دیر سے سہی‘ شکر ہے انصاف ملا: شہباز شریف
سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ(ن) کے صدر شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''دیر سے سہی‘ شکر ہے کہ انصاف ملا‘‘ اور سب سے زیادہ شکر یہ احتسابی ادارے کے ذمہ داران کا جنہوں نے ثبوت نہ ہونے کا اعتراف کر لیا اور اتنے برسوں بعد انہیں یاد آ گیا کہ مقدمے کا تو کوئی ثبوت ہی نہیں ہے اور یہ یادداشت کی اتنے لمبے عرصے تک غیر حاضری کی بھی ایک نایاب مثال ہے، لیکن یہ جمہوریت کا زمانہ ہے اور ہر چیز کو آرام کرنے اور غیر حاضر رہنے کا پورا پورا حق حاصل ہے اور امید ہے کہ ایک آدھ مقدمہ جو باقی رہتا ہے‘ تھوڑی سی کوشش سے وہ بھی جلد ختم ہو جائے گا اور انصاف ملنے کا عمل مکمل ہو جائے گا، جس پر پوری قوم پیشگی مبارکباد کی مستحق ہے۔ آپ اگلے روز العزیزیہ ریفرنس کے فیصلے پر اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔
کچھ پرانے سیاستدان سمجھتے ہیں کہ طاقت کاسرچشمہ عوام نہیں کوئی اور ہے: بلاول بھٹو
سابق وزیر خارجہ اور پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''کچھ پرانے سیاستدان سمجھتے ہیں کہ طاقت کا سرچشمہ عوام نہیں کوئی اور ہے‘‘ جس پر میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ ایسے خزاں رسیدہ عناصر سے عوام کو اپنی جان چھڑا لینی چاہئے جس پر سابق صدر اس قدر ناراض ہو گئے کہ اگلی وزارتِ عظمیٰ کے لیے پیش گوئیاں کرتے کرتے اب خود وزیراعظم بننے کا امکان ظاہر کر دیا ہے جبکہ اس کا فیصلہ بھی خود انہی نے کرنا ہے کہ وزیراعظم کون ہوگا بلکہ ایک طرح سے انہوں نے یہ اعلان اور فیصلہ ابھی سے کر دیا ہے اور جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ابھی اس قسم کے خواب دیکھنے سے گریز کیا جائے۔ آپ اگلے روز سپریم کورٹ میں ذوالفقار علی بھٹو کیس کی سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
ہمارے خلاف جھوٹے کیسزبنانے
والے کٹہرے میں ہیں: حمزہ شہباز
سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ ''ہمارے خلاف جھوٹے کیسز بنانے والے کٹہرے میں ہیں‘‘ تاہم ان کے خلاف ایکشن نہیں لیا جانا چاہئے کیونکہ اب انہوں نے ثبوت کی عدم موجودگی کا بیان دیتے ہوئے اس کی تلافی کر دی ہے اور جو مقدمات باقی رہ گئے ہیں ان کے حوالے سے بھی ان سے ایسے ہی حسنِ سلوک کی توقع ہے اس لیے وہ اپنے آپ کو کٹہرے میں ہرگز نہ سمجھیں بلکہ وہ تو انعام و اکرام کے مستحق ہیں اور ان کی یادداشت کے واپس آنے کی بھی داد دینی چاہئے حالانکہ اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد ان کی یادداشت واپس آ جانا ایک کرشمے سے کسی صورت کم نہیں ہے۔ آپ اگلے روز احتساب عدالت میں پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
میدان بالکل خالی ہے‘ نواز شریف
نے تنہا دوڑنا ہے: فیصل واوڈا
سابق وفاقی وزیر فیصل واوڈا نے کہا ہے کہ ''نواز شریف نے تنہا دوڑنا ہے‘ میدان بالکل خالی ہے‘‘ جبکہ صرف دو رکاوٹیں اب ان کے راستے میں موجود ہیں، وہ اگر دور ہو جائیں تو وہ اس دوڑ میں اوّل آ سکتے ہیں جن میں سے ایک تو ان کے مخالفین ہیں جن کا ابھی تک کوئی مناسب بندوبست نہیں ہو سکا ہے، اور دوسری انتخابات کے حوالے سے آئی ایم ایف کی شرط ہے جس کے مطابق صاف و شفاف انتخابات کے انعقاد کے بعد ہی اگلی قسط ملے گی حالانکہ ملک کی سیاسی تاریخ کے تناظر میں دیکھاجائے تو یہ شرط کافی مضحکہ خیز محسوس ہوتی ہے کیونکہ اب تک ملک عزیز میں اس قسم کے الیکشن نہیں ہو سکے ہیں اور اس طرح ایک غلط روایت کے آغاز کی کوشش کی جا رہی ہے جسے سب کو مل کر روکنا چاہیے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک ٹی وی چینل سے گفتگو کر رہے تھے۔
جواد خواجہ مجرموں کو ریلیف دلانا چاہتے ہیں: رانا ثناء
سابق وفاقی وزیر داخلہ اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ ''سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ سویلینز کے ملٹری کورٹس میں ٹرائل کی مخالفت کرکے مجرموں کو ریلیف دلانا چاہتے ہیں‘‘ حالانکہ ایسے عناصر کو پہلے ہی کافی اور پے در پے ریلیف مل رہا ہے جس پر سب حیران و پریشان ہیں اس لیے ریلیف کو ٹکے ٹوکری نہ کیا جائے اور ایسا لگتا ہے کہ جواد ایس خواجہ صاحب قسمت کے لکھے کو ٹالنا چاہتے ہیں جو کہ ایک نہایت قابلِ اعتراض اور نامناسب بات ہے‘ لہٰذا انہیں قدرت کے کاموں میں رخنہ اندازی سے باز رہنا چاہیے اور اگر حکومت مناسب سمجھے تو ا س رخنہ اندزی پر ان کے خلاف ایکشن بھی ہونا چاہئے۔ آپ اگلے روز لاہور میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں قمر رضا شہزاد کی شاعری:
جی یہی ہے یہاں نشانی مری
مرے سر پر ہے رائیگانی مری
کیا کروں ایک دن بھی آئی نہیں
میرے حصے میں زندگانی مری
تنگ ہیں مجھ سے میرے گھر والے
شور کرتی ہے بے زبانی مری
اے کسی آنکھ میں جمے ہوئے اشک
تُو نے دیکھی نہیں روانی مری
اور پھر میں نہ مل سکا اس کو
ہر جگہ دل نے خاک چھانی مری
میں یہاں ہوں الاؤ بجھنے تک
پھر نہ ہو گی بیاں کہانی مری
٭......٭......٭
زمانہ دیکھ رہا ہے جو یہ چمک مجھ میں
کسی کے حسن کی موجود ہے جھلک مجھ میں
میں ہوں یہاں کہ نہیں ہوں پتا نہیں صاحب
کئی دنوں سے یہی پل رہا ہے شک مجھ میں
کوئی تو رنج کے اظہار کی سہولت ہو
رکے ہوئے مرے آنسو کبھی چھلک مجھ میں
رواں دواں ہے مرے دل کے راستے پہ فقیر
قریب آؤ سنو رقص کی دھمک مجھ میں
میں بجھنے والا ہوں میں نے تجھے کہا تو ہے
دیے کی آخری لو کی طرح بھڑک مجھ میں
آج کا مقطع
ٹوٹ پڑتی ہے قیامت کوئی پہلے ہی ظفرؔ
قصد کرتا ہوں جو فتنے کو جگا دینے کا