بجٹ‘ حکومتی موقف اور زمینی حقائق

پاکستان تحریک انصاف نے 2018ء میں اقتدار سنبھالا تھا، اب اس حکومت کے تین سال مکمل ہونے کو ہیں۔ تیسرا (2018ء کے ضمنی بجٹ کے علاوہ) وفاقی بجٹ پیش کیا جا چکا ہے لیکن ملک میں مہنگائی کا جن قابو میں آنے کا نام نہیں لے رہا حالانکہ اس کیلئے وزیراعظم عمران خان تین وزرائے خزانہ تبدیل کر چکے ہیں اور اب شوکت ترین صاحب کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ موجودہ وزیر خزانہ کس حد تک کامیاب ثابت ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے موجودہ حکومت کے پیش کردہ تینوں بجٹوں کی اخباری شہ سرخیوں کا جائزہ لیتے ہیں‘ اس کے بعد موجودہ بجٹ کے حوالے سے حکومتی موقف کو سامنے رکھتے ہوئے عوامی قوتِ خرید کا موازنہ کرنے کی کوشش کریں گے۔پی ٹی آئی حکومت کا پہلا وفاقی بجٹ 2019؛ چینی، گھی، تیل، گوشت، سیمنٹ، مشروبات ،خشک دودھ، گھریلو برقی اشیاء، بیٹریاں، کھیلوں کا سامان، گارمنٹس اورگیس سمیت متعدد اشیاء مہنگی، تنخواہوں و پنشن میں 10 فیصد اضافہ، دفاعی بجٹ نہ بڑھانے کا فیصلہ، وزیراعظم آفس اور ایوانِ صدر کے بجٹ میں اضافہ کر دیا گیا۔
تحریک انصاف حکومت کا بجٹ 2020؛ کوئی نیا ٹیکس نہیں، 15سال میں پہلی بار تنخواہوں و پنشن میں اضافہ نہیں ہوا، بجلی صارفین کیلئے سبسڈی میں 101 ارب روپے کی کمی، نیب کے بجٹ میں 65 کروڑ روپے کا اضافہ کر دیا گیا۔
پی ٹی آئی کا بجٹ 2021؛ سینکڑوں اشیا پر سیلز ٹیکس کی رعایتی شرح ختم، کھل بنولہ، خام کپاس، مکھن، دودھ، دیسی گھی سمیت متعدد اشیا مہنگی، تنخواہوں و پنشن میں 10 فیصد اضافہ، بڑے افسران کی تنخواہوں میں 35 فیصد اضافے کی تجویز، چینی پر جی ایس ٹی 8 سے 17 فیصد تک بڑھانے کی تجویز، قیمت مزید بڑھے گی۔
پی ٹی آئی حکومت کے تین برس کے دوران آٹا‘ چینی جیسی بنیادی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں 60 فیصد سے زائد اضافہ ہو چکا ہے، ملکی کرنسی کی قدر میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے جبکہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں صرف 10 فیصد اضافہ ہوا اور اب مزید 10 فیصد اضافے کی تجویز ہے جو مہنگائی کے تناسب سے آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ موجودہ بجٹ کے حوالے سے وفاقی وزیر خزانہ کا کہناہے کہ موبائل فون کالز، ایس ایم ایس اور انٹرنیٹ پر کوئی ٹیکس عائد نہیں کیا جا رہا کیونکہ اس تجویز پر وزیراعظم اور کابینہ نے اتفاق نہیں کیا، اس لئے یہ واپس لے لی گئی۔ وزیر خزانہ نے معیشت کو تیز رفتار ترقی کی راہ پر ڈالنے کیلئے 7 نکاتی حکمت عملی کا اعلان کیا اور یقین دلایا کہ کوئی نیا منی بجٹ نہیں آئے گا۔ان کے بقول‘ آئی ایم ایف کاچھٹا جائزہ مکمل کرنے کیلئے کارپوریٹ سیکٹر میں اصلاحات، ٹیکسوں کی چھوٹ واپس لینے اور بجلی کے نرخوں میں 42 فیصد تک کا اضافہ درکار تھا لیکن ہم نے اسے موخر کر دیا ہے اور انہیں بتایا کہ اس کے مساوی دیگر انتظامی اقدامات سے ریونیو بڑھایا جائے گا اور بجلی کے نقصانات کم کیے جائیں گے۔ پٹرولیم لیوی کے ذریعے نئے مالی سال میں 610 ارب روپے جمع کرنے کا پلان یہ ہے کہ سعودی عرب سے موخر ادائیگیوں پر تیل کی فراہمی کا معاہدہ طے پا گیا ہے، اسی طرح جلد ایران پر عائد پابندیاں ختم ہو جائیں گی جس سے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں کم ہوں گی تو اس سے ہمیں جو گنجائش دستیاب ہو گی اس کا کچھ حصہ صارفین کو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کر کے منتقل کریں گے اور پٹرولیم لیوی کی شرح بڑھا دی جائے گی، یوں حکومت اور صارفین دونوں کو فائدہ پہنچے گا۔ یعنی جب عالمی منڈی میں قیمت نصف سے بھی کم رہ جائے گی تو یہاں پٹرولیم لیوی میں اضافہ کر دیا جائے گا‘ اس طرح عام آدمی یہ سمجھے گا کہ حکومت نے پٹرول مہنگا نہیں کیا اور اسے یہ سمجھ نہیں آئے گی کہ دراصل سرکار نے عالمی مارکیٹ کی قیمتوں کے مطابق تیل سستا نہیں کیا۔
تنخواہوں اور پنشن کے معاملے میں بھی حکومت کوئی ایسا فارمولا تلاش کر رہی ہے جس کے بعد سرکاری ملازمین کارکردگی کے مدار میں گھومتے رہیں گے۔ پیش کیے جانے والے بجٹ کے حوالے سے حکومت کا موقف ہے کہ یہ مثالی بجٹ ہے اور اس سے معیشت کو درست ٹریک پر لانے میں مدد ملے گی۔ حکومت کا کہنا ہے کہ بڑے سٹورز پر سیلز ٹیکس لگائیں گے، گاہک دکاندار سے پکی رسید وصول کرے، بجلی اور گیس کے بلوں کے ذریعے نان فائلر تک پہنچ جائیں گے۔ ڈیٹا کی بنیاد پر ٹیکس لیں گے، بڑے تاجروں کو پوائنٹ آف سیل پر ٹیکس نظام میں لائیں گے۔ ملک میں نوجوانوں کو بلا سود 5 لاکھ روپے تک قرض کا سب سے بڑا قومی پروگرام شروع کرنے جا رہے ہیں جس کے تحت انہیں 700 ارب روپے کے قرضے فراہم کیے جائیں گے۔ وزیراعظم اسی ماہ اس پروگرام کا اعلان کریں گے۔ یہاں سوال پھر وہی آ جاتا ہے کہ کیا رشوت اورسفارش کے بغیر میرٹ پر یہ قرض مل سکیں گے تا کہ واقعی بیروزگاری کم ہو اور قرضے واپس بھی ملیں۔اس کے علاوہ حکومتی پلان ہے کہ اجناس ملک میں پیدا کر کے اربوں ڈالر بچائیں گے، برآمدات بڑھا کر جی ڈی پی کا 20 فیصد تک کریں گے، قیمتیں کنٹرول کرنے کیلئے زرعی پیداوار میں اضافہ ناگزیر ہے، ملکی برآمدات کے فروغ کیلئے بجٹ میں تمام خام مال کی درآمدات پر مثالی مراعات دی گئی ہیں۔ سوشل سیکٹر کی ترقی کیلئے سماجی تحفظ کے پروگرام کو 1 کروڑ 60 لاکھ تک لے جایا جائے گا، پاور سیکٹر کو ترقی دی جائے گی، بجلی کی قیمت بڑھانے کے بجائے بلوں کی وصولی بہتر، نقصانات کم اور پیداوار ی لاگت کم کی جائے گی۔ ماضی کی حکومتوں کی طرح پی ٹی آئی حکومت کو بھی گردشی قرض کا مسئلہ ورثے میں ملا، آئندہ سالوں میں گروتھ میں اضافہ ہونے سے بجلی کی اضافی استطاعت کو بھی استعمال کریں گے‘ اس سے نہ صرف ریونیو حاصل ہو گا بلکہ گردشی قرض کا مسئلہ بھی مستقل طور پر حل ہو جائے گا۔ بجٹ میں ملکی صنعتوں کو 42 ارب روپے کے ٹیکسوں اور ڈیوٹیوں کی چھوٹ دی گئی ہے۔ ملک کی صنعتیں جب پوری صلاحیت سے چلیں گی تو روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے، سپیشل اکنامک زونز کو ٹرن اوور ٹیکس سے مستثنیٰ کر دیا گیا ہے۔ سی پیک منصوبے کے تحت پورے ملک میں خصوصی اقتصادی زونز قائم کیے جا رہے ہیں، پہلے مرحلے میں رشکئی (جو مکمل ہو چکا ہے)، فیصل آباد، دھابیجی اور بوستان زون پر ترجیحی بنیادوں پر کام شروع کیا گیا۔
حکومت کی جانب سے بجٹ کے اعداد وشمار کا دفاع اپنی جگہ لیکن غریب آدمی کا اصل مسئلہ تو سستی دال روٹی ہے، بچوں کی مناسب تعلیم اور صحت کی مفت سہولتیں ہیں۔ حکومتی اعداد و شمار کا حقیقت پسندانہ اور غیر جانبدارانہ جائزہ لیا جائے تو اس میں عام طبقے کے لیے کشش کم ہی نظر آتی ہے۔ حکومت نے چھوٹی گاڑیاں سستی کرنے پر خوب داد سمیٹی لیکن حقیقت یہ ہے کہ گاڑی چھوٹی ہو یا بڑی‘ اب امیر آدمی ہی کی پہنچ میں رہ گئی ہے۔ چھوٹی گاڑیاں سستی ہونے سے بھی امیر کے بچوں کو ہی فائدہ ہو گا، غریب کی سواری تو میٹرو بس اور پبلک ٹرانسپورٹ ہی ہے اور میٹرو بس سروس کی ٹکٹوں پر دی جانے والی سبسڈی حکومت نے پچاس فیصد تک کم کرنے کا فیصلہ کیا ہے‘ اس سے کرایہ بڑھ جائے گا اور سارا بوجھ غریب پر آئے گا۔ اسی طرح پیٹرولیم مصنوعات پر لیوی کی شرح بڑھانے کا پلان بن چکا ہے‘ اس کا بوجھ بھی غریب پر پڑے گا۔ جب تک ٹیکس نیٹ میں اضافے اور شفافیت کیلئے کوئی ٹھوس اور کارآمد پالیسی تیار نہیں کی جاتی‘ یوٹیلیٹی بلوں اور تنخواہوں کے ذریعے ٹیکسوں کی کٹوتی سے عام آدمی پر بوجھ برقرار رہے گا اور قومی خزانہ بھی نہیں بھر سکے گا۔ حکومت کو تین سالوں میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کم از کم 45 فیصد اضافہ کرنا چاہئے تھا‘ پہلے سال کا ملبہ تو سابق حکومتوں پر ڈال جا سکتا ہے مگر اب تیسرے برس تو ایسا بھی نہیں ہو سکتا۔ اس بار تنخواہوں اور پنشن میں کم ازکم 30 فیصد اضافہ ہوگا تو ہی عام آدمی کو کچھ ریلیف ملے گا۔ اسی طرح نجی شعبے نے ملازمتوں کا زیادہ بوجھ اٹھا رکھاہے لہٰذا حکومت کو چاہئے کہ نجی شعبے کو بھی زیادہ سے زیادہ مراعات اور ٹیکسوں میں رعایت دے تا کہ پرائیویٹ سیکٹر بھی اپنے کارکنوں کی تنخواہوں میں اضافے کے قابل ہو سکے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں