"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں‘ متن اور تازہ غزل

عوام کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا میرا
مشن ہے: نواز شریف
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''عوام کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا میرا مشن ہے‘‘ جبکہ یہ مشن وزارتِ عظمیٰ کے پچھلے تین ادوار میں پورا نہیں ہو سکا‘ اس لیے اب چوتھی بار اس کام کا بیڑہ اٹھایا ہے اور اگر چوتھی بار بھی یہ مشن پورا نہ ہو سکا تو پانچویں‘ چھٹی اور ساتویں بار اس کی بھرپور کوشش کی جائے گی۔ اگرچہ عوام کے لیے سیاستدانوں کا اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جانا ہی کافی ہونا چاہیے اور عوام نے اپنے پاؤں پر کھڑا ہو کر کرنا بھی کیا ہے کہ اس سے ان کے سارے کام متاثر ہوں گے کیونکہ پاؤں پر کھڑا آدمی نہ چل سکتا ہے نہ بیٹھ کر کوئی کام کر سکتا ہے‘ اس لیے عوام کو لالچ سے کام نہیں لینا چاہیے اور سیاستدانوں کا اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا ہی کافی سمجھنا چاہیے۔ آپ اگلے روز حافظ آباد میں انتخابی جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔
ووٹ ضائع نہ کریں‘ مجھے وزیراعظم
بنائیں: بلاول بھٹو زرداری
سابق وزیر خارجہ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''ووٹ ضائع نہ کریں‘ مجھے وزیراعظم بنائیں‘‘ جبکہ ووٹ تو آپ کا ایسے بھی ضائع ہی جانا ہے کیونکہ اس کے ذریعے بھی وزیراعظم پیپلز پارٹی سے نہیں بننا کیونکہ اس جماعت کے رہنماؤں کے ہاتھ میں اس بار وزیراعظم بننے کی لکیر ہی نہیں ہے‘ اگرچہ انہوں نے اپنے ہاتھ پر وہ لکیر کھدوانے کی کوشش تو کی ہے لیکن دوسری لکیروں نے ایسا نہیں ہونے دیا‘ جبکہ اس سے پہلے تک تو اُن کے ہاتھ میں وزیر خارجہ بننے کی بھی لکیر نہیں تھی لیکن اسے کھدواتے ہی وزیر خارجہ بننے میں کامیابی مل گئی‘ اس لیے اب انہوں نے سوچا ہے کہ پچھلی ساری لکیریں مٹوا لیں تاکہ نئی لکیروں کی گنجائش پیدا ہو سکے اور جن میں وزیراعظم بلکہ کئی بار وزیراعظم بننے کی لکیریں بھی موجود ہوں۔ آپ اگلے روز نوشہرو فیروز میں انتخابی جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔
نوازشریف ہی ملک کو بھنور سے نکال
سکتے ہیں: حمزہ شہباز
سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور (ن) لیگ کے اہم رہنما حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ ''نواز شریف ہی ملک کو بھنور سے نکال سکتے ہیں‘‘ اور اگر تین بار وزیراعظم بن کر بھی اسے بھنور سے نہیں نکال سکے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ بھنور ہی بہت بڑا ہے اور اس سے نکالے جانے کے لیے صرف تین بار وزیراعظم بننا کافی نہیں کیونکہ اس دوران صرف اپنے آپ ہی کو بھنور سے نکال سکے ہیں‘ تاہم اب اپنے ساتھ ساتھ ملک کو بھی بھنور سے نکالنے کی بھرپور کوشش کریں گے اور اسے مکمل طور پر بھنور سے نکالنے کے لیے مزید کتنی بار وزیراعظم بننے کی ضرورت ہے‘ اس کا فیصلہ کرنے کے لیے بھنور کی شدت اور گہرائی کا اندازہ لگانا ضروری ہے اور امید ہے کہ یہ کام بہت جلد شروع کر دیا جائے گا۔ آپ اگلے روز انتخابی تیاریوں کے سلسلے میں ماڈل ٹائون میں کارکنوں سے خطاب کر رہے تھے۔
