دیا نہیں
کتنے ہی شعر کہہ گیا‘ پھر بھی ہے کیفیؔ کہہ رہا
یہ تو سخن کی مشق ہے‘ شعر ابھی ہوا نہیں
آج کا مقطع
گلی گلی مرے ذرے بکھر گئے تھے ظفرؔ
خبر نہ تھی کہ وہ کس راستے سے گزرے گا