سیاست، خدمت اور جمہوریت

دنیا بھر کی سیاست سے رفتہ رفتہ اقدار، اخلاقیات، مصلحت، خدمت اور عوامی فلاح کی سوچ ختم ہوتی جا رہی ہے۔ مخالفین کو زیر کرنے کے لئے اب منشور اور خدمت کی جگہ اب ان پر ایسے ایسے الزامات عائد کرنے کا رواج عام ہوتا جا رہا ہے کہ جن کا حقیقت یا عوامی مسائل و ترقی سے کوئی تعلق واسطہ ہی نہ ہو۔ ایک دوسرے کے خلاف ایسی زبان استعمال ہونے لگی ہے کہ سیاسی جلسوں اور سٹیج ڈراموں میں کوئی فرق نہیں رہا۔ اکثر سیاستدان صرف خبروں کی زینت بننے اور پارٹی لیڈرشپ کی خوشنودی کے لئے ایسی بازاری زبان استعمال کرتے ہیں اور سیاسی مخالفین پر ایسی منفی تنقید کرتے ہیں کہ ان کے اپنے اہلِ خانہ بھی شرم محسوس کرتے ہوں گے لیکن شاید ان سیاستدانوں کو کوئی احساس ہی نہیں اور وہ بڑے فخر سے نجی محفلوں میں اس بات کا ذکر کرتے ہیں کہ میں نے جو فلاں بات کی‘ وہ سوشل میڈیا پر اتنی زیادہ وائرل ہوئی ہے۔ انہیں اس بات کی شاید خبر ہی نہیں کہ سوشل میڈیا پر کسی چیز کے وائرل ہونے کا مطلب ہرگز اس کی پسندیدگی نہیں بلکہ سوشل میڈیا پر منفی چیزیں زیادہ تیزی سے پھیلتی ہیں۔
موجودہ دور میں سیاست صرف انتخابات میں کامیابی اور اقتدار کے حصول کی جنگ بن چکی ہے۔ بدقسمتی سے اب ہر سیاسی جماعت میں ایسے خوشامدی اور مفاد پرستوں کی کمی نہیں جو بد زبانی اور جگت بازی سے مخالفین پر بے ہودہ الزام تراشی کرکے نہ صرف اپنی پارٹی میں جگہ مضبوط بناتے ہیں بلکہ بسا اوقات سپوکس پرسن جیسے انتہائی سنجیدہ اور معتبر عہدے پر بھی براجمان ہو جاتے ہیں۔ جوں جوں وقت کے ساتھ ساتھ تعلیمی معیار اور سیاسی تربیت کے مواقع بڑھتے جا رہے ہیں‘ سیاست کا معیار توں توں گرتا جا رہا ہے۔ سنجیدگی ختم ہوتی جا رہی ہے، عزت و احترام اور بڑے‘ چھوٹے کا لحاظ ماضی کا قصہ بنتا جا رہا ہے، جھوٹ بولنے پر شرمندگی تو دور کی بات‘ پکڑے جانے پر فخر محسوس کیا جاتا ہے کہ میں نے کیسے سب کو بیوقوف بنایا۔ غرض دنیا بھر میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص سیاست میں منفی رجحانات تیزی سے بڑھنے لگے ہیں۔ اب سیاسی جماعتوں نے بھی اپنے منشور اور عوامی خدمت کے بجائے صرف بلند بانگ انتخابی وعدوں کو اپنا مطمح نظر بنا لیا ہے اور ہمارے عوام بھی جلد بھول جاتے ہیں کہ ہمیں کس طرح 'لارا‘ لگا کر حسبِ سابق بے وقوف بنایا گیا۔ بھولے عوام اپنا حق مانگنے کے بجائے الٹا ان مفاد پرست سیاستدانوں کا دفاع اور ترجمانی کرنا شروع کر دیتے ہیں اور اسی وجہ سے بار بار بیوقوف بنتے چلے جاتے ہیں۔ پہلے پارٹیاں باکردار، اعلیٰ تعلیم یافتہ، عوام میں اچھی ساکھ اور مثبت شہرت کے حامل مخلص امیدواروں کو ترجیح دیتی تھیں لیکن اب معیار تبدیل ہو چکا ہے۔ اب کسی سیاسی جماعت کا عہدیدار یا انتخابی امیدوار بننے کے لئے جاگیردار، سرمایہ دار، صنعت کار ، فن کار اور کسی حد تک بدتمیز ہونا موزوں سمجھا جاتا ہے۔ 
پاکستان کی حالیہ سیاست کو دیکھ لیں، ہر سیاسی جماعت اور ہر لیڈر عوامی فلاح و بہبود اور خدمت کا منشور پیش کرنے کے بجائے مخالفین کے نام بگاڑنے، ان پر الزامات عائد کرنے اور انہیں جگتیں مارنے پر لگا ہوا ہے۔ اپنی کارکردگی بتانے کے بجائے مخالفین پر کیچڑ اچھالا جا رہا ہے۔ حکومت بھی مہنگائی جیسے عوامی مسائل حل کرنے اور حقیقت پسندی سے کام لینے کے بجائے اسے آج بھی ماضی کی حکومتوں کے متھے مارنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے۔ وزیراعظم صاحب کا کہنا ہے کہ تمام معاشی اشاریے مثبت سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں، دو سال کی محنت سے معیشت کو پائوں پر کھڑا کیا ہے، معاشی پالیسیوں کے ثمرات جلد عوام کو منتقل ہونا شروع ہو جائیں گے، معاشی ٹیم عوام کو بتائے کہ کس طرح سے گزشتہ حکومتوں نے معیشت کو نقصان پہنچایا، اپوزیشن اپنی سیاست بچانے کے لئے عوام کو گمراہ اور مہنگائی سے متعلق حکومت کے خلاف پروپیگنڈا کر رہی ہے۔ کوئی حکومت کو بتائے کہ اپوزیشن کا توکام ہی حکومت پر تنقید کرنا ہوتا ہے اور اگر آپ نے اس تنقید سے بچنا چاہتے ہیں تو ترجمانوں کو محض گزشتہ حکومتوں میں کیڑے نکالنے کا ٹاسک دینے کے بجائے مہنگائی کنٹرول کریں تاکہ عوام خود ہی اپوزیشن کو جواب دے سکیں۔
عالمی سیاست پر نظر ڈالیں تو امریکی انتخابات بھی منفی سیاست کی مثال نظر آتے ہیں۔ امریکی صدارتی الیکشن میں بھی جھوٹ اور غیر جمہوری طریقوں کا سہارا لیا گیا؛ تاہم وہاں ابھی تک اخلاق سے گرے ہوئے ایسے الزامات سننے میں نہیں آئے‘ جیسے گلگت‘ بلتستان کے انتخابات اور قومی سیاست میں دیکھے اور سنے جا رہے ہیں۔ ہماری حکومت اور اپوزیشن‘ دونوں طرف کا یہ رویہ غیر جمہوری اور غیر اخلاقی ہے۔ حالیہ دنوں کی چند مثالیں ہی عوام کو پریشان کرنے کے لئے کافی ہیں۔ اصولاً تو وفاقی وزرا کے انتخابی جلسوں پر پابندی ہونی چاہئے لیکن یہاں اصولوں کی پروا کون کرتا ہے؟ وفاقی وزیر علی امین گنڈاپور نے ایک انتخابی جلسے میں سابق وزیراعظم نوازشریف، مریم نواز اور سابق صدر آصف علی زرداری کو اپنی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ان پر ذاتی نوعیت کی تنقید کی، وزیراعلیٰ پنجاب کی معاونِ خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان کا اس حوالے سے بیان آیا کہ بلاول بھٹو اور مریم نواز بہکی بہکی باتیں کر رہے ہیں، علی امین گنڈا پور میرے ساتھی ہیں‘ ان کے الفاظ کے چنائو پر اعتراض ہے‘ جو شاید مناسب نہیں تھا مگر ان کے نظریات‘ ان کی باتیں ٹھیک ہیں۔ عجیب صورتحال ہے‘ الفاظ کے غلط چنائو کے باوجود ہم جماعت سیاستدان کی حمایت ہماری موجودہ سیاست کا جزو بن چکا ہے۔ وفاقی وزیر مواصلات بھی کسی سے پیچھے نہیں اور سیاسی مخالفین پر تنقید کے خوب نشتر برسا رہے ہیں۔ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے بھی جواباً حکومت کو سلیکٹڈ اور کٹھ پتلی کہتے ہوئے علی امین گنڈاپور پر ذاتی نوعیت کے حملے کیے۔ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز بھی وزیراعظم کے عہدے کے احترام اور سیاسی متانت سے عاری نظر آتی ہیں۔ ان مثالوں کا مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ ہماری سیاست آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی طرف جا رہی ہے اور ہم ترقی کے بجائے تنزلی کا شکار ہو رہے ہیں۔ عوام باشعور ہونے کے دعوے توکرتے ہیں لیکن اگر واقعی لوگوں میں شعور بیدار ہو چکا ہوتا تو کیا ایسی منفی سیاست کو قبول کیا جاتا؟ ایسی سیاست نہ توجمہوریت ہے اور نہ ہی اسے آزادیٔ رائے کا اظہار کہا جا سکتا ہے، عوامی خدمت یا فلاح تو یہ بالکل بھی نہیں۔ 
اس منفی سیاست کی ذمہ داری حکومت اور اپوزیشن‘ دونوں پر عائد ہوتی ہے۔ پچھلے چند سالوں میں اس کے رجحان میں کچھ زیادہ ہی اضافہ ہوا ہے۔ سیاست میں اخلاقی قدریں معدوم ہوتی جا رہی ہیں، تنقید برائے اصلاح کی جگہ الزامات برائے مخالفت کا رواج زور پکڑ رہا ہے۔ اقتدار کی جنگ میں غیر اخلاقی باتیں اور غیر جمہوری طریقے سیاستدان خود اپناتے ہیں اور پھر ہر بات کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھہرانے لگتے ہیں جو یقینا درست نہیں۔ ہماری سیاسی لیڈرشپ کو ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر اجتماعی مفاد اور قومی ترقی کو اپنی ترجیح بنانا ہو گا، ایک دوسرے پر اخلاق باختہ الزامات عائد کرنے کے بجائے عوامی خدمت کا منشور پیش کرنا اور مخالفین کو برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا ہو گا۔ سیاست ضرور کریں‘ ایک دوسرے پر تنقید بھی کریں لیکن تنقید برائے تنقید نہیں بلکہ ایسی تنقید جس میں تعمیر اور اصلاح کا پہلو نمایاں ہو۔ ہماری آپس کی نااتفاقی کا فائدہ وطن عزیز کے اندرونی و بیرونی دشمنوں کو ہی ہو گا لہٰذا ہوش کے ناخن لیں اور بولنے سے پہلے سو بار سوچیں۔ ایک جھوٹ کو چھپانے کے لئے سو جھوٹ بولنا پڑتے ہیں اور جھوٹ پھر بھی جھوٹ ہی رہتا ہے جس کا پردہ جلد یا بدیر فاش ہو کر رہتا ہے۔ جھوٹ پر استوار سیاست زیادہ دیر نہیں چل سکتی ہے کیونکہ جھوٹ سے زیادہ غیر مستحکم اور زیادہ غیر پائیدار کوئی چیز نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں