کورونا وائرس کے تیز ترین پھیلائو میں اب کوئی شبہ نہیں رہا۔ عالمی وبا کی پانچویں لہر نہایت تیزی سے پھیل رہی ہے اور سرد موسم کے ساتھ ساتھ اس کی شدت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ کووڈ 19 کی وجہ سے ہونے والی اموات کی شرح میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جبکہ کورونا متاثرین کے حوالے سے مرتب کی گئی فہرست میں پاکستان 43ویں نمبر پر پہنچ چکا ہے۔ یہاں کورونا کیسز کی مثبت شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور یہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 12 اعشاریہ 81 فیصد ریکارڈ کی گئی۔ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر (این سی او سی) کے اعداد و شمار کے مطابق‘ پاکستان میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کورونا وائرس کے مزید 6 ہزار 357 کیسز سامنے آئے ہیں۔ مزید 17 مریض اس موذی وبا کے سبب زندگی کی بازی ہار گئے جبکہ 556 مریض شفایاب ہوئے۔ پاکستان بھر میں اب تک کورونا وائرس کے 29 ہزار 122 مریض انتقال کر چکے ہیں جبکہ اس موذی وائرس کے کل مریضوں کی تعداد 13 لاکھ 81 ہزار 152 ہو چکی ہے‘ لہٰذا سب کو احتیاط کرنے کی ضرورت ہے۔
دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ ہماری معیشت نہ تو مکمل لاک ڈائون کی متحمل ہوسکتی ہے اور نہ ہی ہم ہمیشہ کیلئے اپنے تعلیمی ادارے بند رکھ سکتے ہیں۔ کورونا وائرس کی پچھلی لہروں کے دوران طویل عرصہ تک تعلیمی ادارے بند کرکے ہم نے پہلے ہی مستقبل کے معماروں کے دو قیمتی سال ضائع کر دیے ہیں اور یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ آ گئی ہے کہ آن لائن کلاسز بچوں کو مصروف رکھنے اورکسی حد تک تعلیم دینے کا ایک ذریعہ تو ہو سکتی ہیں لیکن یہ سکول، کالج یا یونیورسٹی کے تدریسی عمل کا متبادل ہر گز نہیں ہو سکتیں۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ اس جدید سائنسی دور میں بھی ہمارے 70 فیصد سے زائد طلبہ و طالبات انٹرنیٹ، موبائل فون، لیپ ٹاپ یا کمپیوٹر کی سہولت سے محروم ہیں لہٰذا آن لائن کلاسز جتنی بھی مؤثر ہو جائیں‘ ان سے زیادہ سے زیادہ تیس فیصد سٹوڈنٹس ہی مستفید ہو سکتے ہیں۔ پاکستان میں سب سے بڑے نجی تعلیمی نیٹ ورک پنجاب گروپ آف کالجز کے پاس ہی ایسا سافٹ ویئر اور نیٹ ورک ہے جس سے اس گروپ کے تمام طلبہ و طالبات تک آن لائن ایجوکیشن کی سہولت دستیاب ہے جس پر چیک اینڈ بیلنس کا ایک موثر نظام بھی کام کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پنجاب گروپ کے اساتذہ طے شدہ ٹائم ٹیبل کے مطابق سو فیصد کلاسز لیتے ہیں‘ وگرنہ ملک کی دیگر بڑی جامعات اور مختلف تعلیمی اداروں کا المیہ ہے کہ کبھی ٹیچر کا نیٹ ورک خراب ہوتا ہے اور کبھی سٹوڈنٹس کا رابطہ نہیں ہو پاتا۔ ہمارے ہاں آن لائن امتحانات کا تجربہ بھی کچھ اچھا نہیں رہا اورطلبہ کو کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑا، کبھی موبائل نیٹ ورک کا مسئلہ ہوتا ہے تو کبھی انٹرنیٹ کا رابطہ منقطع ہو جاتا ہے۔ اگر نیٹ سسٹم بالکل صحیح بھی چل رہا ہو تو بعض اوقات بجلی کی بندش سے سٹوڈنٹس کی ساری محنت پر پانی پڑ جاتا ہے۔ آن لائن کلاسز میں ذہین بچے تو دلچسپی اور توجہ سے اپنا کام کر لیتے ہیں لیکن پڑھائی میں متوسط اور کمزور بچے اس طریقے سے مستفید نہیں ہو پاتے ۔ ویسے بھی اب ٹیچرز اور طلبہ کی اکثریت کورونا سے بچائو کی ویکسین لگوا چکی ہے لہٰذا ہمیں ویکسی نیشن کا ہدف سو فیصد کر کے‘ ایس او پیز پر عمل کرتے ہوئے تعلیمی نظام کو جاری رکھنا ہے۔
یہاں سب سے اہم بات یہ ہے کہ تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ کووڈ 19 کے دوران ہمیں قوم کے نوجوانوں کو منفی سرگرمیوں سے بھی بچانا ہے کیونکہ کورونا کے باعث جب تعلیمی ادارے بند تھے اور کھیلوں کی سرگرمیوں پر بھی پابندیاں عائد کر دی گئی تھیں تو نوجوان نسل کا منفی سرگرمیوں کی طرف رجحان بڑھا تھا‘ سٹریٹ کرائمز میں بھی اضافہ ہوا تھا جبکہ لڑائی جھگڑے کے واقعات کی شرح بھی بلند ہوئی تھی۔ اسی طرح تشدد اور زیادتی کے کیسز میں کئی گنا اضافہ ریکارڈ ہوا۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ نوجوانوں نے مثبت سرگرمیاں چھوڑ کر ٹک ٹاک، موٹر سائیکل کی ون ویلنگ، آوارہ گردی اور دیگر غیر ضروری کاموں کی جانب توجہ بڑھا لی۔ اگر اس وقت کھیل کے میدان آباد رکھنے کیلئے مؤثر ایس او پیز تیار کیے جاتے اور ان پر سختی سے عمل درآمد کرا کے کھیلوں کا سلسلہ جاری رکھا جاتا تو نئی نسل کو منفی سرگرمیوں سے محفوظ رکھا جا سکتا تھا۔ دوسری طرف جب لاک ڈائون ختم ہوا اور ایس اوپیز کے تحت ملک بھر میں کھیلوں کی اجازت دے دی گئی تو بہت سارے منفی مشغلے خودبخود ختم ہو گئے۔ ملک میں ٹک ٹاک کا جنون محدود ہو گیا، لڑائی جھگڑے کی شکایات بھی کم ہو گئیں اور نوجوانوں کے جرائم کی شرح میں بھی کمی دیکھنے میں آئی۔
اس وقت ملک میں کورونا کی پانچویں لہر جاری ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے اربابِ اختیار ابھی تک کوئی ٹھوس پالیسی مرتب نہیں کر سکے۔ ایک طرف کہا جاتا ہے کہ معیشت کمزور ہے لہٰذا بازار اور کاروبار بند نہیں کر سکتے اور دوسری جانب بغیر سوچے سمجھے کبھی تعلیمی ادارے بند کر دیے جاتے ہیں تو کبھی کھیلوں پر پابندیاں عائد کر دی جاتی ہیں۔ اسے غیر سنجیدگی نہ کہیں تو کیا کہیں کہ گزشتہ دنوں این سی اوسی نے نئی ہدایات جاری کیں‘ جن کے مطابق ملک میں ڈائریکٹ کنٹیکٹ گیمز پر پابندی لگا دی گئی حالانکہ انہی دنوں لاہور میں پنجاب گیمز کی تیاریاں مکمل تھیں، صوبے بھر میں تیس ہزار مرد و خواتین کھلاڑیوں نے ٹرائلز میں حصہ لیا، ان گیمز میں پچیس کھیلوں کے مقابلے منعقد ہونا تھے جن میں زیادہ تر نان کنٹیکٹ گیمز شامل تھیں لیکن ٹرائلز میں لاکھوں روپے خرچ ہونے اور تیاریاں مکمل ہونے کے باوجود ان گیمز کو بھی غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا گیا جو نوجوان کھلاڑیوں کے ساتھ زیادتی اور متعلقہ حکام کی نااہلی ہے۔ دوسری جانب گزشتہ ہفتے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پابندی کے باوجود ڈائریکٹ کنٹیکٹ گیم یعنی باکسنگ کے بھرپور مقابلے منعقد ہوئے۔ ہال میں تماشائیوں کی بھی بڑی تعداد موجود تھی جبکہ کورونا ایس اوپیز کا بھی خیال نہیں رکھا گیا۔ یوں کہیے کہ لاہور میں غریبوں کے بچے نان کنٹیکٹ گیمز سے بھی محروم کر دیے گئے اور اسلام آباد میں ساری پابندیوں کو روند دیا گیا۔ ان مثالوں سے واضح ہے کہ حکام جوکام کرنا چاہیں‘ اس کے لیے راستہ بھی نکال لیتے ہیں۔ جب کچھ کیے بغیر ہی تنخواہ و مراعات مل رہی ہوں تو پھر کچھ کرنے کی انہیں ضرورت ہی کیا ہے۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق اومیکرون کی ذیلی قسم بھی سامنے آ گئی ہے جسے بی اے 2 کا نام دیا گیا ہے۔ برطانیہ میں طبی حکام نے اومیکرون کی ذیلی قسم کے سینکڑوں کیسز کو شناخت کیا ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار سے عندیہ ملا ہے کہ یہ قسم تیزی سے پھیل سکتی ہے۔ اومیکرون کی اس ذیلی قسم پر ابھی تحقیق کی جا رہی ہے۔ فرانس کے وبائی امراض کے ماہر انٹونی فلاہوٹ کا کہنا ہے کہ ہمیں جس بات نے حیران کیا‘ وہ یہ ہے کہ اومیکرون کی یہ ذیلی قسم نہایت برق رفتاری سے ایشیا میں پھیلنے کے بعد ڈنمارک تک پہنچ گئی ہے۔ ماہرین کے مطابق بی اے 2 باعثِ تشویش قسم نہیں ہے لیکن پھر بھی ہمیں الرٹ رہنا ہو گا کیونکہ اس سے مریضوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہو سکتا ہے جس کا سارا بوجھ طبی نظام پر پڑے گا، لہٰذا جن افراد بالخصوص طلبہ و طالبات کی ویکسی نیشن ابھی رہتی ہے‘ وہ جلد ازجلد اسے مکمل کر لیں۔ نیز فیس ماسک اور سماجی فاصلے سمیت دیگر تمام ایس او پیز پر مکمل عملدرآمد بھی یقینی بنانا ہوگا تاکہ تعلیمی سلسلے کو جاری رکھاجا سکے۔ اس کے ساتھ حکومت کو چاہئے کہ پنجاب گیمز میں نان کنٹیکٹ اور لو کنٹیکٹ کھیلوں کے مقابلے مرحلہ وار منعقد کرائے جائیں تاکہ نوجوان کھلاڑی مایوسی سے بچ سکیں اور کھیلوں کے شعبے میں نیا ٹیلنٹ سامنے آ سکے۔