روایتی سیاست اور سیاسی حریف

پاکستانی سیاست بھی عجیب ہے، اس میں اصول، نظریے، بیانیے، اخلاقیات، سماجی اقدار اور معاشرتی و ثقافتی روایات کا کوئی عمل دخل نہیں اور نہ ہی انہیں کوئی اہمیت دی جاتی ہے۔ ہمارے سیاستدانوں کا واحد نصب العین کسی بھی ایسی سیاسی جماعت کا ٹکٹ حاصل کرنا ہوتا ہے جس کے ذریعے وہ اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ سکیں۔ پورے معاشرے میں ڈھونڈنے سے بھی کوئی ایسا سیاستدان نہیں ملتا جس کی سیاست سو فیصد اصولوں اور اخلاقیات پر مبنی ہو، ہر سیاستدان کا منشور وہی ہوتا ہے جو اس کی انتخابی جماعت کا رائج منشور ہو۔ یہاں انتخابی جماعت کی اصطلاح اس لیے استعمال ہوئی کہ پاکستان میں ایک تہائی سے زائد سیاستدان ایسے ہیں جو ہمیشہ نظریۂ ضرورت کے تحت پارٹی بدلتے رہتے ہیں، کیونکہ ان کی منزل پارلیمنٹ نہیں بلکہ اقتدار ہوتی ہے اور وہ ہر پانچ سال بعد ایسی پارٹی کا ٹکٹ حاصل کرنے یا اس کے ساتھ اتحاد کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کے الیکشن جیتنے اور حکومت بنانے کے امکانات زیادہ نمایاں ہوں۔ یہی لوگ 'سیاست میں سب کچھ جائز‘ کی سوچ رکھتے ہیں اور ان کے لیے کامیاب سیاست صرف الیکشن جیتنا ہے۔
ہم نے 2018ء کے عام انتخابات میں ایک ایسے سیاستدان کو بھی دیکھا جس نے ایک روز پنجاب اسمبلی کے لئے مسلم لیگ (ن) کا ٹکٹ اپنے حلقے کے ریٹرننگ افسر کے پاس جمع کرایا اور شام تک اپنے حلقے میں میاں نوازشریف کی تصاویر والے بینروں اور پوسٹروں کی بھرمار کر دی۔ انتخابی جلسوں، میٹنگز اور اپنی دیگر تقاریر میں وہ پی ٹی آئی کے دھرنے کو ملکی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیتے ہوئے ''ووٹ کو عزت دو‘‘ کے نواز شریف کے بیانیے کا علمبردار بنا ہوا تھا، ''وزیراعظم نواز شریف‘‘ کے نعرے تو گویا خود بخود ان کی زبان سے جاری ہو رہے تھے، مگر ایک دو دن بعد ہی ایک ایسی خبر آئی جس نے نہ صرف اہالیانِ حلقہ بلکہ موصوف کے اپنے اہلِ خانہ کو بھی ششدر کر دیا۔ خبر یہ تھی کہ پاکستان تحریک انصاف نے انہیں قومی اسمبلی کا ٹکٹ دے دیا تھا لہٰذا انہوں نے (ن) لیگ کا ٹکٹ واپس کر کے ایم این اے کے لئے 'بلے‘ کانشان لے لیا، چند ہی گھنٹوں میں ان کے نظریات اور نعرے‘ سب کچھ بدل گیا۔ ایک رات قبل جس نواز شریف کو وہ قوم کا واحد مسیحا قرار دے رہے تھے، وہی اب سب سے بڑا چور، ڈاکو، اور خائن بن چکا تھا۔ اب گلے میں وہ پی ٹی آئی کا پرچم ڈال کر ''تبدیلی‘‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔ جب اس اچانک رونما ہونے والی تبدیلی بارے سوال کیا گیا تو ان کے قریبی ذرائع نے بتایا کہ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو نہ صرف الیکشن ہار جاتے بلکہ ان کے خلاف جاری مقدمات کی فائلیں بھی کھل چکی ہوتیں، لہٰذا انہوں نے جوکچھ کیا‘ یہی کامیاب سیاست اور وقت کی ضرورت تھی۔ یہ تو محض ایک مثال ہے، قوم تو ایسے سینکڑوں سیاستدانوں کوجانتی ہے جو ہر الیکشن میں پارٹی اور قائد تبدیل کرکے عوام کو بیوقوف بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور ہر بار اسمبلی بلکہ اقتدار کی راہداریوں تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
مذکورہ بالا مثال سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ ہمارے ملک میں احتساب کا عمل بھی ابھی مکمل شفاف یا قابل اعتماد نہیں ہے اور یہ شکنجہ اپوزیشن کے گرد زیادہ کسا جاتا ہے جبکہ مقتدر حلقوں میں اس کا اثر کمزور پڑ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وطنِ عزیز میں کرپشن ختم ہونے میں نہیں آ رہی۔ بدعنوان روایتی سیاستدانوں کو معلوم ہے کہ انہوں نے کس طرح پارٹی بدل کر کس طرح حکومت میں شامل ہونا ہے اور اپنی کرپشن کا حساب دینے کے بجائے اپنے سیاسی مخالفین پر کیسے الزام تراشی کرنی ہے اور ان سے کس طرح سیاسی انتقام لینا ہے‘ سو وہ کھل کھیلنے میں کامیاب رہتے ہیں اور پھر صاف بچ بھی نکلتے ہیں۔
