آئی ایم ایف کو خدا حافظ کہہ دیا تھا، معاشی
ترقی کیلئے استحکام لازم ہے: نوازشریف
سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''اپنے دور میں آئی ایم ایف کو خدا حافظ کہہ دیا تھا، معاشی ترقی کے لیے استحکام لازم ہے‘‘ اگرچہ الیکشن سمیت سارا کچھ آئی ایم ایف کی شرائط اور ہدایات کے تحت ہو رہا ہے جبکہ خدا حافظ کہنا بھی ایک دعا ہی تھی کہ خدا آپ کی حفاظت کرے کیونکہ وہ اگر ہمارے لیے دوا کا اہتمام کر سکتے ہیں تو ہمیں کم از کم ان کے حق میں دُعا تو کرنی ہی چاہئے، اور اگر خدا حافظ کا عمومی مطلب لیا جائے تو بھی اسے ایک سیاسی بیان کہا جا سکتا ہے جس کی اہمیت کو اب ہر کوئی اچھی طرح سے سمجھتا ہے اور معاشی ترقی کے لیے جس استحکام کی ضرورت ہے وہ یوں سمجھیے کہ میری وطن واپسی کے ساتھ ہی ملک میں داخل ہو چکا ہے۔ آپ اگلے روز پارٹی کے مرکزی سیکرٹریٹ ماڈل ٹائون میں ایک پارٹی اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
نوازشریف کے ساتھ میری
نااہلی بھی ختم ہو گئی: جہانگیر ترین
استحکام پاکستان پارٹی کے پیٹرن انچیف جہانگیر خان ترین نے کہا ہے کہ ''نوازشریف کے ساتھ میری نااہلی بھی ختم ہو گئی‘‘ اگرچہ اس کا آخری فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے لیکن اگر (ن) لیگ والے سمجھ رہے ہیں کہ نوازشریف کی ناہلی ختم ہو گئی ہے تو مجھے بھی ایسا سمجھنے کا حق حاصل ہے، اس لیے اب اس سلسلے میں کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہنا چاہئے اور اب وقت آ گیا ہے کہ قوم تمام شکوک و شبہات سے باہر نکل آئے کیونکہ قومیں وہی ترقی کرتی ہیں جو شکوک و شبہات سے دور رہتی ہیں اور ہماری طرح ان کا یقین پختہ ہوتا ہے۔ آپ اگلے روز مولانا طارق جمیل کے بیٹے کی وفات پر ان سے اظہارِ تعزیت کر رہے تھے۔
نوازشریف نے واپس آنا ہی تھا‘ ڈیل
کی خبریں بے بنیاد ہیں: سعد رفیق
سابق وفاقی وزیر ریلوے اور مسلم لیگ نواز کے مرکزی رہنما خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ''نوازشریف نے واپس آنا ہی تھا‘ ڈیل کی خبریں بے بنیاد ہیں‘‘ اور لندن میں ڈیل کا انتظار نہیں کیا جا رہا تھا بلکہ دنیا کی بے ثباتی پر غور و خوض ہو رہا تھا اور اب وہ کام مکمل ہوا ہے تو میاں صاحب واپس آ گئے ہیں بلکہ پہلے بھی کبھی ڈیل کرکے باہر نہیں گئے تھے اور مشرف دور میں جو دس سال کا تحریری معاہدہ تھا‘ اس وقت بھی مطمح نظر وہی تھا کیونکہ دنیا کی بے ثباتی پر غور کرنا کوئی معمولی کام نہیں ہے؛ چنانچہ اب جا کر یہ یقین ہوا ہے کہ دنیا واقعی بہت بے ثبات ہے، اور اب چونکہ یہ کام مکمل ہو چکا ہے اس لیے اب باہر جانے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ آپ اگلے روز پارٹی کے مرکزی سیکرٹریٹ ماڈل ٹائون لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
