جدید سائنسی دور کی ایجادات اورسہولیات اپنی جگہ‘ ہرکوئی پرآسائش زندگی کی خواہش بھی رکھتاہے ‘لیکن ماضی جیسے سکون کی طلب بھی موجود ہے‘ ایئرکنڈیشنڈ آٹومیٹک گاڑی سے کم پر راضی بھی نہیں اور سائیکل کے زمانے کو بھی نہیں بھلاسکے‘ بڑے شہر کے وسیع وعریض پوش علاقے میں لگژری بنگلے کامالک بھی بنناچاہتا ہے‘ لیکن گائوں کے پرفضا ماحول کو بھی ترستا ہے‘ بچوں کو جدید ترین سائنسی درس گاہوں میں پڑھانے کے باوجود اپنے گائوں کے ٹاٹ والے سکول میں تختی لکھنے اورپیدل آنے جانے کی باتیں بھی بڑے فخر سے سناتے ہیں‘ غرض جس کو دیکھیں بہتر مستقبل کے سہانے خوابوں کے ساتھ ساتھ اپنے ماضی کی یادوں پر بھی رشک کرتاہے اور اب کورونا وائرس کی عالمی وبا نے تو ان گنجان آباد شہروں کی پرہجوم زندگی مزید بیزار کردی ہے اور لوگ دوبارہ کھلی فضا میں سانس لینے اور صحت مند زندگی کے خواب دیکھنے لگے ہیں‘ لوگوں کو شہری زندگی آلودہ محسوس ہونے لگی ہے اور یوں محسوس ہوتاہے کہ اب عوام الناس شہری اوردیہی آبادیوں کے درمیان جدید بستیاں آباد کرنے کوزیادی ترجیح دیں گے‘ جہاں شہری سہولیات بھی میسر ہوں ‘لیکن تنگ وتاریک گلیوں اور شورشرابے سے چھٹکارا بھی مل سکے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ قریباً دو دہائیوں میں پرائیویٹ ہائوسنگ کے شعبے نے بڑی ترقی کی اور شہری آبادی سے باہر لاتعداد رہائشی سکیمیں قائم ہوئیں ‘جہاں لوگوں کو جدید رہائشی کلچر ملا‘لیکن اب شاید ایسی سکیموں کو مزید پذیرائی ملے گی اور لوگ گھٹن زدہ ماحول سے دور بھاگیں گے۔اس تحریر کامقصد ہرگز یہ نہیں کہ انسان سائنسی ترقی سے دور ہوتا جارہاہے ؛البتہ یہ ضرور ہے کہ ماضی اورحال کے تجربات سے فائدہ اٹھا کر مستقبل کو زیادہ پرآسائش بنانے کی طرف مائل ہورہاہے۔
عالمی وبا کے خوفناک ماحول میں گزرنے والی عید نے ماضی کی یادوں کو مزید تازہ کردیا۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اوراس کے جڑواں شہر راولپنڈی کو پردیسیوں کاشہر کہاجاتاہے ‘ یہاں پہلے بھی عید کے موقع پردیسی اپنے اپنے آبائی علاقوں کو چلے جاتے تھے اور یہاں گلیاں سنسان اورسڑکیں ویران ہوجاتی تھیں‘ لیکن اس بار کاتجربہ کچھ زیادہ مختلف تھا‘ پبلک ٹرانسپورٹ کی کمی کے باعث پہلے تو لوگوں کو رینٹ اے کار کی سہولت کا سہارا لینا پڑا‘ شوروم مالکان نے لوگوں کی مجبوری سے خوب فائدہ اٹھایا اور ریٹ دوگنے کردئیے‘ ہم بھی حسب ِروایت عید منانے اپنے آبائی گائوں گئے ‘لیکن وہاں بھی اس مرتبہ عید کی خوشیاں ماضی جیسی نہیں مل سکیں‘ لوگ عید کی نماز کے لیے کم نکلے اور پھر نماز عید کے بعد جس جوش وجذبے کے ساتھ ایک دوسرے کو عید کی مبارکبادیں دی جاتی تھیں ‘ان میں بڑی سردمہری نظر آئی‘ باوجود اس کے کہ لوگوں نے ڈبلیوایچ او کی ہدایات اور حکومتی احکامات کو نظرانداز کرتے ہوئے ایک دوسرے کو گلے لگانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی‘ لیکن پھر بھی ماضی جیسا عیدکاماحول نظر نہ آیا۔ ایک زمانہ تھا جب عید اور دوسرے تہواروں پر گائوں میں نوجوان کسی اونچے درخت کے ساتھ مضبوط لمبی رسی باندھ کر جھولا بناتے اور سب باری باری جھولا جھولتے‘ عید کے روز گائوں کے کسی کھلے میدان میں والی بال‘ فٹ بال‘ ہاکی ‘ کرکٹ اور گلی ڈنڈے کے مقابلوں کا اہتمام کیاجاتا تھا‘ بیلوں کی دوڑ اور دیگر ثقافتی میلے سجائے جاتے تھے ‘ کبڈی میچ چیلنج کے طور پر کھیلے جاتے ‘ شہروں میں پہلوانوں کے دنگل ہوتے اور ان سب پروگراموں کو ہزاروں‘ بلکہ لاکھوں لوگ بڑے اہتمام سے دیکھنے جاتے ‘لیکن اب یہ سب کچھ ماضی کے قصے بنتے جارہے ہیں‘ اس بار