اداروں کا احترام

ہم نے انگریز سے آزادی تو حاصل کر لی، اپنا آئین اور قوانین بھی بنا لئے، پہلی اسلامی ایٹمی طاقت بھی بن گئے اور بھی کئی شعبوں میں بڑی ترقی کر لی لیکن بدقسمتی سے ابھی تک ہم ایک قوم نہیں بن سکے، اپنی قومی ذمہ داریوں سے پوری طرح آگہی حاصل نہیں کر سکے۔ ہمیں یہ معلوم ہی نہیں کہ ہماری کون سی بات ملک اور اس کے قومی اداروں کے لئے شرمندگی اور جگ ہنسائی کا باعث بن سکتی ہے، کس بات سے ان کی ساکھ متاثر ہو سکتی ہے اور اگر ایسا ہوا تو اس کے عالمی سطح پر پاکستان خصوصاً بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، ہماری کتنی بدنامی ہو سکتی ہے اور ہمارے اندرونی و بیرونی دشمن ایسی باتوں سے کیا کیا فوائد حاصل کر سکتے ہیں۔ سب اداروں میں تمام چھوٹی بڑی پوسٹوں پرکام کرنے والے ہمارے اسی معاشرے کا حصہ ہیں؛ لہٰذا وہاں بھی غلطیاں‘ کوتاہیاں ہو سکتی ہیں اور کسی کی نااہلی یا کمزوری کی وجہ سے مسائل بھی پیدا ہو سکتے ہیں لیکن ہم نے خود ہی ایسی چیزوں کو ٹھیک کرنا ہے، بہتری پیدا کرنی ہے اور اگر کہیں کسی قسم کی کمزوری دکھائی دے تو اس پر پردہ ڈالنا ہے مگر میں اس کو بدقسمتی ہی کہوں گا کہ ہم اپنے چھوٹے چھوٹے مسائل پر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں، ذاتی مفاد کو اکثر قومی مفاد پر ترجیح دینے لگتے ہیں اور اپنی غلطی، کمزوری یا ناکامی کا ملبہ اداروں پر ڈال دیتے ہیں جو انتہائی غلط اور نامناسب رویہ ہے۔
ملک میں جب بھی کوئی مشکل وقت آتا ہے، زلزلہ آئے یا سیلاب، کوئی مذہبی تہوار ہو یا کوئی احتجاجی تحریک، عام انتخابات ہوں یا دہشت گردی کے واقعات، ہمارے عوام مدد کے لئے پاک فوج کی جانب ہی دیکھتے ہیں اور ہمیں یقین ہوتا ہے کہ فوج آئے گی اور سب کچھ سنبھال لے گی۔ ہم تو شہر سے بارش کا پانی بھی فوج کی مدد کے بغیر نہیں نکال سکتے بلکہ شاید آپ کو مارچ 2018ء کا وہ پی ایس ایل میچ بھی یاد ہو گا جب طوفانی بارش نے قذافی سٹیڈیم کے گرائونڈ میں جل تھل ایک کر دیا تھا اور میچ کا انعقاد مشکل ہوگیا تھا، اس دن ہمیں چند کنال کا ایک میدان خشک کرنے کے لئے بھی اسی سے درخواست کرنا پڑی تھی اور پھر فوجی ہیلی کاپٹروں نے ہماری آنکھوں کے سامنے چند منٹوں میں میدان کو کھیلنے کے قابل بنا دیا، یعنی ہم یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاک فوج اور قومی سلامتی کے اداروں کی مدد اور تعاون کے بغیر ابھی تک کسی بھی شعبے میں خود کفیل نہیں ہو سکے اور ہمیں قدم قدم پر قومی اداروں کا تعاون درکار ہوتا ہے۔
ہم نے ملک کی سیاسی قیادت کوکئی بار یہ کہتے سنا کہ انتخابات فوج کی نگرانی میں کرائے جائیں، سیاستدان ہی فوج کو مداخلت کی دعوت بھی دیتے ہیں، جب اور جہاں تک‘ جس کے حق میں ہوتا ہے پاک فوج زندہ باد کے نعرے لگتے رہتے ہیں اور جب بھی کوئی بات مرضی یا مفاد کے خلاف ہوتی نظر آئے تو وہی لوگ اپنی اصلاح کرنے یا معاملات کوٹھیک کرنے کے بجائے فوج پر تنقید شروع کر دیتے ہیں، بعض اوقات تو لوگ تنقید کرتے ہوئے حد بھی پار کر جاتے ہیں اور یہ بھی نہیں سوچتے کہ کل تک فوج کے اقدامات ہمیں اچھے لگ رہے تھے اور ہم زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے لیکن آج اگر حالات بدل گئے ہیں یا عارضی طور پر ہمارے لئے موافق نہیں رہے تو بجائے اس کے کہ ان معاملات کو درست کریں، ہم فوج پر تنقید شروع کر دیتے ہیں اور اس حد تک تنقید کرتے ہیں جس سے ہمارے دشمنوں کو خوشی ہو اور وہ ہماری باتوں کو ہمارے خلاف استعمال کر سکیں۔ بعض اوقات تو کئی لوگ ذاتی مفادات کے لئے الزام سے بھی ایک قدم آگے بڑھ جاتے ہیں اور یہ بات بھول جاتے ہیں کہ اگر افواجِ پاکستان سرحدوں کی حفاظت کے لئے چاق و چوبند نہ ہوتیں اور ہمارے ہزاروں جوان و افسران اپنی جان کا نذرانہ نہ دیتے تو شاید آج ہم اتنی آزادی اور سکون سے نہ بیٹھے ہوتے۔ یہ لوگ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ پاک فوج الرٹ نہ ہوتی تو 1965ء میں ہی ہمارے روایتی دشمن کے ناپاک عزائم پورے ہو چکے ہوتے۔ لوگ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ ہماری بہادر مسلح افواج نے کس طرح وطن عزیز سے دہشت گردی اور تخریب کاری کا خاتمہ کیا۔ کس طرح خودکش حملوں کو روکا اور کیسے دہشت گردوں کو ان کے انجام تک پہنچایا۔ ہم تو گزرے کل کی یہ بات بھی بھول گئے کہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ردالفساد اور ضربِ عضب میں ہمارے کتنے جوانوں نے جامِ شہادت نوش کیا اور ہماری جانوں کی حفاظت یقینی بنائی۔ہم چھوٹی چھوٹی باتوں میں اپنے قومی اداروں کو گھسیٹ لاتے ہیں اور پھر ان پر تنقید شروع کر دیتے ہیں۔ کوئی کونسلر کا الیکشن ہار جائے تو الزام اداروں پر دھر دیتا ہے، کسی کو کرپشن کیس میں طلبی کا نوٹس مل جائے تو اس کو بھی اداروں کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے‘ بھلا ایسی چیزوں سے اداروں کا کیا تعلق ہے؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے بعض اداروں کی ساکھ یا ان کے بارے میں تاثر ایسا ہے کہ حکومت انہیں اپنے مخالفین کو دبانے اور انہیں اپنے ساتھ ملانے کے لئے استعمال کرتی ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ افواج پاکستان اور حساس اداروں کو بھی ٹارگٹ کیا جائے۔ ایسے لوگ بھی تبصرے کر رہے ہوتے ہیں جنہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ فوج میں پلاٹون، کمپنی، یونٹ، بریگیڈ، ڈویژن یا کور سے کیا مراد ہے، فوج کتنے کٹھن حالات میں ڈیوٹیاں سر انجام دیتی ہے اور کتنی سخت ٹریننگ کے مراحل سے گزر کر ایک ریکروٹ سپاہی بنتا ہے اور ایک کیڈٹ کتنی سخت سزائوں اور مشکلات کے بعد افسر بنتا ہے، انہیں دن رات اور ہر طرح کے حالات میں اپنی ڈیوٹی سر انجام دینا ہوتی ہے اور یہ واحد ادارہ ہے جو جنگ کے دوران بھی اپنا نظم و ضبط نہیں توڑتا، تو پھر ایسے محب وطن ادارے اور اس کے افسران و جوانوں پر تنقید‘ چہ معنی دارد؟ ہمارے سیاستدانوں کو ذمہ داری کا ثبوت دینا چاہئے اور اپنے معاملات کو سیاسی طور پر حل کرنے کے ساتھ ساتھ قومی ساکھ کو بھی ملحوظ رکھنا چاہئے۔ اگر کہیں کسی ادارے میں بھی کوئی کوتاہی یا کمزوری نظر آئے تو اس کو مجوزہ طریقے سے ٹھیک کرنے کے ساتھ ساتھ اس کا بھرم بھی رکھنا چاہئے تاکہ ہمارا دشمن اس کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے ہرگز استعمال نہ کر سکے۔ سیاسی معاملات میں فوج اور دیگر قومی اداروں کو ہرگز نہیں گھسیٹنا چاہئے اور سیاسی معاملات سیاسی طور پر ہی حل کرنے چاہئیں۔
چند روز قبل فوجی قیادت اور پارلیمانی رہنمائوں کے درمیان ہونے والی ملاقات بھی ایک مثبت روایت ہے جس میں اعلیٰ فوجی قیادت نے واضح کیا کہ فوج کا احتساب، انتخابی عمل یا دیگر سیاسی معاملات سے کوئی تعلق نہیں۔واضح کیا گیا کہ سیاست دان اپنے معاملات خود حل کریں اوراداروں کو بدنام کرنے سے باز رہیں۔ پاک فوج ایک مستند و منظم ادارہ ہے جس میں سپاہی سے لے کر جرنیل تک‘ ہرکوئی ڈسپلن کا پابند اور جوابدہ ہے، یہ واحد ادارہ ہے جو ملک کے اندر امدادی سرگرمیوں سے لے کر حالتِ جنگ میں بھی اپنے جوانوں اور افسران کو خوراک اور ادویات سے لے کر اسلحہ اورکمک پہنچانے تک کا سارا انتظام خود کرتا ہے اور آج تک اس نظام میں کبھی کوتاہی نظر نہیں آئی۔ ایسے قومی ادارے پر تنقید کرنے والوں کو سوچناچاہئے کہ اگر یہ قربانیاں نہ دیتا توکیا ہم آج اس طرح آزاد ہوتے؟ ہمیں اپنے قومی اداروں کا احترام کرنا سیکھنا ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں