اور تبدیلی کسے کہتے ہیں؟

تحریک انصاف نے تبدیلی کے نام پر قوم کے نوجوانوں کو متحرک کیا، ایک سو چھبیس دن تک دھرنا انتخابی اصلاحات کے لیے دیا، 2018ء میں بھرپور انتخابی مہم چلائی گئی، روایتی سیاست سے تنگ عوام نے تحریک انصاف کو ووٹ دیے اور یوں یہ پارٹی اقتدار میں آ گئی۔ مگر اقتدار ملنے سے پہلے تبدیلی کے جو بڑے بڑے دعوے کیے گئے تھے‘ چہروں کی تبدیلی، نظام کی تبدیلی اور جانے کیا کیا خواب دکھائے گئے تھے، سو دنوں میں کرپشن کا خاتمہ، ایک کروڑ نوکریاں، پچاس لاکھ گھر اور ملکی قرضوں سے نجات سمیت کیا کیا دعوے کیے گئے لیکن حقیقت میں ایسا کچھ بھی نہیں ہو سکا۔ اقتدار میں آنے کے بعد وزیراعظم صاحب نے صاف الفاظ میں کہہ دیا کہ اپوزیشن میں دعوے کرنا اور نعرے لگانا آسان ہوتا ہے، حکومت کا پہلے تجربہ نہیں تھا، اب پتا چلا کہ یہ کام بہت مشکل ہے۔ اب پونے تین سال بیت چکے ہیں اور عوام اب بھی تبدیلی کا انتظار کر رہے ہیں مگر ذرا مختلف زاویے سے دیکھا جائے تو جتنی تبدیلی گزشتہ دو‘ تین برسوں کے دوران آئی ہے‘ اتنی ملکی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں آ سکی۔
جتنے سیاست دانوں نے 2018ء میں وفاداریاں تبدیل کیں، ایسا پہلے پاکستانی تاریخ میں کسی الیکشن میں قبل نہیں ہوا تھا، یہ بہت بڑی تبدیلی تھی اور اس کے لیے چیئرمین تحریک انصاف نے اپنی بائیس سالہ سیاسی جدوجہد، نظریاتی کارکنان، پارٹی کے متعدد بانی اراکین اور اصولوں کو قربان تک کر دیا اس کے بعد ہی یہ تبدیلی ممکن ہو پائی اور آج تک تبدیلی کا یہ سفر جاری وساری ہے، کوئی ایسا دن نہیں جاتا جب ملک میں‘ کسی نہ کسی سطح پر‘ کسی قسم کی کوئی تبدیلی واقع نہ ہوئی ہو۔ اب اگر کوئی سیاسی نابالغ ان تبدیلیوں کو نہ سمجھ سکے تو اس میں حکومت کا نہیں بلکہ اس کا اپنا قصور ہے۔ ملک میں کوئی شعبہ ایسا نہیں جہاں تبدیلی واقع نہ ہوئی ہو۔ تعلیم، صحت، کھیل، ثقافت، سیاحت، تجارت، ملازمت اور سیاست سمیت سب کچھ بدل رہا ہے تو پھر کون کہہ سکتا ہے کہ تبدیلی نہیں آئی؟ بات تعلیم سے شروع کرتے ہیں، سابق ادوار میں جب بچوں کے امتحانات قریب آتے یا طویل تعطیلات ہوتیں تو چھٹیوں میں بھی اضافی نظام الاوقات ترتیب دے کر پڑھایا جاتا تاکہ بچے امتحانات کی تیاری بہتر انداز میں کر سکیں اور اگر کوئی کمی رہ گئی ہو تو وہ پوری کر سکیں لیکن اب تعلیمی پالیسی یکسر تبدیل کر دی گئی ہے اور کسی بھی سیاسی، سماجی، وبائی یا ثقافتی موقع پر سب سے پہلے تعلیمی ادارے بند کیے جاتے ہیں، صرف یہی نہیں‘ تبدیلی کی تحریک کوکامیاب بنانے والی نوجوان نسل کو ملک میں تبدیلی کے آثار سے روشناس کرانے کے لیے سکولوں وکالجوں کے ساتھ ساتھ کھیل کے میدان بھی بند کر دیے جاتے ہیں تاکہ عملی طور پر نوجوان اپنی مصروفیات کو بھی تبدیل کر سکیں‘ خواہ وہ منفی ہی کیوں نہ ہوں۔ صحت کے شعبے میں بھی بڑی تبدیلی لائی گئی، گزشتہ پورا سال سرکاری ہسپتالوں میں زیادہ تر او پی ڈیز بند رکھی گئیں‘ اس سے پرائیویٹ ہسپتالوں اور کلینکوں کا کاروبار خوب چمکا اور انہیں اپنے حالات تبدیل کرنے کا بھرپور موقع ملا۔
پولیس کا شعبہ دیکھ لیں، پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں دو برسوں کے دوران چھ پولیس سربراہان تبدیل کیے گئے۔ اگست 2018 ء میں حکومت کے قیام کے بعد ڈاکٹر کلیم امام کی تعیناتی اور پھر ان کی تبدیلی سے شروع ہونے والی یہ لہر محمد طاہر، امجد جاوید سلیمی، عارف نواز خان اور شعیب دستگیر سے ہوتی ہوئی انعام غنی تک آ پہنچی ہے۔ شنید ہے کہ ایک آئی جی کو ایک ایسے افسر کی وجہ سے تبدیل کیا گیا جس نے ایک اعلیٰ حکومتی شخصیت کے کسی عزیز کا کوئی کام کیا تھا۔ یہ تو پولیس جیسے اہم ترین شعبے کے سربراہ کامعاملہ ہے، بیورو کریسی کا معاملہ بھی اس سے کم نہیں۔ راولپنڈی شہر کی اگر بات کریں تو یہاں ضلعی انتظامیہ کے تقریباً اتنے ہی سربراہان تبدیل ہو چکے ہیں اور اب بھی حکومتی شخصیات اپنے اپنے احباب کی تقرری و تعیناتی کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ جہاں عوامی مشکلات یا مسائل کی بات ہو اور وہاں کوئی ایسا افسر بیٹھا ہو جو عام آدمی کے جائز کاموں میں نہ صرف رکاوٹ بنتا ہو بلکہ مزید مسائل پیدا کر رہا ہو تو اسے تبدیل کرنے کے بجائے یہ جواب سننے میں آتا ہے کہ کسی کی خواہش یا مرضی پر نظام نہیں چل سکتا لیکن جہاں حکومتی مفاد کا معاملہ ہو‘ وہاں آئے روز تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ آئی جی پولیس کی طرح سب سے بڑے صوبے کے اہم ترین عہدے چیف سیکرٹری کے ساتھ بھی کچھ کم نہیں ہوا۔ یہ عہدہ بھی چار بار تبدیلی کے عمل سے گزر چکا ہے۔
موجودہ حکومت کے 31 ماہ میں پانچ بار چیئرمین ایف بی آر کو تبدیل کیا گیا۔ اسی مدت کے دوران سیکرٹری خزانہ کی اہم پوزیشن پر بھی پانچ بار تبدیلیاں ہوئیں۔ وزارتِ صنعت و پیداور کے پانچ سیکرٹری بدلے گئے، اسی طرح نیشنل فوڈ سکیورٹی کی وزارت کے چار سیکرٹری تبدیل ہوئے، کورونا وائرس کے اس دور میں وزارتِ نیشنل ہیلتھ سروسز کے پانچ سیکرٹری بدلے گئے، یاد رہے کہ وزارتِ صحت کے وزیر عامر کیانی تھے جنہیں ہٹائے جانے کے بعد ڈاکٹر ظفر مرزا کو تعینات کیا گیا اور اب ڈاکٹر فیصل سلطان وزیراعظم کے معاونِ خصوصی کی حیثیت سے اس عہدے پر کام کر رہے ہیں جبکہ عملاً 2019ء کے بعد سے وزارتِ صحت کا قلم دان خود وزیراعظم صاحب کے پاس ہے۔
اگر وزارتِ داخلہ کی بات کی جائے تو یہاں بھی چار دفعہ قلمدان بدلا گیا ہے۔ پہلے وزارت داخلہ کا قلمدان خود وزیراعظم پاس تھا، پھر شہریار آفریدی کو وزیر مملکت برائے داخلہ بنایا گیا، پھر بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) اعجاز شاہ کو وزیر داخلہ بنا دیا گیا اور اب شیخ رشید احمد وفاقی وزیر داخلہ کے طور پر اپنے کام انجام دے رہے ہیں اور خیال کیا جا رہا ہے کہ آئندہ دنوں میں اس وزارت کا قلمدان ایک بار پھر تبدیل کر دیا جائے گا۔ وفاقی وزارت اطلاعات کا قلمدان بھی تین بار تبدیل کیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب سے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آئی ہے‘ اہم عہدوں پر تعینات افراد کو بار بار تبدیل کیا جا رہا ہے، کیا وزارتیں، کیا بیورو کریسی اور کیا اداروں کے سربراہان، ہر شعبے میں بھرپور طریقے سے تبدیلی کی لہر جاری ہے۔ 31 ماہ کے دوران 5 چیئرمین ایف بی آر، 6 آئی جی پنجاب،4 چیف سیکرٹری پنجاب، 4 وفاقی سیکرٹری داخلہ، 4 وزرائے داخلہ، 3 وزرائے اطلاعات اور 5 سیکرٹری خزانہ کی تبدیلی کو اگر کوئی تبدیلی نہیں مانتا تو پھر اسے اور کس طرح کی تبدیلی چاہیے؟
وفاقی وزارت خزانہ کی اگر بات کی جائے تو اس کا قلمدان بھی تین بار تبدیل ہو چکا ہے اور اب ایک بار پھر تبدیلی کی خبریں زیرگردش ہیں۔ سب سے پہلے اسد عمر وفاقی وزیر خزانہ بنے، مگر چند ماہ بعد ہی مہنگائی کا شور مچنے پر ان سے یہ عہدہ واپس لے کر حفیظ شیخ کو یہ اہم ذمہ داری سونپ دی گئی، انہیں سینیٹر بنوانے کی کوشش بھی کی گئی لیکن ناکامی پر مجبوراً انہیں اس عہدے سے ہٹانا پڑا اور اب حماد اظہر بطورِ وزیر خزانہ کام کر رہے ہیں مگر ابھی انہوں نے پوری طرح وزارت کے امور اپنے ہاتھ میں لیے بھی نہیں تھے کہ ایک بار پھر تبدیلی کی باتیں ہونے لگیں۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے ماہر معاشیات شوکت ترین کو یہ وزارت سنبھالنے کی پیشکش کی ہے۔ اور یہ بھی خبریں ہیں کہ شوکت ترین نے حکومتی کشتی کو معاشی دلدل سے نکالنے کیلئے اپنی خدمات پیش کرنے پر آمادگی ظاہرکر دی ہے لیکن اس سے پہلے وہ اپنے احتساب کیسز کو کلیئر کروانا چاہتے ہیں۔دیکھیں یہ تبدیلی کب تک واقع ہوتی ہے؟ علاوہ ازیں کابینہ میں بھی ایک بار پھر تبدیلی کی خبریں زیر گردش ہیں۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی کہے کہ ملک میں تبدیلی نہیں آئی تو اس کا کوئی جواب نہیں دیا جا سکتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں