نااہل کر کے ترقی کا سفر روکا‘ اللہ
نے انصاف دیا: نواز شریف
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''نااہل کرکے ترقی کا سفر روکا‘ اللہ نے انصاف دیا‘‘ اور اس بار بھی اُسی طرح ترقی کے سفر کو روکنے کی کوشش ہو گی لیکن ترقی کی رفتار کو تیز کر دیں گے اور نکالے جانے سے پہلے ہی خاطر خواہ ترقی یقینی بنا لیں گے اور اس بار پوری تیاری کے ساتھ آ رہے ہیں لیکن عوام نے خواہ مخواہ کان کھڑے کر لیے ہیں حالانکہ انہوں نے پہلی ترقیوں کو برداشت کر لیا تھا تو اس دفعہ بھی انہیں صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور وہ صابر و شاکر رہنے کیلئے مستند بھی ہیں۔ اس لیے انہیں اس بار بھی اسے قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کرنا ہو گا، کیونکہ ترقی تو ایک آٹومیٹک عمل ہے اور حکومت میں آتے ہی خود بخود شروع ہو جاتی ہے۔ آپ اگلے روز سپریم کورٹ کے فیصلے پر اپنے ردِعمل کا اظہار کر رہے تھے۔
کان کھول کر سن لیں‘ کوئی حلقہ
خالی نہیں ملے گا: بیرسٹر گوہر علی
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا ہے کہ ''کان کھول کر سن لیں‘ کوئی حلقہ خالی نہیں ملے گا‘‘ اگرچہ کاغذاتِ نامزدگی مسترد کرا کے بہت سے قابلِ ذکر رہنمائوں کو الیکشن سے باہر کر دیا گیا؛ تاہم ان کی جگہ متبادل امیدوار بھی موجود تھے اور یہ مخالفین کی سراسر نااہلی ہے، ورنہ لگے ہاتھوں ان کے کاغذات بھی مسترد کرا دیتے اور یوں وہ حلقے خالی کرائے جا سکتے تھے مگر کسی امیدوار نے اپنی سیاسی وابستگی ظاہر ہی نہیں کی تھی اس لیے ظاہر ہے کہ مخالفین اب کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتے اور چونکہ ووٹرز بھی ان کی سیاسی وابستگی سے بے خبر ہوں گے اور اندازے سے کام لیں گے لہٰذا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کچھ حلقوں سے ہمارے دو‘ دو آدمی منتخب ہو جائیں۔ آپ اگلے روز اڈیالہ جیل سے باہر صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
نواز شریف کی تاحیات نااہلی کی
سازش دم توڑ چکی: شہباز شریف
سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''نواز شریف کی تاحیات نااہلی کی سازش دم توڑ چکی ہے‘‘ اگرچہ وہ فیصلہ بھی عدلیہ ہی نے کیا تھا‘ اس لیے اسے سازش نہیں کہنا چاہئے لیکن یہ بھی ثابت ہو چکا کہ ہمارے خلاف ہر کام سازش ہی کے ذریعے کیا جاتا ہے؛ تاہم ایک اور بہت بڑی سازش جو ان کے خلاف کی جاتی رہی وہ بار بار انہیں حکومت سے نکالنا اور پھر اس کی وجہ بھی نہ بتانا ہے؛ چنانچہ اس سازش کا دم توڑنا ابھی باقی ہے کیونکہ اس کا اعادہ بھی کیا جا سکتا ہے جو تین بار پہلے کیا جا چکا ہے۔ اگرچہ ہر بار اس کا سازشوں سے تعلق نہیں ہوتا اور شاید اس کی عادت پڑ چکی ہے اور اگر اس بار اس عمل کو دہرایا نہ گیا تو سخت مایوس ہو گی۔ آپ اگلے روز تاحیات نااہلی کے خاتمے کے فیصلے پر اپنے ردِعمل کا اظہار کر رہے تھے۔
ایک شخص سے دوستی کی خاطر اس
عمر میں چالیس دن کا چلہ کاٹا: شیخ رشید
عوامی مسلم لیگ کے سربراہ اور سابق وفاقی وزیر شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''ایک شخص کی دوستی کی خاطر اس عمر میں چالیس دن کا چلہ کاٹا‘‘ اور جس کا سارا کریڈٹ انتظامیہ کو جاتا ہے جنہوں نے نہ صرف اس چلے کا راستہ دکھایا بلکہ اس کے تعاون سے چالیس دن بھی پورے کیے جبکہ میرا صبر و استقامت بھی قابلِ تعریف ہے جو نظر بندی کو چلے کا نام دے رہا ہوں اور دعا کریں کہ یہ زندگی کا آخری چلہ ہو جبکہ اس کے لیے آئندہ کوئی کوشش نہیں کروں گا کیونکہ عمر اور صحت مزید چلوں کی اجازت نہیں دیتے اور کوئی ایسا کام بھی نہیں کیا جائے گا کہ مزید چلہ کشی کرنا پڑے۔ آپ اگلے روز راولپنڈی میں ایک کارنر میٹنگ سے خطاب کر رہے تھے۔
ضیاء الحق کا بھٹو کی سزا سے کوئی تعلق نہیں: اعجاز الحق
مسلم لیگ ضیا کے سربراہ اور سابق صدر جنرل ضیاء الحق کے صاحبزادے اعجاز الحق نے کہا ہے کہ ''ضیاء الحق کا بھٹو کی سزا سے کوئی تعلق نہیں تھا‘‘ اور میں کافی غور و خوض کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اس کا تعلق صرف اور صرف جالندھر سے تھا جبکہ ضیاء الحق اور چیف جسٹس انوار الحق کا تعلق بھی اسی شہر سے تھا‘ حتیٰ کہ اس وقت کے ایم ڈی پی ٹی وی ضیا جالندھری کا تعلق بھی اسی شہر سے تھا اور جس سے ثابت ہوتا ہے کہ بعض دفعہ کوئی شہر بڑے بڑے فیصلوں سے کس طرح جڑ جاتا ہے اور اس خدشے کو تقویت اس حقیقت سے ملتی ہے کہ قومی نغمے کے خالق حفیظ جالندھری بھی اسی شہر سے آئے تھے اس لیے ضیاء الحق کا بھٹو کی سزا سے تعلق جوڑنا محض قیاس آرائی ہے اور جس کا حقیقت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ یہ سارا کچھ دوسرے جالندھریوں کا کیا دھرا تھا۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں سید عامر سہیل کی پنجابی شاعری:
سرگی دی حمد
ہنجولال تے چانن چٹا
سرگی دی درگاہ
تیرے ناں دی چھانویں بہہ کے
کریے اکھ سواہ
توں لعلاں نوں ککھ چوں جمیا
بدل بُھلے راہ
راہواں اندر سو سو لیکاں
مرشد یار پناہ
چل دلڑے وچ جھاتی پائیے
چم چم بھری کپاہ
ناں کوئی ساڈی مرضی دوجی
ناں کوئی ساڈی چاہ
٭......٭......٭
آ اتوار گلابی کریے
آ چھنکار شرابی
آ گلیاں وچ رُڑھ رُڑھ تُریے
آ پھڑیے مرغابی
آ چھنکائیے روح وچ حسرت
ہسئیے لابی لابی
کوریڈوراں وچ دکھ سُٹیے
ٹیرس تے بے خوابی
آج کا مطلع
یہ بھی ممکن ہے کہ آنکھیں ہوں تماشا ہی نہ ہو
راس آنے لگے ہم کو تو یہ دنیا ہی نہ ہو