آٹھ فروری لاڈلے کے لیے سوگ کا دن ہوگا: آصفہ بھٹو
پیپلز پارٹی کی رہنما آصفہ بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''آٹھ فروری لاڈلے کے لیے سوگ کا دن ہو گا‘‘ اور چونکہ اس بار ایک نہیں بلکہ دو لاڈلے ہیں‘ اس لیے یہ دونوں میں سے کسی کے لیے بھی سوگ کا دن ہو سکتا ہے جبکہ زیادہ امکان یہی ہے کہ یہ دونوں ہی کے سوگ کا دن ہو کیونکہ ووٹرز جس جارحانہ موڈ میں ہیں‘ اسے دیکھ کر اس بات کا اندازہ آسانی سے لگایا جا سکتا ہے‘ اس لیے بہتر یہی ہو گا کہ دونوں لاڈلے خاطر جمع رکھیں اور حتی لامکان سوگ بھی منانا شروع کر دیں کیونکہ جو کام بعد میں کرنا ہے‘ بہتر ہے کہ پہلے ہی کر لیا جائے اور دونوں ٹھنڈے دل سے اپنی اپنی سابقہ کار گزاریوں کا جائزہ لینا بھی شروع کر دیں‘ باقی ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ہے۔ آپ اگلے روز ٹنڈو محمد خان میں عوامی اجتماع سے خطاب کر رہی تھیں۔
پی ٹی آئی کے لوگ بھی بلاول کو
کامیاب کرائیں: چوہدری سرور
پنجاب کے سابق گورنر چوہدری محمد سرور نے کہا ہے کہ ''پی ٹی آئی کے لوگ بھی بلاول کو کامیاب کرائیں‘‘ کیونکہ کامیاب انہی نے ہونا ہے جسے پی ٹی آئی کے لوگ ووٹ دیں گے کیونکہ ووٹ دیتے وقت پارٹی کو پیشِ نظر نہیں رکھا جاتا اور اس کی زندہ مثال سب کے سامنے ہے کہ میں (ق) لیگ کا ہو کر بھی بلاول کو سپورٹ کر رہا ہوں‘ اگرچہ انہوں نے وزیراعظم پھر بھی نہیں بننا‘ البتہ میرے پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کا راستہ ضرور کھل جائے گا اور یہ کام میں اپنی جماعت کی قیادت کی منظوری سے کر رہا ہوں۔ آپ اگلے روز پی پی پی سیکرٹریٹ میں خطاب کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں یہ تازہ غزل:
چھپی ہوئی ہے محبت عیاں نہیں میری
جو سب کو یاد ہے وہ داستاں نہیں میری
جسے میں سوچتا ہوں وہ مرا خیال نہیں
جسے میں بولتا ہوں وہ زباں نہیں میری
بھرے ہوئے ہیں جو پتھر بھی میرے اپنے ہیں
کہ آب جُو کئی دن سے رواں نہیں میری
خیال و خواب میں اس کو گزار آیا ہوں
اسی لیے تو جوانی جواں نہیں میری
ہر ایک شے مجھے اپنی دکھائی دیتی ہے
کوئی بھی چیز اگرچہ یہاں نہیں میری
میں آسماں پہ جہاں حق جتا رہا تھا کبھی
میں کیا بتاؤں زمیں بھی وہاں نہیں میری
ہے اس میں برسرکار اور ہی کوئی شاید
اگرچہ جسم تو میرا ہے‘ جاں نہیں میری
میں اس کی قیمت ادا کر رہا ہوں روز بروز
کہ اس کی یاد بھی اب رائیگاں نہیں میری
میں اپنے ہونے کی تردید کر چکا ہوں‘ ظفرؔ
وگرنہ آج ضرورت کہاں نہیں میری
آج کا مطلع
دیکھو تو کچھ زیاں نہیں کھونے کے باوجود
ہوتا ہے اب بھی عشق نہ ہونے کے باوجود

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں