نواز شریف کا آنا مجبوری نہیں
ملک کی ضرورت ہے: رانا ثنا
سابق وفاقی وزیر داخلہ اور مسلم لیگ نواز کے رہنما رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ ''نواز شریف کا آنا مجبوری نہیں‘ ملک کی ضرورت ہے‘‘ اگرچہ یہ ضرورت ملک کو اس وقت بھی لاحق تھی جب وہ اسے چھوڑ کر بیرونِ ملک علاج کے لیے گئے تھے اور مسلسل چار سال تک یہ ضرورت لاحق رہی لیکن وہ دیگر ملکوں کے دوروں میں مصروف رہے اور اب بھی اس لیے واپس آ رہے ہیں کہ ان کا آنا خود اُن کی اپنی ضرورت بن گیا ہے کیونکہ وہ ملک کو دوبارہ ترقی یافتہ بنانا اور دیکھنا چاہتے ہیں، اور اس کے لیے وہ اپنے پرانے نسخے بھی ساتھ لا رہے ہیں جن سے انہوں نے پہلے ملک کو ترقی یافتہ بنایا تھا اور انہیں وہ اپنے آپ سے جدا نہیں ہونے دیتے حالانکہ ؎
نہیں محتاج زیور کا جسے خوبی خدا نے دی
آپ اگلے روز ملتان میں پارٹی کے تنظیمی اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
جمہوریت اور الیکشن کو ایک شخص
کی واپسی کے لیے روکا گیا: بلاول بھٹو
سابق وزیر خارجہ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''جمہوریت اور الیکشن کو
ایک شخص کی واپسی کے لیے روکا گیا‘‘ حالانکہ اس واپسی کے بغیر بھی ٹھیک ٹھاک کام چل رہا تھا کیونکہ دیگر آزمودہ افراد اگر موجود ہوں تو کام چلانے کے لیے کسی اور کی ضرورت باقی نہیں رہتی جبکہ ہمیں بھی کئی بار آزمایا جا چکا ہے حالانکہ آزمائے ہوئے کو آزمانا پرلے درجے کی بیوقوفی ہے لیکن یہاں کسی بھی بات کی توقع کی جا سکتی ہے۔ آپ اگلے روز سانحہ کارساز کے حوالے سے منعقدہ تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
نواز شریف کی آمد کے اعلان سے
ہی مہنگائی کو ریورس گیئر لگ گیا: رانا تنویر
مسلم لیگ نواز کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر رانا تنویر حسین نے کہا ہے کہ ''نواز شریف کی آمد کے اعلان سے ہی مہنگائی کو ریورس گیئر لگ گیا‘‘ اور انٹر بینک میں ڈالر 3.6روپے اور سونا 6400روپے فی تولہ مہنگا ہو گیا ہے اور ہمارے خیال میں مہنگائی کا ریورس گیئر یہی ہوتا ہے اور اگر کچھ چیزیں سستی ہوئی ہیں تو یہ اُن چیزیں کو مزید مہنگا کرنے کی پیش بندی ہے کیونکہ اگر کوئی چیز دو روپے سستی کی جاتی ہے تو چند ہی دنوں بعد چار روپے مہنگی کر دی جاتی ہے اور دراصل اشیا کو سستا کرنا انہیں زیادہ مہنگا کرنے ہی کا ایک طریقہ ہوتا ہے تاکہ لوگ سمجھتے رہیں کہ یہ مزید سستی بھی ہو جائیں گی حتیٰ کہ وطن واپسی کے بعد بھی اسی طرح کے ریورس گیئر لگتے رہیں گے۔ آپ اگلے روز فیروز والہ میں نواز شریف کی آمد سے متعلق منعقدہ تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
امید تھی کہ نواز شریف 90ء کی دہائی
