مجھے نظر لگ گئی ہے‘ نوازشریف
کو کب لگتی ہے‘ انتظار کروں گا: شیخ رشید
سابق وفاقی وزیر داخلہ اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''مجھے نظر لگ گئی، نوازشریف کو کب لگتی ہے انتظار کروں گا‘‘ اگرچہ ان کو نظر لگنے کے کوئی زیادہ امکانات نہیں ہیں کیونکہ انہیں ہر طرف سے پوری تسلی کے بعد واپس بلایا گیا؛ تاہم نظر ایک ایسی چیز ہے کہ یہ کسی بھی وقت کسی کو بھی لگ سکتی ہے جیسا کہ مجھے لگ گئی جبکہ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ باقیوں کو بھی نظر لگنی چاہئے چنانچہ میں اس سے بات کروں گا کہ میاں صاحب مجھ سے زیادہ نظر لگنے کے قابل ہیں‘ ان پر بھی کچھ توجہ دی جائے۔ آپ اگلے روز راولپنڈی میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
ملکی تاریخ کے مشکل ترین الیکشن
ہونے جا رہے ہیں: حمزہ شہباز
سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ ''ملکی تاریخ کے مشکل ترین الیکشن ہونے جا رہے ہیں‘‘ کیونکہ ایک تو اب تک کوئی واضح اشارہ نہیں ہوا اور جس کا مطلب ہے کہ اپنے ہی دم پر کھیلنا ہوگا اور یہ مشکل پہلی بار پیش آ رہی ہے، دوسرا یہ کہ مخالفین نے ہر نشست پر اپنا امیدوار کھڑا کرنے کا دعویٰ کیا ہے حالانکہ خیال تھا کہ الیکشن سے پہلے پہلے میدان صاف ہو جائے گا جبکہ ابھی تک ان کے کیسز کا ہی کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا حالانکہ اس ضمن میں بھی تسلی کرائی گئی تھی اور اب سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا کریں اور کیا نہ کریں، لہٰذا ایسی صورت میں الیکشن مشکل ترین ہونے جا رہے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
نگران حکومت اپنی حدود
میں رہے: حافظ حمد اللہ
پی ڈی ایم اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ترجمان حافظ حمد اللہ نے کہا ہے کہ '' نگران حکومت اپنی حدود میں رہے‘‘ اگرچہ وہ ہر وہ کام کر رہی ہے جو اس سے ہو رہا ہے اور جو کام اس کے کرنے کا ہے یعنی نگرانی‘ اس کی طرف پوری توجہ نہیں ہے اور ہم بڑے غور سے اس کی نگرانی کرنے میں لگے ہوئے ہیں کیونکہ ویسے بھی اس وقت کوئی کام نہیں ہے اوراب تک بھی وہی کچھ کرتے رہے جو کرنے کا کام نہیں لیکن فارغ بیٹھنے سے بہتر ہے کہ انسان کام میں مصروف رہے، اس لیے نگران حکومت کو زیادہ موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا، جبکہ یہ بیان بھی اسی لیے دیا کہ آخر کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی چاہیے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
بریانی
ایک صاحب ایک ریستوران میں بیٹھے تھے کہ ایک اور صاحب سے ان کی ملاقات ہو گئی۔ باتوں باتوں میں قربت بڑھی تو وہ ان سے بولے: اس ریستوران میں بیف بریانی اچھی بنتی ہے، کیا آپ شوق فرمائیں گے؟
جس پر دوسرے صاحب بولے: ''میں نے زندگی میں ایک ہی بار بریانی کھائی تھی، اس کے بعد کبھی اسے ہاتھ تک نہیں لگایا‘‘۔
''پان کھاتے ہوں تو وہ منگوا کر پیش کروں‘‘ پہلے صاحب بولے، جس پر جواب ملا: ''پان زندگی میں صرف ایک ہی بار کھایا تھا‘‘۔
ان صاحب نے پھر پوچھا: سگریٹ پیتے ہوں تو منگوا کر دوں؟
اس پر جواب ملا: ''سگریٹ بھی میں نے زندگی میں ایک ہی بار پیا تھا‘‘۔
اس پر پہلے صاحب نے پوچھا: یہ لڑکا آپ کے ساتھ کون ہے؟ جواب ملا: یہ میرا بیٹا ہے۔
وہ صاحب بولے:یہ بھی ایک ہی بار پیدا ہوا ہو گا۔
اور‘ اب آخر میں افضال نوید کی غزل:
کیا کیا نہ ہونا چاہیے تھا اُس سے کیا ہوا
کس کس کو رونا چاہیے تھا اُس سے کیا ہوا
اِس جسم کو لیے لیے پھرنا تھا کب تلک
کب تھک کے سونا چاہیے تھا اُس سے کیا ہوا
کس کس جگہ پہ خاک بسر ملتے ہیں ہمیں
موتی پرونا چاہیے تھا اُس سے کیا ہوا
الزامِ مَے سے دست و گریباں رہے بہت
ہاتھوں کو دھونا چاہیے تھا اُس سے کیا ہوا
آیا تھا جامِ وقت بڑی مشکلوں سے ہاتھ
خود کو ڈبونا چاہیے تھا اُس سے کیا ہوا
خوابِ نمو سے سلسلۂ سرو و یاسمن
کیاری میں بونا چاہیے تھا اُس سے کیا ہوا
ہر بار آسمان کو ہم لے کے سو گئے
اپنا بچھونا چاہیے تھا اُس سے کیا ہوا
جگہ بچی رہی گزرے دنوں کے بیچ
پل پل سمونا چاہیے تھا اُس سے کیا ہوا
یادوں کے ڈھیر لگ گئے دالان میں مرے
سامان ڈھونا چاہیے تھا اُس سے کیا ہوا
ہم دوسروں کے کھیل کو غارت کیے رہے
اپنا کھلونا چاہیے تھا اُس سے کیا ہوا
آیا تھا ایک قریۂ خود رفتگی نویدؔ
تا دیر کھونا چاہیے تھا اُس سے کیا ہوا
آج کا مطلع
جیسی اب ہے اسی حالت میں نہیں رہ سکتا
میں ہمیشہ تو محبت میں نہیں رہ سکتا