وہی قومیں ترقی کرتی اور زندہ کہلاتی ہیں جو اپنے عوام‘ خصوصاً کمزور طبقات کاخاص خیال رکھتی ہیں، انہیں عام شہریوں کے برابر حقوق دیتی ہیں بلکہ ان کے مسائل و مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں خصوصی سہولتیں اور مراعات فراہم کرتی ہیں۔ یہ کام حکومتِ وقت کے کرنے کا ہوتا ہے کہ وہ ہر شعبے اور ہر طبقے کا خیال رکھے۔ معذور افراد کسی بھی معاشرے میں سب سے زیادہ توجہ کے مستحق ہوتے ہیں خواہ وہ گونگے ہوں، بہرے ہوں نابینا یا کسی اور نوعیت کی معذوری کا شکار ہوں۔ دنیا بھر میں ایئر پورٹس، ریلوے سٹیشنوں، بس ٹرمینلز، بازاروں، شاہراہوں، شاپنگ مالز، سکولوں، کالجوں، ہسپتالوں حتیٰ کہ پارکنگ ایریاز میں بھی معذور (خصوصی) افراد کے لئے الگ جگہ مختص ہوتی ہے، بزرگ اور خصوصی افراد کے لئے جہازوں، ٹرینوں اور بسوں میں نشستیں مختص ہوتی ہیں۔ برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں جہاں غلط پارکنگ سنگین جرم سمجھا جاتا ہے اور اس پر بھاری جرمانے کئے جاتے ہیں‘ وہاں بھی خصوصی افراد جہاں مرضی گاڑی پارک کر دیں، انہیں کوئی نہیں پوچھ سکتا۔ وطنِ عزیز پاکستان میں بھی بزرگوں اور خصوصی افراد کے لئے قوانین تو موجود ہیں‘ ٹرانسپورٹ میں ان کے لیے سیٹیں بھی مختص ہوتی ہیں، مختلف کائونٹرز پر سٹکرز بھی آویزاں ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ان پر عمل درآمد کی شرح بہت کم ہے۔ ہمارے ملک میں حکومت کے بہت سارے کام اعلیٰ عدالتوں کوکرنا پڑتے ہیں ۔
خواجہ سرائوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے بھی عدالتِ عظمیٰ نے ہی نوٹس لیا تھا جس کے بعد ان کے قومی شناختی کارڈ بھی بنائے گئے، انہیں سرکاری و نجی ملازمتوں میں کوٹہ بھی دیاگیا اور بہت ساری دیگر مراعات کے اعلانات بھی ہوئے، یہ الگ بات ہے کہ خواجہ سرائوں کی اکثریت نے مخصوص شناختی کارڈ بنوانے اور حکومتی مراعات لینے میں دلچسپی نہیں لی، اس کی وجوہات‘ ایک الگ بحث ہے جس کی یہاں ضرورت نہیں۔ آج ہم خصوصی افراد کے حقوق کی بات کر رہے ہیں تو یہاں بھی حکومت کا کام اعلیٰ عدلیہ کوکرنا پڑا۔ عدالتِ عظمیٰ کے چیف جسٹس جناب جسٹس گلزار احمد، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل پر مشتمل بینچ نے مختلف شہریوں کی جانب سے دائر درخواستوں پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے علاوہ متعلقہ اداروں کو اس سلسلے میں 13نکات پر مشتمل عدالتی ہدایات اور رہنما اصولو ں پر عمل درآمد یقینی بنانے، معذور افراد کی بہبود اور ان کے حقوق کے تحفظ کے لئے ضروری اقدامات کرنے کا حکم جاری کیا۔ عدالت نے ملک بھر میں معذوروں کے کوٹہ پر بھرتیوں کا حکم جاری کرتے ہوئے اس بات کو یقینی بنانے کی ہدایت کی کہ ریجنل کوٹہ پر متعلقہ علاقوں کے معذور افراد کا تقررکیا جائے۔ ملک بھر کی ڈویلپمنٹ اتھارٹیز کو حکم دیا گیا ہے کہ معذوروں کے لئے رہائشی پلاٹوں اور گھروں کے کوٹہ پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔ متعلقہ حکام‘ اداروں اور وفاقی و صوبائی حکومتوں کو حکم دیا ہے کہ معذوروں کے لئے پبلک پارکوں میں خصوصی پارکنگ اور ریمپ تعمیر کرنے کااہتمام کیا جائے، شاپنگ مالز، پارکوں اور عوامی مقامات پر معذوروں کے لئے قابل رسائی واش رومز اور ریمپ بنائے جائیں، مسائل کے حل کے لئے میکنزم بنایا جائے جس سے آگاہی کے لئے مہم چلائی جائے۔ وفاقی و صوبائی حکومتوں، پیمرا، پی ٹی وی، پی بی اے اور ادارۂ شماریات کو معذوروں کے حوالے سے پروگرام اور پیغامات کی پبلک سروس نشریات جاری کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے علاوہ ترقیاتی اداروں کو بھی حکم دیا گیا ہے کہ معذوروں کی رسائی کے کوڈ مجریہ 2006ء پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔ پبلک ٹرانسپورٹ اتھارٹیز کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ معذوروں کی پبلک ٹرانسپورٹ تک رسائی کو یقینی بنانے کے لئے اقدامات کریں۔ عدالت نے ریلوے سٹیشنوں، بس سٹینڈز، موٹر ویز اور ہائی ویز وغیرہ پر معذوروں کیلئے قابل رسائی ٹائلٹس بنانے کی ہدایت بھی کی ہے۔فاضل بینچ نے قرار دیا ہے کہ 18ویں ترمیم کے بعد پاپولیشن پلاننگ، سوشل ویلفیئر، ذہنی معذوری اور بیماریوں جیسے امور صوبوں کو منتقل ہو چکے ہیں، پنجاب اورکے پی میں کچھ قانون سازی ہوئی ہے جبکہ سندھ اور بلوچستان میں اقدامات جاری ہیں۔ عدالت نے قرار دیا کہ پاکستان میں معذوروں کے قابل اعتماد اعداد و شمار میسر نہیں تاہم پاورٹی ایلویشن فنڈ کے مطابق پاکستان میں 66فیصد معذور افراد دیہاتی علاقوں میں رہتے ہیں، 28فیصد اَن پڑھ جبکہ صرف 14فیصد ملازمتیں کرتے ہیں، 70فیصد معذورافرادکی کفالت ان کے خاندان کرتے ہیں۔ عدالت کو نشاندہی کی گئی کہ وفاقی حکومت معذور افراد کی زندگیوں کو آسان بنانے کے لئے مناسب اقدامات میں ناکام رہی ہے، پاکستان نے اقوام متحدہ کے کنونشن پر دستخط کر رکھے ہیں لیکن اس پر اس کی روح کے مطابق عمل نہیں ہو رہا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے معذور افراد کو سہولتوں کی فراہمی کے لئے وقتاً فوقتاً جاری کئے گئے احکامات پر عمل درآمد کی صورتحال پر اطمینان کا اظہار کیا گیا ہے جوکہ یقینا خوش آئند ہے کہ ''دیر آید‘ درست آید‘‘ کے مصداق‘ اگر حکومت نے اپنا کام صحیح طریقے سے نہیں بھی کیا تو چلو! کم ازکم عدالت عظمیٰ کے احکامات پر تو عمل ہو رہا ہے اور اس سے خصوصی افراد کو ان کے حقوق تو مل رہے ہیں۔ راولپنڈی میں ہم نے دیکھا کہ معذور و نابینا افراد کے لئے سرکاری و نجی شعبے میں ملازمتوں کے حصول کیلئے گاہے اجلاس ہوتے رہتے ہیں جن میں متعلقہ ادارے اپنی کارکردگی رپورٹ پیش کرنے کے ساتھ آئندہ کا لائحہ عمل بھی پیش کرتے ہیں، یہ ایک حوصلہ افزا بات ہے اور اس پر یقینا ملک کے دیگر شہروں اور علاقوں میں بھی عمل درآمد ہو رہا ہوگا کیونکہ یہی وہ واحد راستہ ہے جس سے ہم معذور افراد کے حقوق کا تحفظ بھی کرسکتے ہیں اور انہیں بھیک مانگنے اور دوسروں پر بوجھ بننے کے بجائے روزگار مہیا کرکے نہ صرف معاشرے کا کارآمد شہری بنا سکتے ہیں بلکہ اس طرح وہ اپنے خاندان پر بوجھ بننے کے بجائے اس کا بوجھ خود اٹھا سکتے ہیں۔
معذور افراد کے مسائل و مشکلات وہ خود یا ان کے لواحقین ہی بہتر سمجھ سکتے ہیں، جس خاندان میں خدا نخواستہ ایک بچہ بھی معذور ہو تو وہ پورا خاندان اس سپیشل بچے کی پرورش، دیکھ بھال، حفاظت اورعلاج معالجے میں مصروف رہتا ہے۔ سپیشل بچوں کے والدین کی زندگی کافی کٹھن ہو جاتی ہے‘ خصوصاً غریب افراد کے لئے خصوصی بچوں کی پرورش، ان کی دیکھ بھال اورعلاج معالجے کے ساتھ تعلیم و تربیت کا اہتمام کافی مشکل اور صبر آزما کام بن جاتا ہے۔ پنجاب میں تو محکمہ سوشل ویلفیئراینڈ بیت المال معذور افراد کی بحالی کے لئے بڑے اچھے اقدامات کر رہا ہے، راولپنڈی میں یہ محکمہ سینکڑوں معذور افراد کو ملازمتیں دلا چکا ہے۔ امید ہے کہ دیگر صوبوں میں بھی خصوصی افراد کی دیکھ بھال کا کام احسن طریقے سے سر انجام دیا جا رہا ہو گا۔
عدلیہ کا اقدام انتہائی احسن، حکومتی کارکردگی بھی اطمینان بخش ہے لیکن سب سے خوش آئند بات یہ ہے کہ افواجِ پاکستان میں معذور افراد کی بحالی کے لئے بہترین شعبے قائم ہیں اور انہیں معاشرے کاکارآمد شہری بنانے کیلئے دن رات کام ہو رہاہے؛ تاہم بحیثیت معاشرہ اورذمہ دار شہری ہمارا بھی فرض ہے کہ جہاں بھی خصوصی افراد کو دیکھیں تو ان کی مدد کریں، انہیں ہمیشہ ترجیح دیں، اگر کسی قطار میں لگے ہوئے ہیں تو خصوصی افراد کو پہلے باری دیں، سفر میں ہیں تو بزرگ و خصوصی افراد کو ترجیحی نشست دیں، خصوصی بچوں کے ساتھ ہمیشہ شفقت سے پیش آئیں، ان کی غلطیوں کو صبر و تحمل سے برداشت کریں اور ان کے ساتھ ہمیشہ ایسا رویہ اپنائیں کہ انہیں کبھی معذوری و کمزوری کا احساس نہ ہو۔ خصوصی افراد کی بحالی اور ان کے حقوق کے تحفظ سے معاشرتی ترقی کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی بھی حاصل ہوگی اورہماری اپنی زندگی میں بھی سکون آئے گا۔