آنے والے دنوں میں
سرپرائز دیں گے: علیم خان
استحکام پاکستان پارٹی کے صدر عبدالعلیم خان نے کہا ہے کہ ''ہم آنے والے دنوں میں سرپرائز دیں گے‘‘ اگرچہ یہ کوئی سرپرائز نہیں ہوگا کیونکہ جو کچھ ہوگا لوگ اسے پہلے سے ہی جانتے ہیں؛ تاہم کچھ حلقوں اور لوگوں کے لیے یہ ضرور سرپرائز ہوگا جو بہت بلند امیدیں لگائے بیٹھے ہیں کیونکہ موجودہ حالات میں اگر کوئی سرپرائز بچا ہے تو صرف ایک پارٹی کے لیے ہی، اور وہ بھی کوئی خاص سرپرائز نہیں ہوگا کیونکہ اس کے بارے بھی لوگ اچھی طرح سے جانتے ہیں، اس لیے اپنی اپنی جگہ پر سب خاطر جمع رکھیں اور اس کے حوالے سے مزید اقدامات کے منتظر رہیں کیونکہ :
مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے
آپ اگلے روز اوچ شریف میں پی ٹی آئی کے سابق ایم پی اے افتخار حسین گیلانی سے ملاقات کر رہے تھے۔
پیپلزپارٹی مساوی مواقع کا
رونا نہ روئے: مریم اورنگزیب
سابق وفاقی وزیر اطلاعات اور مسلم لیگ نواز کی رہنما مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''پیپلزپارٹی مساوی مواقع کا رونا نہ روئے‘‘ کیونکہ مساوی مواقع کا مطالبہ وہی کر سکتاہے جو مساوی حیثیت بھی رکھتا ہو لیکن اگر کلیئرنس ہی نہ ملی ہو تو مساوی مواقع کا مطالبہ کیسے کیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ کلیئرنس کے حوالے سے یہ خیال ہی ہے کیونکہ اشارے صرف اشارے ہوتے ہیں جو اتنے واضح نہیں ہوتے اور یہ بات اشارہ کرنے والوں کو بھی اچھی طرح سے معلوم ہے اور اشارے وصول کرنے والوں کو بھی حتیٰ کہ بعض اوقات جسے اشارہ سمجھا جاتا ہے وہ در حقیقت اشارہ ہوتا ہی نہیں۔ آپ اگلے روز پارٹی کے مرکزی سیکرٹریٹ میں نوازشریف کی زیرِ صدارت اجلاس میں اظہارِ خیال کر رہی تھیں۔
اور اب آخر میں سجاد بلوچ کے تازہ شعری مجموعہ ''رات کی راہداری‘‘ میں سے ایک غزل:
پڑ گئی شام جب اس راہ میں بیٹھے بیٹھے
موجہ گرد نے پوچھا یہاں کیسے بیٹھے
ہر مسافر پہ ہمیں تیرا گماں ہوتا تھا
گرد کے ساتھ کئی بار ہیں اٹھے بیٹھے
اسے معلوم تھا یہ شامِ جدائی ہے سو ہم
آخری بار بہت دیر اکٹھے بیٹھے
میں نے کیا کرنا ہے اس قیمتی گلدستے کو
دوست ہے وہ تو مصیبت میں سرہانے بیٹھے
تو گھنا پیڑ سہی پر مرے دشمن کا ہے
اب مرے جیسا ترے سائے میں کیسے بیٹھے
بیٹھے ہیں اگلی نشستوں پہ تجھے دیکھنے کو
ورنہ ہم خالی کلاسوں میں بھی پیچھے بیٹھے
کیا مکدّر تھی فضا دل کی مگر اب دیکھو
چند بوندیں پڑیں اور کیسے بگولے بیٹھے
ہم ہی تھے محفلِ یاراں ترے بنیاد گزار!
رہ گئے ہم ہی سرِ شام اکیلے بیٹھے
آج کا مطلع
بے وفائی کرکے نکلوں یا وفا کر جاؤں گا
شہر کو ہر ذائقے سے آشنا کر جاؤں گا