لاڈلا بننے سے ملکی مسائل حل نہیں
ہوتے: شاہد خاقان عباسی
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ''لاڈلا بننے یا نہ بننے سے ملکی مسائل حل نہیں ہوتے‘‘ اس سے صرف لاڈلوں کے اپنے مسائل ہی حل ہوتے ہیں‘ اسی لیے ہر ایک لاڈلا بننے کی کوشش کرتا ہے جن کے اقتدار حاصل کرتے ہی تیز رفتار ترقی کا دور شروع ہو جاتی ہے جو اپنے ملک کے ساتھ ساتھ بیرونی ملکوں میں بھی پہنچنے لگتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے اثاثوں کے انبار لگنا شروع ہو جاتے ہیں اور ترقی کے اس شور میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی لیکن اس بار عوام جاگے ہوئے ہیں اور ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ عوامی شعور اس بار سب کچھ تبدیل کرکے رکھ دے گا۔ آپ اگلے روز ایک ٹی وی پروگرام میں اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔
سندھ سمیت ملک بھر میں تبدیلی آئے گی: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ اور پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''سندھ سمیت ملک بھر میں تبدیلی آئے گی‘‘ کیونکہ عوام کو پھر سے تبدیلی کے علمبرداروں کے رحم و کرم پر چھوڑا جا رہا ہے‘ اس لیے جو تبدیلی آنے والی ہے سب کو نظر بھی آ رہی ہے جبکہ منتظمین کو اس بات کی سمجھ ہی نہیں آ رہی کہ اصل صورتحال کیا ہے اور ملک میں کیا ہونے والا ہے جس سے سندھ سمیت ملک بھر میں جلد ہی تبدیلی آنے والی ہے اور اس تبدیلی کے بعد بھی کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا اور اگر اب بھی اپنا رویہ تبدیل نہ کیا گیا تو سوائے پچھتاوے کے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ آپ اگلے روز جیکب آباد میں جماعت کے ایک وفد سے ملاقات کر رہے تھے۔
جمہوری جماعتیں ناکام ہوں گی تو کوئی
اور قوت ہماری جگہ لے گی: بلاول بھٹو
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی اور سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''جمہوری جماعتیں ناکام ہوں گی تو کوئی اور قوت ہماری جگہ لے گی‘‘ کیونکہ جب کوئی جمہوری جماعت ناکام ہوتی ہے تو اسے سانس دلانے کے لیے اس کے متبادل کو مجبوراً آنا پڑتا ہے تاکہ جمہوری جماعتیں دوبارہ نشوونما حاصل کر سکیں جو آٹھ دس سال میں پہلے کی طرح نااہل ہو جاتی ہیں اور اپنے متبادل کو ایک بار پھر سے موقع دے دیتی ہیں کہ وہ مقدور بھر عوام کی خدمت کر سکیں‘ اس طرح جمہوریت کو پھولنے پھلنے کا موقع بھی ملتا ہے اور جمہوری رہنما اپنی حالت سدھارنے میں جُت جاتے اور دن رات ایک کرکے رکھ دیتے ہیں اور ان کی محنت رنگ لے آتی ہے۔ آپ اگلے روز کوئٹہ میں وکلا اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
انتخابات: افواہوں پر کان نہ دھریں: مرتضیٰ سولنگی
نگران وزیر اطلاعات و نشریات و پارلیمانی امور مرتضیٰ سولنگی نے کہا ہے کہ ''انتخابات کے حوالے سے افواہوں پر کان نہ دھریں‘‘ یہ اپنے مقرر کردہ وقت پر ہی ہوں گے کیونکہ ہر چیز کی تقدیر لکھی جا چکی ہے اور اس کا وقت بھی مقرر ہو چکا ہے اس لیے ہم تقدیر کے پابند ہیں اور اِدھر اُدھر نہیں ہو سکتے جبکہ افواہیں بہت خطرناک ہوتی ہیں جو بعض اوقات سچی بھی ثابت ہوتی ہیں اس لیے فواہوں پر کان دھرنے سے پہلے کسی نے کسی طرح یقین کر لینا چاہیے کہ اس میں سچ ہونے کے امکانات کس قدر ہیں اور اس کے بعد فیصلہ کریں کہ اس پر کان دھریں یا نہیں کیونکہ اس سے آپ کا قیمتی وقت بھی بچ جاتا ہے۔ آپ اگلے روز ایک ٹی وی پروگرام میں اظہارِ خیال کر رہے تھے۔
فرسودہ نظام قائم ودائم‘ لاڈلے
بدلتے رہتے ہیں: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''فرسودہ نظام قائم و دائم ہے‘ لاڈلے بدلتے رہتے ہیں‘‘ اور اگر اس فرسودہ نظام کو بدلنا ہے تو لاڈلوں کو بدلنے سے گریز کیا جائے اور ایک ہی لاڈلے پر قناعت کی جائے تاکہ اسے تبدیل ہونے کا خطرہ نہ ہو اور وہ بے فکر ہو کر ملک کی خدمت کرتا رہے کیونکہ اس طرح ایک وقت ایسا آئے گا کہ خدمت سے اس کا جی بھر جائے گا اور اسے مزید خدمت کی ضرورت نہیں رہے گی‘ اُس کے بعد کسی اور ضرورتمند لاڈلے کا انتخاب کیا جا سکتا ہے حتیٰ کہ جب سارے لاڈلے ختم ہو جائیں تو کسی اور کی بھی گنجائش نکل سکتی ہے اور اس طرح جمہوریت کی گاڑی چلتی رہتی ہے جبکہ لاڈلے شکم سیر ہونے کے بعد سیاست سے ویسے ہی کنارہ کش ہو چکے ہوں گے اور اگر پھر بھی لاڈلوں کی ایک اور کھیپ نکل آئے تو اس کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا جا سکتا ہے لیکن یہ فرسودہ نظام پھر بھی قائم و دائم رہے گا‘ ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں۔ آپ اگلے روز منصورہ میں جمعہ کے اجتماع سے خطاب کر رہے تھے۔
اور اب آخر میں ڈاکٹر ابرار احمد کی نظم:
ہوا جب تیز چلتی ہے
شکستہ خواب جب مٹیالے رستوں پر
مراد امن پکڑتے ہیں
جھکی شاخوں کے ہونٹوں پر
کسی بھولے ہوئے نغمے کی تانیں‘ جب الٹتی ہیں
گزشتہ وہم کی آنکھیں مرے سینے میں گرتی ہیں
ستارے جب لرزتے ہیں‘مری آنکھوں کی سرحد پر
افق دھند لانے لگتا ہے
مہک آتے دنوں کی پھیل جاتی ہے
مشام جاں میں اک منہ زور خواہش
موت بن کر جاگتی ہے جب
گزشتہ وہم کی آنکھیں مرے سینے میں گرتی ہیں
گلے جب وقت ملتے ہیں
ترے میرے زمانوں کے پرندے‘اڑنے لگتے ہیں
سحر جب دھیمی دھیمی دستکوں میں
نیند کی جھولی میں گرتی ہے
میں تیرے ہاتھ
خوابوں کے پھسلتے لمس پر محسوس کرتا ہوں
ترے ہونٹوں کی لرزش
مجھ سے رخصت میں لپٹتی ہے
میں تجھ کو دیکھ سکتا ہوں
مجھے پھر مل سکے گا واہمہ
جس قید میں آ کر‘مری عمریں سنورتی ہیں
وہ موسم جس میں تیرے نام کی خوشبو
مری سانسیں بھگوتی ہے‘وہی اک شام
جس آنچل میں مرا دل دھڑکتا ہے
وہی اک زندگی جس میں
گزشتہ وہم کی آنکھیں مرے سینے میں گرتی ہیں
آج کا مطلع
تھکنا بھی لازمی تھا کچھ کام کرتے کرتے
کچھ اور تھک گیا ہوں آرام کرتے کرتے