کسانوں کا استحصال کرنے والوں
کو معاف نہیں کریں گے:وزیراعظم
نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ ''ہم کسانوں کا استحصال کرنے والوں کو معاف نہیں کریں گے‘‘ اگرچہ کسی کو سزا دینا یا معاف کرنا نگران حکومت کے اختیار میں نہیں ہے اور یہ صرف نگرانی کرنے کے لیے آئی ہے لیکن یہ دیگر تمام کاموں پر بھرپور نظر رکھے ہوئے ہیں اور ہر کام کر رہی ہے اور کسی نے کبھی کوئی اعتراض بھی نہیں کیا مگر اس سے نگرانی کے کام کا حرج ہو رہا ہے اور عدم نگرانی کی وجہ سے ایک نفسانفسی کا عالم ہے جس سے کافی رونق لگی ہوئی ہے اور مختلف وجوہ کی بنیاد پر ابھی تک انتخابی سرگرمیوں کا بھی آغاز نہیں ہو سکا ہے اور ایسے لگ رہا ہے کہ موجودہ سارا بوجھ کافی عرصے تک اپنے ناتواں کندھوں پر ہی اٹھائے رکھنا ہوگا اور اس قومی خدمت کے لیے ہم بالکل تیار ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں کسانوں کے وفد سے گفتگو کر رہے تھے۔
ہم نے ملک سے بہت زیادتی کی
وقت آ گیا ہے کہ ازالہ کیا جائے: نواز شریف
سابق وزیراعظم اورمسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''ہم نے ملک سے بہت زیادتی کی‘ وقت آ گیا ہے کہ اس کا ازالہ کیا جائے‘‘ جوکہنا تو آسان لیکن کرنا بہت مشکل ہے اور جس کی ایک ہی صورت ہے کہ جس جس کے پاس ملک کی جو امانت ہے‘ وہ اسے واپس کی جائے، بینکوں میں موجود روپیہ مع سود واپس کیا جائے اور اثاثوں کا کرایہ بھی ادا کیا جائے لیکن چونکہ یہ بہت سے افراد کے لیے ایک قسم کی معاشی خود کشی ہو گی‘ اس لیے ان کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے، لہٰذا اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی لہٰذا کوئی اور طریقہ سوچا جا رہا ہے جس سے اس عظیم زیادتی کی تلافی ہو سکتی ہو۔ آپ اگلے روز پارٹی کے پارلیمانی بورڈ کے اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔
وزیراعظم کا امیدوار میں بھی ہو سکتا
ہوں اور بلاول بھی: آصف زرداری
سابق صدر اور پاکستان پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنما آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''وزیراعظم کا امیدوار میں بھی ہو سکتا ہوں اور بلاول بھی‘‘ اور عہدہ کوئی بھی سنبھالے‘ اصل مقصد عوامی خدمت ہونا چاہیے اور اسی پر فوکس کرنا چاہیے اس لیے کسی ایسے فرد کو یہ عہدہ سنبھالنا چاہیے جسے عوامی خدمت میں مہارت ہو، اگرچہ یہ ایک خودمختار کام ہے اور حکومت کے ساتھ ہی عوامی خدمت کے نئے نئے مظاہر بھی سامنے آنا شروع ہو جاتے ہیں؛ تاہم آدمی کو اپنے تجربات کا فائدہ بھی اٹھانا چاہئے اور اس ذیل میں تجربات اس قدر زیادہ اور پیچیدہ ہیں کہ کسی اور کی سمجھ میں آنے والے نہیں‘ اس لیے شاید یہ ذمہ داری خود ہی نبھانی پڑے۔ آپ اگلے روز ایک ٹی وی پروگرام میں گفتگو کر رہے تھے۔
انتخابات چاہتے ہیں لیکن پُرامن فضا
بھی ہونی چاہئے: عبدالغفور حیدری
جمعیت علمائے اسلام(ف) کے رہنما مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا ہے کہ ''انتخابات چاہتے ہیں لیکن پُرامن فضا بھی ہونی چاہئے‘‘ جبکہ نفسا نفسی اور افراتفری کے اس ماحول میں انتخابات کیسے ہو سکتے ہیں اس لیے اس وقت تک انتظار کیا جائے جب تک یہ فضا خود بخود قابلِ قبول نہ ہو جائے اور تب تک سب کو اپنی صفیں درست کرنے کا موقع بھی مل جائے گا کیونکہ اب تک دیگر کاموں میں مصروف رہے ہیں اور اس سے صفیں کافی الٹ پلٹ ہو گئی ہیں جن کی مکمل درستی کا انتظار اور موقع مطلوب ہے‘ لہٰذا تب تک الیکشن کو ملتوی کیا جا سکتا ہے اور اب تو سابق صدر زرداری صاحب بھی کہہ چکے کہ آٹھ‘ دس دن الیکشن تاخیر سے ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
سابق چیئرمین پی ٹی آئی نے ملک کو تباہ کیا: رانا تنویر
مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر تعلیم رانا تنویر حسین نے کہا ہے کہ ''سابق چیئرمین پی ٹی آئی نے ملک کو تباہ کیا‘‘ کیونکہ ملک کا جی ڈی پی ایک دم تقریباً ساڑھے چھ فیصد پر پہنچا دیا جس سے سارے مسائل پیدا ہوئے اور انہیں معلوم تھا کہ بعد میں آنے والی حکومت اسے برقرار نہیں کر سکے گی اور ایسا ہی ہوا، اب ایکسپورٹس تقریباً بند ہیں اور مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے اور وہ کبڑے ہو کر چل رہے ہیں اورکوئی لات مار کر ان کا کُب نکالنے والا بھی نظر نہیں آتا جبکہ اب تک مخالفین کا کوئی مناسب بندوبست بھی نہیں کیا جا سکا ہے جس کی وجہ سے آگے بھی مسائل کا سامنا رہے گا۔ آپ اگلے روز نارنگ منڈی میں چلڈرن پارک کی افتتاحی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں ہڈالی سے گل فرار کی غزل:
کچھ بھی نہیں جدھر وہاں جانا کچھ اور ہے
اور لاوجود سامنے لانا کچھ اور ہے
اوروں کے شور میں کبھی شامل نہیں ہوا
میں اور ہوں‘ میں نے شور مچانا کچھ اور ہے
کم تو کسی طرف سے نہیں لگ رہا مگر
کچھ جگہوں سے ابھی بھی‘ بڑھانا کچھ اور ہے
کیوں چپ کسی دباؤ میں آ کر ہو جاؤں پھر
ایسے معاملے کو اٹھانا کچھ اور ہے
کچھ اور بھول جاتا ہوں معلوم ہے مجھے
یہ یاد ہی نہیں کہ بھلانا کچھ اور ہے
کچھ اور دیکھ کر تو کہیں بھی نہ دیکھ پاؤں
تم کہتے ہو ابھی بھی دکھانا کچھ اور ہے
تُو نے کی ہی نہیں ہے مری سیر اس طرح
مجھ دشت میں تجھے تو گھمانا کچھ اور ہے
ماحول سا بنا کے کسی اور طرح کا
اس مختلف کو میں نے بتانا کچھ اور ہے
بنتا ہوا کچھ اور نظر آتا ہے مگر
کوشش تو یہ رہی کہ بنانا کچھ اور ہے
گو سطح بھی ہے دولت بے پایاں گل فراز
پر سطح سے پرے کا خزانہ کچھ اور ہے
آج کا مطلع
کچھ سبب ہی نہ بنے بات بڑھا دینے کا
کھیل کھیلا ہوا یہ اس کو بھلا دینے کا