آرٹیکل 254‘ کوئی کام تاخیر سے
غیر آئینی نہیں ہو جاتا: نگران وزیراعظم
نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ ''آئین کا آرٹیکل 254کہتا ہے کہ کوئی کام تاخیر سے ہونے کی وجہ سے غیر آئینی نہیں ہو جاتا‘‘ اس لیے اگر انتخابات تاخیر بلکہ تاخیر در تاخیر کا شکار ہو جائیں تو وہ غیر آئینی نہیں ہوں گے، نیز آئین پورے کے پورے عمل کا متقاضی ہے۔ یہ نہیں کہ کچھ آرٹیکلز پر عمل کیا جائے اور کچھ کو یونہی چھوڑ دیا جائے اس لیے آرٹیکل254کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جبکہ تاخیر کے حق میں کئی اور نظائر اور محاورے بھی دستیاب ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ مثلاً دیر آید درست آید، دیر ہی میں خیر ہے اور سہج پکے سو میٹھا ہو وغیرہ وغیرہ، اس لیے الیکشن کے عمل میں تاخیر اس کو زیادہ میٹھا کرنے کی کوشش بھی کہی جا سکتی ہے کیونکہ موجودہ صورتحال میں ملک چاشنی کا زیادہ سے زیادہ مستحق ہے۔آپ اگلے روز لاہور میں ایک یونیورسٹی کے طلبہ سے سیشن اور نگران وزیراعلیٰ سے ملاقات کر رہے تھے۔
نوازشریف کیلئے چوتھی بار وزیراعظم
بننا کافی بورنگ ہوگا: مشاہد حسین سید
مسلم لیگ نواز کے سینئر رہنما سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا ہے کہ ''نوازشریف کیلئے چوتھی بار وزیراعظم بننا کافی بورنگ ہوگا‘‘ کیونکہ موجودہ معاشی صورتحال ایسی ہے کہ حسبِ دل خواہ ترقی نہیں ہو سکے گی جبکہ ان حالات کیلئے انہوں نے چار سال انتظار نہیں کیا اور پارٹی عمائدین نے انہیں واپس بلا کر زیادہ عقلمندی کا ثبوت نہیں دیا جبکہ ہر بار ان کا مطمح نظر صرف اور صرف ترقی رہا ہے‘ نیز وہ اقتدار سے لطف اندوز ہونے کیلئے آئے تھے‘ بور ہونے کیلئے نہیں۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں اظہارِ خیال کر رہے تھے۔
معاشی بحالی کے آثار نمایاں ہو رہے ہیں: وزیر خزانہ
نگران وفاقی وزیر خزانہ شمشاد اختر نے کہا ہے کہ ''معاشی بحالی کے آثار نمایاں ہو رہے ہیں‘‘کیونکہ گھریلو صارفین کے لیے گیس کے نرخوں میں 172 فیصد تک اضافہ کر دیا گیا ہے اور اسی طرح بجلی کے نرخوں میں بھی اضافے کی اطلاعات ہیں جبکہ تنگی و ترشی کے اس زمانے میں کسی بھی چیز میں اضافہ ایک نیک شگون کی حیثیت رکھتا ہے جبکہ اس کی وجہ سے مہنگائی میں بھی اضافہ ہو گا جس کے اب عوام نہ صرف اچھی طرح عادی ہو چکے ہیں بلکہ اس سے لطف اندوز بھی ہونے لگے ہیں کیونکہ یہ ان کی سخت کوشی کا امتحان ہے جس میں وہ ہر صورت کامیاب ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں لہٰذا اسے معاشی بحالی ہی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے اور نگران حکومت بے حد اطمینان سے اس کی نگرانی کر رہی ہے۔ آپ اگلے روز کراچی کے دورے کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو کر رہی تھیں۔
چلّے نے مجھے نیا شیخ رشید بنا دیا ہے: شیخ رشید
عوامی مسلم لیگ کے سربراہ اور سابق وفاقی وزیر شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''چلّے نے مجھے نیا شیخ رشید بنا دیا ہے‘‘ جس سے شیخ چلی جیسی تاریخی شخصیت سے بھی میری ایک نسبت قائم ہو گئی ہے اور اس سے عوام کو میرے کام اور دیگر معاملات کو سمجھنے میں بے حد مدد مل سکتی ہے جبکہ ہر مقام اور مرتبہ ہر کسی کے لیے نہیں ہوتا یعنی:
یہ رتبۂ بلند ملا جس کو مل گیا
تاہم اس رتبے کو مزید بلند کرنے کے لیے ایک بار پھر چلہ کاٹا جا سکتا ہے جس کے لیے میں پوری طرح حاضر ہوں اور ترقی کے یہ مراحل سر کرنے پر میں اپنے میزبانوں کا بھی شکر گزار ہوں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
پوتیوں پر کسی مذہب کا
اطلاق نہیں ہوتا: جاوید اختر
معروف بھارتی شاعر اورنغمہ نگار جاوید اختر نے کہا ہے کہ ''میری پوتیوں پر کسی مذہب کا اطلاق نہیں ہوتا‘‘ اس طرح ہم نے اپنے ''سیکولر‘‘ ہونے کا ثبوت دیا ہے اور جس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ وزیراعظم مودی کی تمام تر کوششوں کے باوجود بھارت میں ابھی تک سیکولرازم ہی کا دور دورہ ہے جسے پنڈت جواہر لال نہرو نے متعارف کرایا تھا اور ''پنج شیل‘‘ کا پروگرام اپنے ہاتھوں سے تحریر کیا تھا جبکہ خود مجھے اس سیکولر میں حصہ ڈالنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ
اگر پدر نتواند پسر تمام کند
یعنی جو کام باپ سے نہ ہو سکتا ہو‘ وہ بیٹا مکمل کر دے اور میں سمجھتا ہوں کہ میری اولاد نے کافی حد تک خاندان کا نام روشن کر دیا ہے۔ آپ اگلے روز دبئی میں ایک انٹرویو کے دوران اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں لاہور سے حسین ثاقب کی دو غزلیں:
نظر میں خواب سینے میں کوئی دھڑکن نہیں باقی
خدا کا شکر ہے اب دل میں کچھ الجھن نہیں باقی
ہماری دوستی کے وار سے سب خوف کھاتے ہیں
جہاں میں اب ہمارا ایک بھی دشمن نہیں باقی
امیدِ دلربائی ہو کہ کوئی وصل کی خواہش
ہزاروں ولولے زندہ ہیں پر جیون نہیں باقی
گلابی خط پہ پھر لکھیں لہو سے داستانِ دل
بہت معصوم ہیں جذبے مگر بچپن نہیں باقی
تمہارے فیض سے روشن تھی فکر و فن کی یہ دنیا
بہت مدت سے اب دنیا میں فکر و فن نہیں باقی
بہت تابندگی ہے زندگانی میں مگر ثاقبؔ
کسی کی آنکھ کے درپن کے اب درشن نہیں باقی
٭......٭......٭
اس دہر میں یہ کام سرِ دست ہو کیسے
دل بادۂ الفت سے نہ سرمست ہو کیسے
اک آہِ دلِ زار کا پیکانِ فلک گیر
نہ سینۂ افلاک میں پیوست ہو کیسے
جس کے لیے ہر راہِ محبت تھی کشادہ
اس عہدِ ستم خیز میں پابست ہو کیسے
ہر چیز کا رخ گو کہ دنایت کی طرف ہے
اک حوصلۂ عشق مگر پست ہو کیسے
اس کے لیے صدیوں کا سفر چاہئے جاناں
یہ فاصلہ طے اب کے بیک جست ہو کیسے
ہیں ایک محبت کے طلبگار ہزاروں
اقلیمِ دلِ سوختہ چک بست ہو کیسے
ثاقبؔ کو میسر تھی جو کل الفتِ دلدار
اب بود کے عالم میں مگر ہست ہو کیسے
آج کا مطلع
بس ایک بار کسی نے گلے لگایا تھا
پھر اس کے بعد نہ میں تھا نہ میرا سایا تھا