جب تک نیب کا ادارہ ختم نہ ہو‘ ملک
نہیں چل سکتا: شاہد خاقان عباسی
سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ نواز کے رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ''جب تک نیب کا ادارہ ختم نہ ہو‘ ملک نہیں چل سکتا‘‘ کیونکہ یہ ثابت ہو چکا ہے کہ عوام کی اکثریت آمدن سے زائد اثاثوں کو غلط نہیں سمجھتی بلکہ ان کی حمایت کرتی ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ وہ بار بار ایسے افراد کو منتخب کرتے ہیں، اس لیے جمہوری اصولوں کے مطابق وہی کرنا چاہئے جو عوام کی اکثریت چاہتی ہے بلکہ قانونی طور پر حکمرانوں کی ان خوبیوں سے متفق ہونا چاہئے کیونکہ معیشت جیسی بھی ہو‘ ملک اپنی جگہ پر موجود رہتا ہے اور کوئی زمین کے اتنے بڑے ٹکڑے کو اٹھا کر کہیں نہیں لے جا سکتا۔ نہ ہی اس طرح کی چھوٹی موٹی کرپشن سے کوئی ملک کنگال ہو سکتا ہے۔ آپ اگلے روز احتساب عدالت سے باہر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
میاں صاحب! کسی کی مدد سے نہ
آئیں‘ ورنہ گو نواز گو ہوگا: خورشید شاہ
پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر خورشید شاہ نے کہا ہے کہ ''میاں صاحب! کسی کی مدد سے نہ آئیں‘ ورنہ گو نواز گو ہوگا‘‘ کیونکہ پہلے جتنی بار بھی کسی کی مدد سے آئے ہر بار گو نواز گو ہی سے واسطہ پڑا اس لیے اگر آنا ہے تو کسی کی مدد کے بغیر آنا پڑے گا، ورنہ تاریخ دوبارہ اپنے آپ کو دہرائے گی کیونکہ وہ اس کام پر مجبور ہے۔ اگرچہ کسی کی مدد کے بغیر آنے والوں کو بھی اس قسم کے حالات سے واسطہ پڑ سکتا ہے کیونکہ حالات کسی کے بھی تابع نہیں رہتے، اس لیے میاں صاحب کو سوچنا چاہیے کہ اگر وہ آ گئے تو بھی ہر وقت اپنا بوریا بستر باندھے رکھنا پڑے گا کیونکہ روانگی کی سیٹی کسی بھی وقت بج سکتی ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
الیکشن جلد ہوتے دیکھ رہے ہیں: محسن نقوی
نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے کہا ہے کہ ''الیکشن جلد ہوتا دیکھ رہے ہیں‘‘کیونکہ اس میں جو سب سے بڑی رکاوٹ تھی وہ میاں صاحب کی سزائیں معطل ہونے سے دور ہو چکی ہے اور اب وہ الیکشن میں بھرپور حصہ لے سکتے ہیں جبکہ جو دیگر چھوٹی‘ موٹی رکاوٹیں ہیں انہیں بھی وہ دور کرنے کے طریقوں پر غور کر رہے ہیں اور اگر وہ اس کے باوجود اس کام میں کامیاب نہیں ہوتے تو ہم اس کے ذمہ دار نہ ہوں گے کیونکہ صورتحال بدستور جوں کی توں ہے اور اگر عوام کو موقع مل گیا تو سارا پلان تلپٹ بھی ہو سکتا ہے، اگرچہ حکومت نگرانی کے علاوہ بھی بہت کچھ کر سکتی ہے لیکن عوام کے سامنے کسی کی ایک نہیں چل سکتی۔
پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی
آپ اگلے روز جناح ہسپتال کے دورے کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
واپس آنے والے منڈیلا بھائی
سے مہنگائی کا حساب لیں: پرویزالٰہی
سابق وزیراعلیٰ و سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویزالٰہی نے کہا ہے کہ ''واپس آنے والے منڈیلا بھائی سے مہنگائی کا حساب لیں‘‘ اگرچہ وہ یہ کہہ کر لاجواب کر دیں گے کہ پہلے آپ اُس سب کا حساب دیں جو آپ کر گئے تھے جبکہ کوئی اور ان دونوں سے حساب لینے والا ہے ہی نہیں جبکہ سب مجھ سے حساب لینے کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں حالانکہ میں بھی انہیں اسی طرح لاجواب کر سکتا ہوں جبکہ نہ میرے پاس کوئی حساب کتاب ہے نہ ان کے پاس، کیونکہ اتنا کچھ کرنا اور پھر اس کا حساب کتاب رکھنا دو الگ الگ چیزیں ہیں اور ایک ہی وقت دو کام کیسے ہو سکتے ہیں۔ آپ اگلے روز عدالت پیشی کے موقع پر غیر رسمی گفتگو کر رہے تھے۔
جہاں نوازشریف کھڑے ہوں گے لوگوں کو
ان کے پیچھے لائن بنانا ہوگی: کیپٹن (ر) صفدر
مسلم لیگ نواز کے رہنما اور سابق رکن اسمبلی کیپٹن(ر) محمد صفدر نے کہا ہے کہ ''جہاں نوازشریف کھڑے ہوں گے لوگوں کو ان کے پیچھے لائن بنانا ہوگی‘‘ اور ان کیلئے یہ کوئی مشکل کام نہیں ہوگا کیونکہ آٹے اور چینی کیلئے قطاریں باندھ باندھ کر انہیں اس کا کافی تجربہ ہو چکا ہے اوراگر مہنگائی کا یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو ہر طرح کی اشیائے صرف انہیں قطار باندھ کر ہی ملا کریں گی۔ اور وہ اس فن میں پوری طرح ماہر ہو جائیں گے اور یہ سلسلہ بھی زیادہ دیر نہیں چلے گا کیونکہ جب لوگوں کے پاس کچھ خریدنے کیلئے پیسے ہی نہیں ہوں گے تو لائنیں لگنا خود ہی بند ہو جائیں گی اس لیے جب تک یہ نوبت نہیں آتی وہ نوازشریف کے پیچھے لائن لگا کر کھڑے ہو سکتے ہیں۔ آپ اگلے روز سیشن کورٹ گوجرانوالہ کے باہر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں سجاد بلوچ کے تازہ شعری مجموعے ''رات کی راہداری میں‘‘ سے یہ غزل:
ہماری آنکھ سے اوجھل نہیں ہے کوئی بھی پتلی
ہمیں معلوم ہے کس ہاتھ میں ہے کون سی پتلی
یہ جن کی انگلیوں پر ناچتی ہیں بس انہی کی ہیں
مگر بچے الجھتے ہیں مری پتلی‘ تری پتلی
اسے بھی باندھ رکھا ہے کسی تارِ تجسس نے
تماشائی تماشا گاہ میں ہے خود کوئی پتلی
ہمارا جی پرانی پتلیوں سے بھر گیا صاحب
تماشے کے لیے اب لائیے کوئی نئی پتلی
کسے معلوم اب پردے کے پیچھے چل رہا ہے کیا
کسے معلوم اب آتی ہے آگے کون سی پتلی
مداری دیکھنا کس کس طرح اس کو نچاتا ہے
اگر اک بار اس کی انگلیوں پر چڑھ گئی پتلی
ہماری پتلیوں میں تو گھڑی بھر دم نہیں پڑتا
یہ تم کیسے بنا لیتے ہو ہنستی کھیلتی پتلی
اے وحشت! رقص فرما ہو‘ اے تنہائی! تماشا کر
بھرے میلے میں ہم سے پھر کسی نے پھیر لی پتلی
تھکن ہے ہاتھ کی پوروں میں دن بھر کے تماشے کی
اور اب تخلیق کرنی ہے ہمیں اک خواب کی پتلی
آج کا مقطع
پیش رفت اور ابھی ممکن بھی نہیں ہے کہ ظفرؔ
ابھی اس شوخ پہ کچھ زور ہمارا کم ہے