تو عید شاید صرف نئے کپڑے اورجوتے خریدنے تک ہی محدود رہی اوراس کام میں ہرکسی نے کوشش کی کہ پیچھے نہ رہے چاہے اسے بازاروں میں کتنے ہی دھکے کھانے پڑے اور کورونا وائرس کو بھی تیزی سے پھیلنے کاموقع ملا‘ لیکن جب نئے کپڑے اورجوتے پہن کر دوستوں‘ عزیزوں اور اہل محلہ کو دکھانے کاموقع آیا تو اس کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لینا پڑا ‘ ہرکوئی اپنے گھر کے کسی کونے میں ہی ماڈلنگ کرکر کے تصاویر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کررہاتھا‘ یعنی کورونا وائرس نے عید بھی پھیکی کردی۔ گائوں میں بھی عید کے رنگ نظر نہیں آئے اور اب تو دیہات تک کورونا وائرس کاخوف اس قدر تیزی سے پھیل رہاہے کہ زندگی کے معمول پر آنے کے آثار دور دور تک نظر نہیں آتے۔ وزیراعظم عمران خان بھی بار بار کہہ رہے ہیں کہ ہمیں کورونا کے ساتھ زندگی گزارنا سیکھنا ہوگااور اس کے احتیاطی تدابیر پر سو فی صد عمل کرناہوگا‘ورنہ صورتِ حال خطرناک ہوتی چلی جائے گی ‘جسے کنٹرول کرنا ہمارے بس میں نہیں رہے گا۔
عید سے پہلے بازاروں میں لوگوں نے جس دھکم پیل کامظاہرہ کیا اورپھر عید کے دنوں میں پبلک ٹرانسپورٹ میں کورونا ایس اوپیز کی جو دھجیاں اڑائی گئیں‘ ان کے انتہائی خطرناک نتائج کورونا متاثرین کی شکل میں تیزی سے سامنے آرہے ہیں۔ حالات وواقعات ہمارے سامنے ہیں‘ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ دنیا بھر میں کورونا وبا کے علاج کے لیے ابھی تک کوئی ویکسین یا دوا دریافت نہیں ہوسکی ‘ کورونا لاک ڈائون کے نتیجے میں مہنگائی‘ بیروزگاری اور معاشی تباہی کے اثرات بھی ہم دیکھ رہے ہیں‘ دفاتر اور کاروبار کی بندش سے مشکلات میں اضافہ بھی ہمارے سامنے ہے ۔ کاش! ہم موجودہ حالات سے سبق سیکھیں اور ماضی کی کچھ اچھی روایات کو دوبارہ اپنا کر اپنی زندگی کو آسان بنالیں‘ مجھے یاد ہے کہ جب سائیکل پر سکول جاتے تھے تو پٹرول کے مہنگے یا سستے ہونے کی کوئی فکر نہیں تھی‘ واک کے لیے وقت نہ ملنے کی پریشانی بھی نہیں تھی ‘کیونکہ سائیکل چلانا بذات ِخود ایک اچھی خاصی ورزش تھی‘ جو صحت مند بھی رکھتی تھی‘ سکول یاکالج بس کے لیٹ ہونے کی فکر بھی نہیں ہوتی تھی‘ کیونکہ جب دل چاہا تو سائیکل کا پیڈل گھما دیتے۔ اس زمانے میں گاڑیوں کے دھوئیں سے پیدا ہونے والی آلودگی کے مسائل بھی اتنے نہ تھے اورحادثات کی شرح بھی نہ ہونے کے برابر تھی‘ جو موٹرسائیکل کے سبب بہت زیادہ بڑھ چکی ہے۔ برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں تو آج بھی ہر شاہراہ کے ساتھ سائیکل کا ٹریک موجود ہے اوروہاں ہرطرف گاڑیوں کے ساتھ سائیکلیں دوڑتی نظر آتی ہیں‘ لیکن پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں سائیکل چلانا اب احساس ِکمتری میں شمار ہونے لگا ہے ‘جو غلط ہے۔ ہمیں سائیکل چلانے کی روایت کوزندہ کرناہوگا‘ اس سے سماجی فاصلہ بھی برقرار رہ سکتاہے اور ورزش کے ساتھ کفایت شعاری بھی پیداہوگی۔
واضح رہے کہ حکومت بھی بار بار وارننگ دے رہی ہے کہ اگر لوگوں نے ایس اوپیز پر عمل نہ کیا تومجبوراً دوبارہ سخت لاک ڈائون کرنا پڑے گا‘ جس کے نتائج قحط کی صورت میں بھی بھگتنے پڑ سکتے ہیں ‘ ہم یہ بھی جان چکے ہیں کہ ابھی کم ازکم ایک سال یا چھ ماہ ہمیں اس صورت ِ حال کاسامنا کرنا پڑسکتاہے تو پھر ہم کیوں نہ ایسے اقدامات کریں ‘جن کی بدولت زندگی میں آسانیاں پیداہوں‘ ہمیں آبادی کارُخ شہروں کی طرف بڑھنے سے روکناہوگا‘ سائیکل کی عادت اپنانا ہوگی‘ ایس اوپیز پر عمل کرکے خود کو وبا سے بچانا ہوگا‘ ورنہ بڑی عید بھی ایسی ہی گزر جائے گی۔