الیکشن کمیشن پر اعتماد‘ شفاف
الیکشن کرائے گا: آصف زرداری
سابق صدرِ مملکت اور پاکستان پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنما آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''الیکشن کمیشن پر اعتماد ہے، شفاف الیکشن کرائے گا‘‘ جبکہ الیکشن کو داغدار اور دھاندلی زدہ کرنا کمیشن کا نہیں بلکہ اُن مخالف جماعتوں کا کام ہوتا ہے جو حکومت میں ہوں یا حکومت میں ان کا کوئی عمل دخل ہو کیونکہ ان کو خدشہ ہوتا ہے کہ کامیاب حریفوں نے ہونا ہے۔ اس لیے صاف ظاہر ہے کہ یہ کام حسبِ معمول کون سی جماعت کرے گی لیکن ہمارے ہاتھ بھی بندھے نہیں ہوئے اور یہ سارے سبق ہم نے بھی پڑھ رکھے ہیں اور لوہے کو لوہا ہی کاٹتا ہے‘ اس لیے نہ وہ ہمیں روک سکیں گے‘ نہ ہم انہیں اور حساب برابر ہی رہے گا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایرانی سفیر سے ملاقات کر رہے تھے۔
ہمیں مضبوط حکومت
درکار ہے: احسن اقبال
مسلم لیگ نواز کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''ہمیں مضبوط حکومت درکار ہے‘‘ کیونکہ جو اصلاحات کا کام ہم نے کرنا ہے اس کے لیے مضبوط حکومت ہی کی ضرورت ہو گی اور یہ نہیں ہوگا کہ نیب یا دوسرے ادارے کام میں داخل اندازی کیلئے ہر چوتھے دن دروازہ پیٹنا شروع کر دیں؛ اگرچہ اب تک کچھ ثابت نہیں ہو سکا او ر اگر یقین نہ آئے تو ریکارڈدیکھ لیا جائے اور اب توسب کی سزائیں بھی معطل ہو چکی ہیں اس لیے حکومت اس قدر مضبوط ہونی چاہیے کہ راستے کی جو بھی رکاوٹیں ہیں انہیں دور کر سکیں اور اپنا کام خوش اسلوبی کے ساتھ کر سکیں۔ آپ اگلے روز نارووال میں ورکرز کنونشن سے خطاب کر رہے تھے۔
سیاسی جماعتیں سمجھ لیں‘ اب بیان
بازی سے کام نہیں چلے گا: چودھری شجاعت
مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چودھری شجاعت حسین نے کہا ہے کہ ''سیاسی جماعتیں سمجھ لیں‘ اب بیان بازی سے کام نہیں چلے‘‘ بلکہ اب ہاتھ پیر بھی ہلانا ہوں گے جبکہ صرف بیان بازی پر اکتفا کرنا ویسے بھی بزدلی کی نشانی ہے جبکہ قدرت نے زبان کے علاوہ آدمی کو ہاتھ پیر بھی دیے ہیں اس لیے سب سے کام لینا چاہئے کیونکہ اگر کچھ اعضا سے کام نہ لیا جائے تو وہ پڑے پڑے بیکار ہو جاتے ہیں اور انہیں بوقتِ ضرورت استعمال نہ کرنا ویسے بھی ان کی توہین کے مترادف ہے اور اگر صرف زبان سے کام لیا جائے تو وہ کثرتِ استعمال کا شکار ہو جاتی ہے اس لیے تمام اعضا کو استعمال کا برابر کا موقع دینا نہایت ضروری ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں مختلف سیاسی رہنمائوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
نوازشریف کے ہر دور میں
ملک نے ترقی کی: لیگی رہنما
مسلم لیگ نواز کے رہنما مہر یاسر سعید نے کہا ہے کہ ''نوازشریف کے ہر دور میں ملک نے ترقی کی‘‘ اور اس کا اندازہ ان کی اپنی ترقی سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے اور اب چوتھی بار وزیراعظم بن کر وہ ملک کو ایک بار پھر ترقی یافتہ بنانا چاہتے ہیں اور کسی بھی ملک کے وزیراعظم کی ترقی سے ہی اس ملک کی اپنی ترقی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے اس لیے ایسا لگتا ہے کہ ان کے پھر سے وزیراعظم بننے کے بعد ملک ایک بار پھر ترقی کے دروازے پر کھڑا ہو جائے گا۔ آپ اگلے روز قصور میں ایک ریلی سے خطاب کر رہے تھے۔
شوہر کے ساتھ رومانوی کردار
کرتے شرم آتی ہے: رابعہ کلثوم
اداکارہ رابعہ کلثوم نے کہا ہے کہ ''شوہر کے ساتھ رومانوی کردار کرتے ہوئے شرم آتی ہے‘‘ کیونکہ ایک تو شوہر کے ساتھ چوبیس گھنٹے رہتے رہتے ویسے ہی بوریت اور بیزاری ہو جاتی ہے۔ اوپر سے اس کے ساتھ رومانوی کردار کرنے سے زیادہ بورنگ بات اور کیا ہو سکتی ہے اور اگر یہ کام اتنا ہی آسان ہے تو کوئی اداکارہ اپنے شوہر کے ساتھ رومانوی کردار ادا کر کے دکھائے۔ ویسے بھی اگر وہ چوبیس گھنٹے ایک دوسرے کاناک میں دم کیے رکھتے ہوں تو ایک دوسرے کے ساتھ رومانوی کردار کی گنجائش کہاں باقی رہ جاتی ہے اس لیے پروڈیوسر حضرات کو چاہئے کہ آئندہ سے یہ مذاق بند کر دیں۔ آپ اگلے روز کراچی میں ایک انٹرویو کے دوران اپنے خیالات کا اظہار کر رہی تھیں۔
اور‘ اب آخر میں سدرہ سحر عمران کی غزل:
ترے گھر کی گلی ہوتے
تو کتنے قیمتی ہوتے
نہ مرتے ہم بچھڑ کر‘ گر
مراسم واجبی ہوتے
تمہارا کیا بگڑتا‘ تم
جو سمجھا تھا وہی ہوتے
جو ہوتے ساز کی صورت
تو ہم اک بنسری ہوتے
خدا سایہ بناتا‘ ہم
ہمیشہ ساتھ ہی ہوتے
ہم آخر تک پڑھے جاتے
اگر ہم مرکزی ہوتے
ستارے ساتھ دیتے تو
لکیروں میں تمہی ہوتے
چراغوں سے جڑے رہتے
تو پتھر روشنی ہوتے
ترے دل کی سرائے کے
مسافر آخری ہوتے
کسی کی سانس کا دھاگا
کسی کی زندگی ہوتے
جلا کر راکھ کر دیتے
اگر دکھ کاغذی ہوتے
نہ بنتے عارضہ دل کا
تعلق عارضی ہوتے
ہمارے زخم پی لیتے
تو پتے جامنی ہوتے
تو ہوتا نامکمل‘ ہم
تری واحد کمی ہوتے
یہ لمحے بیش قیمت ہیں
یہ لمحے واپسی ہوتے
آج کا مطلع
خوش بہت پھرتے ہیں وہ گھر میں تماشا کر کے
کام نکلا تو ہے ان کا مجھے رسوا کر کے