کی سیاست نہیں کریں گے: مصطفی نواز کھوکھر
پیپلز پارٹی کے سابق سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے کہا ہے کہ ''امید تھی کہ نواز شریف 90ء کی دہائی کی سیاست نہیں کریں گے‘‘ لیکن مبینہ طور پر وہ حسبِ سابق پھر ڈیل کر کے آ رہے ہیں اور خدشہ ہے کہ پھر وہی کچھ کریں گے جو پہلے کرتے رہے ہیں اور ان کی یہ مجبوری بھی ہے کیونکہ انہیں اور کچھ کرنا آتا بھی نہیں‘ حالانکہ ایک ہی کام مختلف طریقوں سے بھی کیا جا سکتا ہے اور ایک ہی طرح کے نتائج بھی حاصل کیے جا سکتے ہیں اور اس طرح کے تجربات کرتے رہنا چاہئے کیونکہ ایک کام کو ایک ہی طرح سے کرنے سے آدمی بور ہو جاتا ہے جبکہ آدمی بنیادی طورپر ورائٹی پسند واقع ہوا ہے لہٰذا وہ ہماری ساری امیدوں پر پانی پھیرتے نظر آتے ہیں اور یہ بات ان کے اپنے بھی حق میں نہیں جاتی۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک ٹی وی چینل سے گفتگو کر رہے تھے۔
جب بھی ملک پر مصیبت آئی ‘
اٹیچی کیس اٹھاکر بھاگے: حسن مرتضیٰ
پیپلز پارٹی وسطی پنجاب کے جنرل سیکرٹری حسن مرتضیٰ نے میاں نواز شریف کو خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''جب بھی ملک پر مصیبت آئی آپ اٹیچی کیس اٹھاکر بھاگے‘‘ اور اس وقت تک جو کچھ اکٹھا کیا تھا وہ بھی اٹیچی کیس میں ڈال کر لے گئے اور ایسا لگتا ہے کہ اب بھی اٹیچی کیس بھرنے ہی کے لیے واپسی ہو رہی ہے جبکہ ہمارا اٹیچی کیس بھرتے ہی خالی ہو جاتا ہے اور ہم اسے اٹھا کر کبھی بھاگے بھی نہیں ہیں بلکہ ڈٹ کر میدان ہی میں ٹھہرے رہتے ہیں کیونکہ ایسے کاموں میں بہادری کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں سانحۂ کار ساز کی برسی کے موقع پر خطاب کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں ہڈالی سے گل فراز کی غزل:
ایک عرصے بعد جا کے اُدھر دیکھتا رہا
حیران تو ہوا میں‘ مگر دیکھتا رہا
میں اپنے خاص عیب دکھاتا رہا اسے
لیکن وہ مجھ میں عام ہنر دیکھتا رہا
دنیا میں اور دیکھنے کو کیا بچے گا پھر
اتنا زیادہ تم کو اگر دیکھتا رہا
اک مرتبہ ہی دیکھتا تھا چاہے کوئی ہو
لیکن اسے تو بارِ دگر دیکھتا رہا
گزرے ہیں اس سفر میں مناظر کچھ ایسے بھی
میں دیکھ تو نہ سکتا تھا‘ پر دیکھتا رہا
یہ جو نظر وہاں سے ہٹائی نہیں کبھی
کیا صرف دیکھنا تھا‘ جدھر دیکھتا رہا
باغ بدن کی سیر کو نکلا تھا‘ گم ہوا
کیا کیا لگے ہوئے تھے ثمر‘ دیکھتا رہا
کچھ کا کچھ اس کی ایک نظر پڑنے سے ہوا
بالفرض اگر وہ اور ادھر دیکھتا رہا
میں کرنے کیا گیا تھا‘ مگر کیا کر آیا ہوں
گلؔ دیکھنا کہاں تھا‘ کدھر دیکھتا رہا
آج کا مطلع
اگر اس کھیل میں اب وہ بھی شامل ہونے والا ہے
تو اپنا کام پہلے سے بھی مشکل ہونے والا ہے