پھر سے سب ٹھیک
کر دیں گے: شہباز شریف
سابق وزیراعظم اور (ن) لیگ کے صدر شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''ہم پھر سے سب ٹھیک کر دیں گے‘‘ کیونکہ جو بھی غلط ہوا ہے وہ ہمارے قائد کی غیر موجودگی کی وجہ سے ہوا ہے‘ اگرچہ انہوں نے لندن میں بیٹھے بیٹھے ہی کافی کچھ ٹھیک کر دیا تھا اور جو کسر رہ گئی ہے‘ وہ چوتھی بار وزیراعظم بننے کے بعد پوری کر دیں گے کیونکہ جہاں باقی کسریں پوری ہوں گی‘ وہاں لگے ہاتھوں یہ کسر بھی پوری ہو جائے گی‘ جس کے ساتھ ہی سب کچھ اپنے آپ ٹھیک ہوتا چلا جائے گا کیونکہ اگر اصل کام ٹھیک ہو گیا تو باقی کے سارے کام بھی ٹھیک ہوتے چلے جائیں گے جبکہ اس وقت عوام میں تشویش کی ایک لہر دوڑی ہوئی ہے کہ کہیں تاریخ خود کو حسبِ معمول دہرا نہ دے: آپ اگلے روز لاہور میں سابق اراکینِ اسمبلی سے ملاقاتیں کر رہے تھے۔
لوٹوں کو ووٹ نہیں ملتے‘ 20الیکٹیبلز
شکست کھا چکے: راجہ پرویز اشرف
سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے کہا ہے کہ ''لوٹوں کو ووٹ نہیں ملتے‘ 20الیکٹیبلز شکست کھا چکے ہیں‘‘ اس لیے پی ٹی آئی کو چھوڑ کر جو لوگ دوسری جماعتوں میں شامل ہوئے ہیں ‘ان جماعتوں کو بغلیں بجانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہ لوگ تو بس وقتی طور پر ان جماعتوں میں شامل ہوئے تھے جبکہ ان کی حمایت تو اب بھی پی ٹی آئی کے ساتھ ہی ہے اور جنہیں وہ جماعتیں الیکٹیبلز سمجھتی تھیں‘ ان کا حشر بھی انہوں نے دیکھ لیا ہے کہ ایسے 20الیکٹیبلز الیکشن میں شکست کھا کر اپنی حیثیت کا مظاہرہ کر چکے ہیں لہٰذا لوٹوں پر تکیہ کرنا پرلے درجے کی بیوقوفی ہو گی‘ اس لیے بہتر ہوگا کہ یہ جماعتیں انہیں آزاد کر دیں‘ بجائے اس کے کہ وہ ان سے دھوکا کھائیں اور اپنا سر پیٹتی رہیں لیکن چڑیاں اس وقت تک سارا کھیت چک چکی ہوں گئی۔ آپ اگلے روز ایک ٹی وی انٹرویو میں اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔
باپ بیٹے میں اختلاف کی
خبر بے بنیاد ہے: شازیہ مری
پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما شازیہ عطا مری نے بلاول بھٹو زرداری اور ان کے والد آصف علی زرادری کے درمیان اختلاف ہونے کی افواہوں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''باپ بیٹے میں اختلاف کی خبر بے بنیاد ہے‘‘ اور زرداری صاحب اگر فوری طور پر بلاول بھٹو کے پیچھے دبئی پہنچ گئے ہیں تو صرف اس لیے کہ وہ بلاول سے پل بھر کی جدائی بھی برداشت نہیں کر سکتے اور اگر دیکھا جائے تو بلاول بھٹو کی انتخابی مہم میں خاصی تیزی آ چکی ہے جس کے فوری طور پر مثبت نتائج نکلنے کی اُمید بھی ہے جبکہ زرداری صاحب کے بیانات کا مقصد بلاول کو ان کی اصل حیثیت سے روشناس کرانا تھا جو پارٹی مفادات کے بھی عین مطابق تھا‘ ورنہ باپ بیٹے کی محبت میں کوئی فرق نہیں آیا بلکہ اس میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور سے ایک بیان جاری کر رہی تھیں۔
نواز شریف کے خلاف زیادہ تر
کیسز بے بنیاد تھے: نگران وزیر داخلہ
نگران وفاقی وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ ''نواز شریف کے خلاف زیادہ تر کیسز بے بنیاد تھے‘‘ اور ہم اس طرح کے بیانات سے نگرانی کا تقاضا ہی پورا کر رہے ہیں جبکہ پہلے یہ نگرانی دبے لفظوں میں کی جاتی تھی اور اب کھل کھلا کر کرنا شروع کر دی ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) کے قائد جو کچھ کرتے رہے ہیں‘ درست سمجھ کر ہی کرتے رہے ہیں‘ اس پائے کا انسان جو کچھ بھی کرتا ہے اسے ٹھیک ہی سمجھتا ہے جبکہ بڑے لوگ بیرونی ملکوں میں اثاثے بھی یہ سمجھ کر بناتے ہیں کہ اس سے ملک کا نام روشن ہوگا اور دنیا یہ نہ کہے کہ دیگر ملکوں میں پاکستان کے اثاثے ہی نہیں ہیں‘ ورنہ انہیں ان اثاثوں سے کیا فائدہ ہوتا ہے اور وہ لوگ زندگی بھر اپنے فائدے کے لیے کچھ نہیں کرتے کہ بنیادی طور پر وہ ایک درویش صفت ہوتے ہیں۔ آپ اگلے روز ایک انٹرویو میں اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔
ہماری کامیابی ٹیم ورک کا نتیجہ‘ پاکستان
نیچے نہیں اوپر جائے گا: نگران وزیراعلیٰ
نگران وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا ہے کہ ''ہماری کامیابی ٹیم ورک کا نتیجہ ہے‘ پاکستان نیچے نہیں اوپر جائے گا‘‘ لیکن براہِ کرم یہاں اوپر جانے سے پاکستان کی ترقی مراد لی جائے‘ اس کے علاوہ کوئی دوسرا مطلب نہ لیا جائے کیونکہ ویسے تو سب نے ایک دن اوپر ہی جانا ہے اور ہر شخص کے لیے اوپر جانے کا ایک وقت مقرر ہے جس میں ایک لمحے کی بھی کمی بیشی نہیں ہو سکتی۔ یعنی :
سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں
البتہ جہاں تک ہماری ٹیم ورک کی کامیابی کا سوال ہے تو اس کے بارے میں واضح طور پر سرِ دست کچھ نہیں کہا جا سکتا البتہ ایک سطح پر اس بات کا تخمینہ لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ کہاں کہاں اور کیا کیا کامیابی ہوئی ہے۔ آپ اگلے روز ایک اجلاس کی صدارت کے بعد بیان جاری کر رہے تھے۔
اور اب آخر میں اوسلو (ناروے)
سے فیصل ہاشمی کی نظم:
آج جو میں پاتال سے باہر
اس رسی کو تھام کے نکلا
جس کے پھندے دار سرے پر
یہ دنیا اک گیند کی صورت لٹک رہی تھی
کوئی نہیں تھا مرنے والا‘ جینے والا
ہر جانب بس میں ہی میں تھا!
کرنوں کے پردے کو ہٹا کر
میں نے دیکھا... وقت کا چہرہ
اس کی آنکھیں... ایک سمندر
جس کے اندر کچھ بھی نہیں تھا‘ خالی پن تھا
کل اور آج ‘اور آنے والے کل کے بھنور سے
چکراتے اوسان لیے‘اک جست بھری تھی
اور پھر میں بھی‘ اس سیال کے‘خالی پن کا حصہ بنا تھا
خود سے نکل کر‘ پیچھے ہٹتے
لمحہ لمحہ اپنے آپ کو دیکھ رہا تھا
ایک انوکھی یکتائی میں لامحدود ہوا تھا!!
آج کا مقطع
ویسے رہنے کو تو خوش باش ہی رہتا ہوں ظفرؔ
سچ جو پوچھیں تو حقیقت میں نہیں رہ سکتا