اللہ تعالیٰ کافرمان ہے کہ روزہ میرے لیے ہے اورمیں ہی اس کااجر دوں گا‘ یعنی انسان باقی جتنی بھی عبادات و اعمال کرتاہے‘ ان کا تعلق اس کی اپنی ذات سے ہوتاہے‘ مثلاً نماز کی ادائیگی فرض ہے‘ جومسلمان پانچ وقت باوضو ہوکر خشوع وخضوع کے ساتھ نماز پڑھے گا تو بارگاہِ الٰہی میں اس کی حاضری قبول ہوگی اوراگر فرض کی ادائیگی میں کمی یاکوتاہی برتی گئی توپھر اس کی بڑی طویل سزا بھی بھگتنا پڑے گی۔ حج صرف صاحب ِ استطاعت لوگوں پر فرض ہے ‘ جس کاحج قبول ہوگیاتوگویا اس کاماضی صاف ہوگیا‘یعنی پچھلے سارے گناہ معاف ہوگئے‘ اسی طرح زکوٰۃ بھی نا صرف انسان کی اپنی بخشش کاذریعہ بنتی ہے‘ بلکہ اس سے معاشرے میں توازن بھی پیداہوتاہے اوراگر ہرشخص اپنے ذمے کی زکوٰۃ صحیح طریقے سے ادا کرے تو شاید معاشرے میں کوئی حاجت مند ہی نہ رہے‘ زکوٰۃ بھی مالدار پر لاگو ہوتی ہے‘ لیکن روزہ ہر امیر وغریب پرفرض ہے اوراس میں رعایت صرف مخصوص حالات میں ہی حاصل ہے۔ اسلام سفر اوربیماری کی حالت میں روزے میں رعایت عطا کرتاہے ‘لیکن بعد ازرمضان جب انسان سفر کی حالت میں نہ ہو یا صحت یاب ہوجائے تو اسے روزے قضاء کرنے پڑتے ہیں۔ ضعیف العمر اور کسی شدید بیماری میں مبتلا اشخاص کو یہ رعایت بھی اللہ پاک نے عطا کررکھی ہے کہ وہ ایک روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دے تو اللہ تعالیٰ اسے بھی رمضان جیسی رحمتوں اوربرکتوں سے نوازے گا‘ اتنا ہی اجروثواب عطا کرے گا‘ جو روزہ دار کے لئے ہیں۔ مسکین کو کھانا کھلانے کا معیار وہی مقرر ہے‘ جیسا کھانا وہ شخص خود کھاتا ہو‘ اس کھانے کے برابر قیمت بھی مسکین کو ادا کی جاسکتی ہے۔ امت ِمسلمہ پر روزے گنتی کے چند ایام ‘یعنی سال میں صرف ایک رمضان المبارک کے مہینے میں فرض کئے گئے ہیں‘ لیکن ان کا اجروثواب لامحدود ہے۔ نبی کریم ﷺ کی حدیث مبارکہ ہے '' روزے کے اجر کا شمار انسانی بس سے باہر ہے۔‘‘
روزہ اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ عبادات میں سے ایک ہے۔ اللہ کو روزے دار کے منہ کی بو جنت کی مشک سے بھی زیادہ پسند ہے۔ اس سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ روزے کی اہمیت کتنی زیادہ ہے‘ لہٰذا اگر کوئی کوئی مسلمان سفر یا بیماری کی حالت میں بھی روزہ رکھ سکتاہو اور سمجھے کہ اس سے اسے زیادہ تکلیف نہیں ہوگی تو ضرور رکھے‘ کیونکہ کفارہ ادا کرنے یا قضاء روزہ رکھنے سے فرض تو پورا ہوجائے گا‘ لیکن شاید وہ رحمتیں یا برکتیں نصیب نہ ہوسکیں‘ جو رمضان المبارک میں سمیٹی جاسکتی ہیں۔ حضرت سلمان فارسیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے شعبان کے آخری دن ہمیں ایک (خصوصی)خطبہ ارشاد فرمایا: آپﷺ نے فرمایا: ''اے لوگو!ایک عظیم مہینہ تم پر سایہ فگن ہونے والا ہے‘(یہ)مبارک مہینہ ہے‘ اس میں ایک رات(ایسی ہے جو)ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اللہ تعالی نے اس ماہ میں روزے رکھنا فرض قرار دیا ہے اور اس کی راتوں میں قیام کو نفلی عبادت قرار دیا ہے۔ جو(خوش نصیب)اس مہینے میں اللہ کی رضا کیلئے کوئی نفلی عبادت انجام دے گا‘تواسے دوسرے مہینوں کے(اسی نوع کے) فرض کے برابر اجر ملے گا اور جو اس مہینے میں کوئی فرض عبادت ادا کرے گا‘ تو اسے دوسرے مہینوں کے(اسی نوع کے)70فرائض کے برابر اجر ملے گا۔‘‘
روزے کا بنیادی درس صبر‘ ایثار اور ہمدردی ہے‘ آج کل دنیا بھر میں کورونا وائرس کی جوعالمی وبا پھیلی ہوئی ہے‘ اس کا مقابلہ بھی ہمت‘ حوصلے اورصبر سے ہی کیا جا سکتا ہے اور اس وبا کی وجہ سے جولاک ڈائون کی کیفیت ہے ‘اس میں ہمیں دوسروں سے ہمدردی اوران کے دکھ درد بانٹنا ہوں گے‘ تاکہ لاک ڈائون کی وجہ سے جن لوگوں کاکاروبار بند پڑا ہوا ہے ‘ جن دیہاڑی دار مزدوروں کومزدوری نہ مل سکی اور جولوگ بیروزگار ہوگئے ہیں‘ ہمیں ان کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے حسب ِاستطاعت ان کی بھرپور مدد کرناہوگی۔ سب سے زیادہ حق ان لوگوں کا ہے‘ جنہیں ہم خود ذاتی طور پر جانتے ہیں ‘ جو واقعی مستحق ہیں اورخصوصاً ایسے سفید پوش خاندانوں کی مالی امداد ضرور کی جائے ‘جو کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلا سکتے۔ زکوٰۃ کی ادائیگی میں بھی اپنے اردگرد موجود غربا ومستحقین کو سب سے پہلے یاد رکھنا چاہیے اوراگر اسی اصول کے تحت ہرکوئی زکوٰۃ وصدقات تقسیم کرے تو کوئی بھی بھوکا نہ رہے۔ کورونا لاک ڈائون کی وجہ سے پہلے ہی اجتماعات پر پابندی ہے‘ ہمیں اسی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے افطار پارٹیوں سے مکمل اجتناب کرکے وہی کھانا اورراشن وغیرہ غریب ومستحق افراد میں تقسیم کردیناچاہیے ‘تاکہ اس وبائی صورت ِ حال میں انہیں ریلیف مل سکے۔ راشن کی تقسیم میں بھی ہمیں احتیاط کی ضرورت ہے ‘کیونکہ جب سے کورونا وائرس والی وبا پھیلی ہے ‘اس وقت سے بھکاری پوری طرح سرگرم ہیں اورانہوں نے بظاہر دیہاڑی دار مزدوروں کا روپ دھار رکھاہے‘ مخیرحضرات کی جانب سے تقسیم ہونے والی امدادزیادہ تر ایسے بھکاری ہی سمیٹ رہے ہیں اور مستحقین محروم ہیں‘ اس لئے ہمیں خود ایسے لوگوں کوتلاش کرکے ان تک پہنچناہوگا اورپیشہ ور بھکاریوں کی حوصلہ شکنی کرناہوگی۔
رمضان المبارک کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ روزہ دار گھروں سے غیرضروری باہر نہیں نکلتے اور گھر میں آرام کے ساتھ عبادات میں مشغول رہتے ہیں‘ موجودہ حالات میں یہی وقت کاتقاضا بھی ہے ‘ عالمی ادارۂ صحت کی ہدایات اورحکومتی احکامات بھی یہی ہیں کہ لوگ کورونا وائرس کا پھیلائو روکنے کیلئے گھروں سے غیرضروری باہر نہ نکلیں ‘ سماجی میل جول میں فاصلہ رکھیں اوراحتیاطی تدابیر پر مکمل عمل کریں۔ دنیابھر میں جب کورونا وائرس کی وبا تیزی سے پھیل رہی ہے تورمضان المبارک کی آمد بہت بڑی نعمت خداوندی ہے‘ کیونکہ اگر ہم روزہ رکھیں اور اس کی روح کے مطابق عمل کریں تو ناصرف صفائی وپاکیزگی برقرار رہتی ہے‘ جوکہ اس وبا کامقابلہ کرنے کے لئے اولین شرط ہے‘ بلکہ سماجی فاصلہ قائم رکھنے میں بھی آسانی رہتی ہے‘ جس سے ہم اس وباء کو مزیدپھیلنے سے روک سکتے ہیں۔غرض‘ اگر ہم رمضان المبارک کے فیوض وبرکات سے بھرپور فائدہ اٹھائیں تواللہ پاک کوراضی کرنے کایہ بہترین موقع ہے جس سے ہم اپنے گناہوں کی بخشش ‘ رزق میں برکت اور دنیا وآخرت کی کامیابی حاصل کرسکتے ہیں اور اسی ماہِ مقدس میں روزے کے احکامات پر عمل پیرا ہوکر کورونا وائرس کی وبا سے بھی جان چھڑا سکتے ہیں۔
ہمیں رمضان میں روایتی طورپر عبادات کی بجائے قرآن پاک کی تلاوت کواپنا شعار بناناہوگا‘ نمازِ پنجگانہ کی ادائیگی میں اللہ اوراس کے رسول ﷺ کے احکامات کاخاص خیال رکھناہوگا۔ روزے میں صرف بھوک پیاس ہی نہیں‘ بلکہ آنکھوں‘ کانوں اوردل ودماغ سمیت پورے جسم کو روزے کے طابع کرناہوگا‘ زکوٰۃ اصل مستحقین تک پہنچاناہوگی اور روزے کامکمل اجروثواب حاصل کرنے کیلئے غیر ضروری طورپر باہر نکلنے اورباہمی میل جول سے اجتناب کرناہوگا ‘ اگر ہم نے ان ساری باتوں پرعمل کرلیاتو یقین جانیں کہ ہم رمضان المبارک کی برکات سے صحیح فائدہ اٹھانے کے ساتھ کورونا کو بھگانے میں بھی کامیاب ہوجائیں گے۔رمضان المبارک کا پہلاعشرہ نزولِ رحمت کاسبب ہے‘ اس کا درمیانی عشرہ مغفرت اور آخری عشرہ نارِجہنم سے نجات کیلئے ہے‘ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ پورے ماہ مقدس کااحترام کرتے ہوئے اس کی برکات سمیٹیں۔ رسول کریمﷺ کا فرمان ہے: ''رمضان کی آخری شب میری امت کی بخشش کا فیصلہ ہوگا۔کسی نے عرض کی: ''یارسول اللہﷺ!کیا آپﷺ کی مراد شب ِ قدر ہے ؟‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا ''نہیں ‘ لیکن جب کوئی محنت کرنے والا محنت کرتا ہے اور اپنی ڈیوٹی کو اچھے طریقے سے انجام دیتا ہے ‘تو وہ پورے اجر کا حق دار ہوتا ہے‘‘۔(مسند احمد :292 /2)۔
مذکورہ حدیث مبارکہ سے معلوم ہوتاہے کہ ہمیں شب ِ عید(چاندرات) اللہ تعالیٰ سے عاجزی وانکساری کے ساتھ دعا مانگنی چاہیے اوراپنے گناہوں کی بخشش طلب کرنی چاہیے ۔ اللہ تعالیٰ تو بہت غفورالرحیم ہے ‘ وہ ہمیں بغیر مانگے سب کچھ عطافرماتاہت توپھر اگر ہم عاجزی کے ساتھ دعا اورتوبہ واستغفار کریں تو اس کی قبولیت میں کوئی شک وشبہ کی گنجائش ہی نہیں!