(ن) لیگ کے سوا سب نے دھوکا دیا: شہباز شریف
سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''(ن) لیگ کے سوا سب نے دھوکا دیا‘‘ کیونکہ (ن) لیگ نے جو کچھ بھی کیا‘ سرعام اور سب کے سامنے کیا‘ جسے دھوکا ہرگز نہیں کہا جا سکتا‘ ملک کو اس سے کیا ملا‘ یہ الگ بحث ہے کیونکہ کسی کام کا فائدہ یا نقصان ہونا قسمت کی بات ہے اور ہر کوئی اپنی قسمت اور بدقسمتی ساتھ لے کر آتا ہے اور انسان کو وہی کام کرنا چاہیے جو اسے آتا ہے جبکہ قسمت کی ذمہ داری اس پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ اگر عوام بدقسمت ہیں تو کسی اور کو ذمہ دار ٹھہرانے کے بجائے اپنی خوش قسمتی کے لیے دعا کریں‘ سیاستدان اس سلسلے میں کچھ نہیں کر سکتے کیونکہ انہیں اور تو کچھ آتا بھی نہیں ہے اس لیے یہ ان کی مجبوری ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں پارٹی رہنمائوں سے ملاقات اور گفتگو کر رہے تھے۔
ہمیں کسی پٹواری کی ضرورت نہیں: بلاول بھٹو
سابق وزیر خارجہ اور چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''ہمیں کسی پٹواری کی ضرورت نہیں‘‘ کیونکہ پٹواری، تحصیلدار اور دیگر افسر پہلے ہی ہمارے ساتھ ہیں اور انتخابات میں ہماری کامیابی کے لیے دعاگو بھی رہتے ہیں اور اسی لیے وقت ضائع کرنے کے بجائے یکسو ہو کر ہم اپنے اصل کام میں لگے رہتے ہیں اور عوام کی خدمت کے ساتھ ساتھ شہروں کی ترقی میں مصروف رہتے ہیں‘ جس میں لاڑکانہ کو ایک زندہ مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ٹائون شپ اور فیروزپور روڈ پر انتخابی دفاتر کا افتتاح کر رہے تھے۔
الیکشن ملتوی ہو جائیں تو آسمان نہیں
گر پڑے گا: مولانا فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ اور پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''حالات کی بہتری تک انتخابات ملتوی ہو جائیں تو آسمان نہیں گر پڑے گا‘‘ اور گر بھی پڑا تو کوئی نقصان نہیں ہو گا کیونکہ چاند، سورج اور ستارے نہیں گریں گے جبکہ آسمان محض ایک استعارہ ہے کہ اس کے گرنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا؛ البتہ الیکشن میں سراسر نقصان نظر آ رہا ہے کیونکہ حالات سب سے زیادہ ہمارے خلاف ہیں اور انتخابات ملتوی کرنے کیلئے سینیٹ کی قرارداد بھی موجود ہے جو کہ ایک منتخب ادارہ ہے اور اس کی قرارداد کو کسی طور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور اب تو اس قرارداد کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا ہے؛ اگرچہ اس بات کی بھی کوئی گارنٹی نہیں کہ انتخابات ملتوی ہونے سے حالات بہتر ہو جائیں گے۔ آپ اگلے روز لاہور سے جے یو آئی میڈیا سیل کے ذریعے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
نوازشریف دل بڑا کریں‘ وزیراعظم
کے بجائے صدر بن جائیں: مشاہد حسین
مسلم لیگی رہنما اور سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا ہے کہ ''نواز شریف دل بڑا کریں اور وزیراعظم کے بجائے صدر بن جائیں‘‘ کیونکہ میں ہر بار ان کی حکومت کے خاتمے کو مزید برداشت نہیں کر سکتا کیونکہ اس بار بھی وہی کچھ ہونے کی توقع ہے اور اب بھی نہیں بتایا جائے گا کہ انہیں کیوں نکالا گیا۔ اگرچہ صدر کا عہدہ زیادہ فعال نہیں ہوتا اور صرف نمائشی ہوتا ہے لیکن جو بھی وزیراعظم بنے گا‘ وہی کچھ کرے گا‘ جو وہ پہلے کرتے آئے ہیں یعنی تیز رفتار ترقی اسی طرح جاری رہے گی جس کا کریڈٹ انہیں ہی جائے گا اور انہیں نکالا بھی نہیں جا سکے گا اور یہ ایک ٹکٹ میں دو مزے سے کسی طور بھی کم نہیں ہو گا، بصورتِ دیگر تاریخ کے دہرائے جانے کیلئے تیار رہیں۔ آپ اگلے روز ایک ٹی وی انٹرویو میں اظہارِ خیال کر رہے تھے۔
عوامی عدالت کے متوقع فیصلے سے کچھ
لوگ ڈرے ہوئے ہیں: فیصل کریم کنڈی
پاکستان پیپلز پارٹی کے سیکرٹری اطلاعات فیصل کریم کنڈی نے کہا ہے کہ ''عوامی عدالت کے فیصلے سے کچھ لوگ ڈرے ہوئے ہیں‘‘ کیونکہ اس وقت لگ رہا ہے کہ الیکشن شفاف ہوں گے اور فیصلہ عوامی عدالت ہی کرے گی اور عوام کے تیور سب کو صاف نظر آ رہے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس ڈر اور خوف کی لپیٹ میں سبھی آئے ہوئے ہیں کیونکہ عوام کو یہ موقع پہلی بار مل رہا ہے اور وہ اگلی پچھلی کسریں نکالنے پر تلے بیٹھے ہیں اور سبھی لوگ حیران ہیں کیونکہ پہلے وہ کبھی ایسی صورتحال سے روبرو نہیں ہوئے اور ووٹرز آزمودہ پارٹیوں سے مکمل طور پر بیزار ہو چکے ہیں اور ووٹ سے اگلا پچھلا حساب برابر کرنے کیلئے پوری طرح تیار ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں افضال نوید کی غزل:
جنگ سے جنگل بنا جنگل سے میں نکلا نہیں
اپنی ہی وحشت کے اک چنگل سے میں نکلا نہیں
دیکھتے رہنا ترا آویزاں چھت پر کر گیا
اس قدر بارش ہوئی جل تھل سے میں نکلا نہیں
جیسے تُو ہی تُو ہو میری نیند سے لپٹا ہوا
جیسے تیرے خواب کے مخمل سے میں نکلا نہیں
باندھتے تیرا تصور آنکھ نے تسحیر کی
شام گہری ہو گئی کاجل سے میں نکلا نہیں
دیکھنے والوں کو شہرِ خواب سا دکھتا ہوں میں
جیسے تیرے سرمئی بادل سے میں نکلا نہیں
دیکھ سورج آ گیا سر پر مجھے آواز دے
پھول سا اب تک تری کونپل سے میں نکلا نہیں
شب جو ایمن راگ میں ڈوبی سحر تھی بھیروی
تیوری چڑھتی رہی کومل سے میں نکلا نہیں
تیرا پلّو ایک جھٹکے سے گیا گو ہاتھ سے
آنچ لپٹی ہی رہی آنچل سے میں نکلا نہیں
طبع کی پیچیدگی شاید مری پہچان ہو
یوں نہ ہو ہو مستقل جس بَل سے میں نکلا نہیں
یوں لگا جیسے کبھی میں دہر کا حصہ نہ تھا
بات اتنی ہے کہ باہر کل سے میں نکلا نہیں
حوصلے جیسے ڈبو ڈالے ہیں اس پردیس نے
ریچھ نکلا ندی سے کمبل سے میں نکلا نہیں
نیند میں خارِ جنوں کی رات بھر ہلچل رہی
دوریٔ مہتاب کے بادل سے میں نکلا نہیں
اُس کے ہوتے ایک شب روشن ہوا جل پر نویدؔ
وہ تو رخصت ہو گیا تھا جل سے میں نکلا نہیں
آج کا مقطع
دعوے تھے ظفرؔ اس کو بہت با خبری کے
دیکھا تو مرے حال سے غافل بھی وہی تھا