یہ پی ٹی آئی کے سبق سیکھنے
کا وقت ہے: بلاول بھٹو
سابق وزیر خارجہ اور چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''یہ پی ٹی آئی کے سبق سیکھنے کا وقت ہے‘‘ جبکہ دوسری پارٹیوں کو اس کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہ پہلے ہی سارے سبق سیکھی ہوئی ہیں جو انہیں ازبر بھی ہیں اور وہ فر فر سنا بھی سکتی ہیں جبکہ پی ٹی آئی کے علاوہ باقی پارٹیاں تو سبق سکھانے والوں میں سے ہیں اور ہر بار عوام کو سبق سکھاتی آئی ہیں لیکن عوام یہ سبق فراموش کرکے اگلی بار پھر انہیں ہی کامیاب کرانے کو تیار ہو جاتے ہیں جبکہ پی ٹی آئی کے لیے سبق یہ ہے کہ وہ اب چند برس کے لیے آرام کرے اور اس سبق کو یاد رکھتے ہوئے معززین کی اچھی کتابوں میں آنے کی کوشش کرے جس کے طریقے ہم انہیں مفت بتا سکتے ہیں۔ آپ اگلے روز میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
لشکری رئیسانی‘ (ن) لیگ
میں آ جائیں: شہباز شریف
سابق وزیراعظم اور (ن) لیگ کے صدر میاں شہباز شریف نے لشکری رئیسانی کو دعوت دیتے ہوئے کہا ہے کہ ''(ن) لیگ میں آ جائیں‘‘ اگرچہ اس سے (ن) لیگ کو کوئی فرق پڑے گا نہ بلوچستان نیشنل پارٹی کو کیونکہ دونوں جماعتوں کا سیاسی مستقبل عوام نے طے کرنا ہے‘ اگر جیت گئے تو کیا کہنے لیکن اگر ہار گئے تو ہارنے کے بعد ایک دوسرے سے یہ تو کہہ سکیں گے کہ:
آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں
تو ہائے گل پکار میں چلاؤں ہائے دل
نیز مشکل کے دنوں میں اکٹھا رہنے سے دکھ درد میں افاقہ ہوتا ہے۔ آپ اگلے روز بلوچستان نیشنل پارٹی کے سابق رہنماؤں کے وفد سے ملاقات کر رہے تھے۔
معیشت کو درست کرنا حکومت
کی اولین ترجیح ہے: انیق احمد
نگران وفاقی وزیر مذہبی امور انیق احمد نے کہا ہے کہ ''معیشت کو درست کرنا ہماری اولین ترجیح ہے‘‘ اگرچہ ہم صرف نگرانی کرنے کے لیے آئے تھے لیکن سوچا ہے کہ لگے ہاتھوں معیشت کو بھی درست کرتے چلیں کہ یہ کام بالآخر ہم نے ہی کرنا ہے کیونکہ بقول الیکشن کمیشن ایک اعلیٰ عہدیدار انتخابات کو مشکوک بنانے میں مصروف ہے اور ایسا لگتا ہے کہ وہ اس حوالے سے کچھ نہ کچھ کرکے ہی چھوڑے گا‘ اس لیے آئندہ برسوں میں بھی ہم نے ہی عوام کی خدمت کرنی ہے‘ اس دوران اور کاموں کے ساتھ ساتھ معیشت بھی درست ہوتی رہے گی اور مہنگائی بھی بڑھتی رہے گی کہ دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ آپ اگلے روز ایک عشایئے میں خطاب کر رہے تھے۔
نواز شریف چار دن جیل جاتے
تو ان کا قد بڑھ جاتا: خورشید شاہ
سابق وفاقی وزیر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ ''نواز شریف چار دن جیل جاتے تو ان کا قد بڑھ جاتا‘‘ کیونکہ ہمارے قائد 11سال تک جیل میں رہے ہیں جس سے ان کا سیاسی قد اس قدر بڑھ گیا ہے کہ اب باقی سارے لیڈرز ان کے مقابلے میں پست قامت لگتے ہیں جبکہ سیاسی قد بڑھانے کا اس سے بہتر نسخہ کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا‘ اس لیے اب بھی وقت ہے کہ وہ جیل چلے جائیں تاکہ ان کے سیاسی قد کاٹھ میں مزید اضافہ ہو سکے۔ آپ اگلے روز ایک پارٹی رہنما کی والدہ کی وفات پر تعزیت اور میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
الائنس کرانا سیاست میں مداخلت ہے: کائرہ
پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ ''الائنس کرانا سیاست میں مداخلت کے مترادف ہے‘‘ کیونکہ ہر جگہ ہمارے خلاف ہی الائنس ہو رہا ہے جبکہ یہ اپنے آپ نہیں ہو رہا بلکہ کرایا جا رہا ہے جس کا مطلب یہی ہے کہ الائنس کرانے والوں کو ہم نظر ہی نہیں آتے‘ اس لیے انصاف کا تقاضا ہے کہ ہمارے ساتھ بھی الائنس کرایا جائے کیونکہ صرف ایک جماعت کے ساتھ الائنس کرانے کو ہم سیاسی مداخلت سمجھتے ہیں اور اس سے لیول پلیئنگ فیلڈ کے امکانات بھی محدود ہو جاتے ہیں۔ آپ اگلے روز جہانیاں میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اور اب آخر میں ڈاکٹر ابرار احمد کی نظم:
دوامِ وصل کا خواب
پکی گندم کے خوشوں میں
اُمڈتے دن کے ڈیروں میں
اندھیرے کی گھنی شاخوں
پرندوں کے بسیروں میں
تھکے بادل سے گرتے نام کے اندر
اترتی شام کے اندر
دوامِ وصل کا اک خواب ہے
جو سانس لیتا ہے
مہکتی سر زمینوں میں
مکانوں میں مکینوں میں
ترے میرے علاقوں میں
ہمارے عہد ناموں میں
لرزتے بادبانوں میں
کہیں دوری کے گیتوں میں
کہیں قربت کی تانوں میں
ازل سے تا ابد پھیلی ہوئی
اس چادرِ افلاک کے اندر
ردائے خاک کے اندر
ہماری نیند کی گلیوں میں
اپنی دھن بجاتا ہے
مکان عافیت کے بند دروازے گراتا ہے
آج کا مطلع
اگر اس کھیل میں اب وہ بھی شامل ہونے والا ہے
تو اپنا کام پہلے سے بھی مشکل ہونے والا ہے