علاقائی یالسانی بنیادوں پر قائم سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کی بات چھوڑیں‘ افسوسناک امر یہ ہے کہ ہمارے ہاں مذہبی سیاسی جماعتوں کی قیادت بھی عوام کو سیدھے راستے پر چلانے کی کوشش کم ہی کرتی ہے، وہ بھی نظریۂ ضرورت کے تحت اور سیاسی موسم دیکھ کر حریف و حلیف کا انتخاب کرتی دکھائی دیتی ہے۔ ان رہنمائوں کے بیانات بھی الزام تراشی اور ذاتی عناد سے خالی نہیں ہوتے۔ گزشتہ روز جمعیت علمائے اسلام کے منحرف رہنما حافظ حسین احمد کا ایک بیان نظر سے گزرا، یہ وہی حافظ صاحب جو اپنے بیانات کے طنز کے سبب مشہور ہیں اور سیاسی مخالفین بھی ان کا احترام کرتے ہیں۔ چند ماہ پہلے تک وہ مولانا فضل الرحمن کو ہی اپنا سیاسی قائد سمجھتے تھے اور ان کی ہر بات پر لبیک کہتے تھے لیکن گزشتہ دنوں ان کاجو بیان نظر سے گزرا، اس میں ان کا اشارہ رائیونڈ میں مولانا فضل الرحمن کی مریم نواز اور حمزہ شہباز سے ہونے والی ملاقات کی طرف تھا۔ اس بیان میں انہوں نے اپنے سابق قائد پر کرپشن کا الزام لگایا تھا۔ اسی قائد پر‘ جس کا ساری زندگی وہ دفاع کرتے رہے لیکن اب سیاسی اختلاف پیدا ہونے کے بعد بات کہاں سے کہاں تک پہنچ چکی ہے، اس کا شاید کبھی انہوں نے خود بھی نہ سوچا ہو گا۔ پی ڈی ایم قیادت کی ملاقات اور لانگ مارچ کے حوالے سے انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں جو تبصرہ کیا، وہ کچھ یوں تھا ''لانگ مارچ کو طے شدہ مالیاتی امور کی وجہ سے یکسر ختم نہیں کیا جا سکتا، ویسے بھی لاہور میں 'رینٹل مارچ‘ کے حوالے سے قسط کی وصولی کیلئے بالمشافہ ملاقات ناگزیر تھی۔ یکم تاریخ سے بھی پہلے پی ڈی ایم کو سیاسی اپریل فول کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، 4 اپریل کو پیپلز پارٹی کا استعفوں کی طرف نہ آنے کیلئے اجلاس کے رسمی فیصلے کے بعد تو مشتری ہوشیار باش کے تحت رینٹل مارچ کے حوالے سے دیے گئے بیعانے کی واپسی بھی ممکن نہیں ہو سکے گی۔ بلاول اور حمزہ اپنے والد آصف زرداری اور شہبازشریف مل کر بڑے میاں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن کے بیانیے کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے سے گریز نہیں کریں گے‘‘۔
اس بیان کو پڑھنے اور اس کے ساتھ حکومتی ترجمانوں کی جانب سے اپوزیشن قیادت بارے بیانات اور حزب اختلاف کی جانب سے حکمرانوں پر الزامات کو ملا کر دیکھا جائے تو یہ سب الزامات، بیانات اور انکشافات روایتی معلوم ہوتے ہیں کیونکہ ایک عام سیاسی کارکن یا نمائندے کی سیاسی تربیت اور ایک مذہبی رہنما کی تربیت میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے لیکن مذکورہ بالا بیان کے بعد پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعتوں کی سیاست کو بھی ملک کے روایتی سیاسی کلچر سے الگ کرنا مشکل ہو چکا ہے۔
کبھی متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے مولانا فضل الرحمن، سراج الحق اور حافظ حسین احمد صاحب سابق حکمران جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی پر الزامات کی بوچھاڑ کیا کرتے تھے، لیکن آپ گزشتہ ایک ہفتے کی قومی سیاست کا جائزہ لیں، مولانا فضل الرحمن رائیونڈ میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت سے بغلگیر ہو رہے تھے جبکہ منصورہ میں بلاول بھٹو زرداری جماعت اسلامی کی قیادت کے مہمان تھے اور حافظ حسین احمد اپنے ہی سابق قائد پر بدعنوانی کے سنگین الزامات عائد کر رہے تھے۔ شاید یہی پاکستان کی موجودہ سیاست کی حقیقت ہے کہ کل کے حریف کسی بھی وقت آپ کے حلیف بن سکتے ہیں۔ ہم نے شیخ رشید احمد کو کئی بار یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ سیاست میں کچھ بھی حرفِ آخر نہیں ہوتا، کل کے حلیف اگلے الیکشن میں ایک دوسرے کے مخالف بھی ہو سکتے ہیں اور آج کے حریف کل ایک بھی ہو سکتے ہیں۔ موجودہ کابینہ کا تجزیہ کیا جائے تو شیخ صاحب کایہ بیان سو فیصد درست ثابت ہوتا ہے اور شاید یہی ملک وقوم کی بدقسمتی ہے کہ ہمارے سیاستدانوں‘ جنہیں ہم اپنا راہ نما مانتے ہیں‘ کا نصب العین صرف ایوانِ اقتدار تک رسائی ہے۔ سینیٹ کے حالیہ انتخابات میں جوکچھ ہوا، وہ پوری دنیا کے سامنے ہے، حقیقت یہی ہے کہ آج بھی وہی الزام تراشی اور سیاسی انتقام پر مبنی سیاست رائج ہے، پاکستان میں تبدیلی صرف چہروں کی حد تک آتی ہے بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ صرف حزب اقتدار اور حزبِ اختلاف کے بنچ تبدیل ہوتے ہیں، باقی سیاسی کلچر میں ہم آج بھی نوے کی دہائی سے آگے نہیں بڑھ سکے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں