21 اکتوبر اتحاد کا دن‘ ترقی کے
نئے سفر کا آغاز ہوگا: شہبازشریف
سابق وزیراعظم شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''21اکتوبر اتحاد کا دن ہے، ترقی کے نئے سفر کا آغاز ہوگا‘‘ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ترقی بھی نئی قسم کی ہوگی بلکہ یہ پرانے طریقے سے اور ویسی ہی ہو گی جیسی پہلے ہمارے ادوار میں ہوتی رہی ہے، کیونکہ نواز شریف کا ترقی کرنے کا طریقہ ایک ہی ہے اور اسی طریقے سے زیادہ سے زیادہ ترقی ہو سکتی ہے۔ اگرچہ ہمارا طریقہ ذرا مختلف ہے جس کے ذریعے پہلے پاپڑ فروشوں اور فالودہ فروشوں وغیرہ کی ترقی کی جاتی ہے؛ اگرچہ وہ عارضی ہی ہوتی ہے؛ تاہم دنیا کی ہر چیز عارضی ہے اور کچھ بھی مستقل نہیں ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں پارٹی رہنمائوں سے ملاقات کر رہے تھے۔
سیاسی جماعتوں نے ایک دوسری کیلئے گنجائش
نہ نکالی تو سب کا نقصان ہوگا: مولانا فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ اور پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''سیاسی جماعتوں نے اگر ایک دوسرے کے لیے گنجائش نہ نکالی تو سب کا نقصان ہوگا‘‘اور جس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ پی ڈی ایم کی جماعتیں ایک دوسرے کے لیے گنجائش نکالیں اور ہر ممکن طریقے سے مخالفین کا راستہ بند کر دیں‘ ورنہ ان سے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ:
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں
اور اس کا ایک بہترین طریقہ یہ بھی ہے کہ کسی نہ کسی طرح انتخابات کی نوبت ہی آنے نہ دی جائے اور وہ کھڑے دیکھتے کے دیکھتے ہی رہ جائیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کر رہے تھے۔
ملک کو اندھیروں سے نکالنے کا اعلان
نوازشریف کریں گے: مریم نواز
سابق وزیراعظم نوازشریف کی صاحبزادی، مسلم لیگ نواز کی سینئر نائب صدر اور چیف آرگنائزر مریم نواز نے کہا ہے کہ ''ملک کو اندھیروں سے نکالنے کا اعلان نواز شریف کریں گے‘‘ اور ان کے اس اعلان کے ساتھ ہی ملک اندھیروں سے نکل آئے گا اور وہ اس کا اعلان پہلے بھی کر سکتے تھے لیکن وہ چار سال تک اس پر غورو خوض کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اگرچہ اس ملک میں انہیں تین بار حکومت سے نکال باہر کیا گیا لیکن اس کے باوجود وہ اسے اندھیروں سے نکالیں گے کیونکہ وہ خود بھی اب وہاں جا رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ کہیں اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں نہ مارتے پھریں، حالانکہ اندھیرے ختم کرنے کے لیے ان کی اپنی روشنی ہی کافی ہو گی۔ آپ اگلے روز لاہور میں پارٹی کے مختلف نمائندوں سے ملاقات کر رہی تھیں۔
گزری ہوئی دنیا سے
یہ ہونہار صحافی اور ادیب محمود الحسن کی تصنیف ہے جسے لاہور سے شائع کیا گیا ہے۔ انتساب شمس الرحمن فاروقی اور آصف فرخی کے نام ہے۔ نامور اور سینئر ادیب، نقاد اور مترجم محمد سلیم الرحمن پس سرورق لکھتے ہیں: ''شمیم حنفی صاحب نے محمود الحسن کو بجا طور پرادب کا ایک پُرشوق اور بے مثال قاری قراردیا ہے۔ یہ رائے محمود الحسن کے صرف ایک پہلو کا احاطہ کرتی ہے۔ حقیقت میں وہ ان ادیبوں کے روز و شب کے بارے میں متجسس ہے جن کے زورِ قلم سے اتنی تحیر خیز تحریریں ہمارے پاس آئی ہیں۔ یہ گزری ہوئی دنیا برصغیر پاک و ہند ہے اور ان لوگوں کی روداد ہے جن کی تصانیف سے ادب میں رونق رہے گی، کون ہے جو یہاں نہیں۔ منٹو، غلام عباس، سید سبط حسن، ناصر کاظمی، منیر نیازی، انتظار حسین، محمد کاظم، صوفی محمد ضیاء الحق، ڈاکٹر خورشید رضوی، اے حمید، شیخ صلاح الدین، الطاف فاطمہ، نیّرمسعود، شاہد حمید، اسلم فرخی۔ یادوں کا یہ خزینہ جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھنے والے فرد کی حیرانی کا آئینہ دار ہے‘‘، پس سرورق مصنف کی تصویر جبکہ سرورق کو مذکورہ بیشتر زعما کی تصاویر سے مزین کیا گیا ہے، اور شمیم حنفی اور محمد کاظم کے دیباچے اس پر مستزاد۔ اندازِ بیان دلکش، ادارہ اسے شائع کرنے پر مبارکباد کا مستحق ہے۔
اور‘ اب آخر میں امجد بابر کا تازہ کلام:
دریا موجود ہے ستارے پر
لوگ حیران تھے کنارے پر
تم نے آدھے پہ کیوں قناعت کی
میں تو راضی ہوں اتنے سارے پر
خواہشوں سے فرار ممکن ہے
شکر کرتے ہیں اب گزارے پر
یہ اُچکے تو بھاگ جائیں گے
ذمے داری ہے اِک تمہارے پر
کچے پکے کہ جھوٹے سچے ہیں
کتنے الزام ہیں پیارے پر
آپ کا شکریہ چلے آئے
یہ تو احسان ہے ہمارے پر
نفع تم سے نہیں لیا امجدؔ
چیز بیچی نہیں خسارے پر
٭......٭......٭
جرم دنیا میں یہ سنگین کیا ہے میں نے
ایک مومن کو تو بے دین کیا ہے میں نے
مجھ پہ الزام لگا روشنی پھیلانے کا
سادہ حرفوں کو بھی رنگین کیا ہے میں نے
یونہی جنگل میں وہ بے کار اُڑا کرتا تھا
اُس پرندے کو تو شاہین کیا ہے میں نے
جاں چھڑائی ہے محبت کے پرانے غم سے
ایسے میٹھے کو بھی نمکین کیا ہے میں نے
گھر وہ آسیب زدہ رات کے منظر جیسا
تیرے آنے پہ ہی تزئین کیا ہے میں نے
آنے والوں کے وسیلے سے ہے ہر دم رونق
دل کے دروازے کو مسکین کیا ہے میں نے
چھیڑ کر ماضی کے قصے کو دوبارہ امجدؔ
آج تو اُس کو بھی غمگین کیا ہے میں نے
آج کا مقطع
فاصلوں ہی فاصلوں میں جان سے ہارا ظفرؔ
عشق تھا لاہوریے کو ایک ملتانی کے ساتھ