دو روز قبل راولپنڈی؍ اسلام آباد کے سپورٹس جرنلسٹوں کے ایک وفد کے ہمراہ وفاقی وزیر بین الصوبائی روابط و کھیل ڈاکٹر فہمیدہ مرزا سے تفصیلی ملاقات ہوئی۔ اس طویل سیشن میں پاکستان میں کھیلوں کے فروغ سے متعلق بات چیت بڑے مثبت اور خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ اس نشست میں پاکستان میں کھیلوں کے عروج و زوال، عالمی اداروں کی ڈیمانڈز اور قواعد و ضوابط، پاکستان اولمپکس ایسوسی ایشن، قومی فیڈریشنوں کی کارکردگی، وفاقی اور صوبائی سپورٹس بورڈز کی ذمہ داریوں، 18ویں ترمیم کے بعد وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے عمل دخل سے لے کر کھیلوں کی تباہی کے اسباب اور بحالی کی سفارشات سمیت ہر پہلو پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ وفاقی وزیر صاحبہ کی باتوں سے محسوس ہوا کہ وہ ملک میں سپورٹس کی بحالی کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتی ہیں لیکن ان کے ہاتھ کئی اطراف سے بندھے ہوئے ہیں۔ کوئی نیا منصوبہ بناتی ہیں تو وفاق کہتا ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد کھیل اب صوبائی معاملہ ہیں، اگر صوبوں سے رابطہ کیا جائے تو وہ کہتے ہیں کہ ان کی ذمہ داری صرف صوبے کے اندر اور صوبائی ٹیموں تک محدود ہے، فیڈریشنوں اور نیشنل اولمپکس کمیٹی (این او سی) سے بات کی جائے تو وہ بھی مداخلت کا رونا رونے لگتے ہیں، غرض اب وزارت بین الصوبائی رابطہ کرے بھی تو کیا کرے۔ آخرکار یہ طے پایا کہ وزارت اور پاکستان سپورٹس بورڈ کے حکام سپورٹس جرنلسٹوں کو مشاورتی عمل میں ساتھ لے کر چلیں گے اور فریقین مل کر پاکستان میں کھیلوں کے فروغ کیلئے اپنا کردار ادا کریں گے۔
گھنٹوں جاری رہنے والی اس ملاقات میں ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کی باتوں نے کافی متاثر کیا لیکن ایک بات نے چونکا کر رکھ دیا۔ ڈاکٹر صاحبہ شاید روانی میں کہہ گئیں کہ ''ضروری نہیں کہ ایک اچھا کھلاڑی اچھا ایڈمنسٹریٹر بھی ثابت ہو‘‘۔ ڈاکٹر صاحبہ کی اس بات کو ہرگز کسی اعلیٰ شخصیت کی جانب اشارہ نہیں سمجھا جانا چاہیے۔ ان کی مراد یہ تھی کہ کھیلوں کی مختلف قومی فیڈریشنز ہیں جنہیں سابق و موجودہ کھلاڑی چلا رہے ہیں اور چلاتے رہے ہیں۔ ان میں کئی ایسے تھے جو اپنے زمانے میں تو بہت اچھے کھلاڑی رہے لیکن اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد جب وہ فیڈریشن کے عہدیدار بنے تو ملک کو اپنے جیسا کوئی بلند پایہ کھلاڑی نہ دے سکے۔
کھیلوں کا شوقین ہونے کے ناتے میں (وزیراعظم) عمران خان کا بہت بڑا مداح تھا۔ بطور کھلاڑی اور بطور کپتان انہوں نے بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کیں۔ وہ صحیح معنوں میں ہمارے قومی ہیرو ہیں۔ ان کی صلاحیتوں پر کسی کو شک نہیں تھا۔ 1992ء میں کرکٹ ورلڈکپ جیتا تو پاکستانی قوم نے ان کا بھرپور استقبال کیا۔ بالکل اسی طرح جیسے پاک و ہند کے عوام کا مزاج ہے‘ یعنی ٹیم کوئی بڑا معرکہ جیت جائے‘ کوئی سیریز جیت جائے تو قوم پھولوں اور پیسوں کی برسات کر دیتی ہے اور اگر خدانخواستہ ہار جائے تو پھر انڈوں‘ ٹماٹروں کے ساتھ سواگت کیا جاتا ہے۔ کرکٹ کا ورلڈ چیمپئن بن کر عمران خان نے اپنی شہرت کو درست جگہ استعمال کیا اور قومی ٹیم کے استقبال کو شوکت خانم کینسر ہسپتال کی فنڈ ریزنگ تقریب میں بدل دیا۔ پاکستانی قوم نے اس کارِ خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ لوگوں نے سونا اور نوٹوں سے بھرے ہوئے صندوق کپتان کے حوالے کیے۔ اس مہم کی تاریخی کامیابی نے ہی ان کا ذہن بدلا اور انہوں نے میدانِ سیاست کا رخ کیا۔ اپنی بے پناہ مقبولیت کے سبب ان کا خیال تھا کہ جیسے ہی وہ سیاست میں قدم رکھیں گے‘ ان کے مخالفین کی ضمانتیں ضبط ہو جائیں گی۔ شاید انہیں کھیل اور سیاست کا فرق نہیں معلوم تھا۔ کوئی شک نہیں کہ اس وقت بھی عمران خان کی سوچ اور نظریہ بہت اچھا تھا لیکن کرکٹ اور پاکستانی سیاست کا فرق سمجھتے سمجھتے دو دہائیاں بیت گئیں۔ بالآخر وہ یہ بات سمجھنے میں کامیاب ہو گئے کہ اصولوں اور نظریات کے ساتھ چمٹے رہ کر وہ کبھی مروجہ سیاست میں کامیاب نہیں ہو سکتے اور اگر انہیں الیکشن جیتنا ہے تو اصول و ضوابط کو ایک سائیڈ پر رکھ کر‘ ہر دور میں کامیاب ہونے والے روایتی سیاستدانوں کا سہارا لینا پڑے گا۔ جب 2018ء کے الیکشنز میں انہوں نے الیکٹ ایبلز کو ساتھ ملانے کا فارمولا اپنایا تو کامیاب ہو گئے اور بالآخر وزیراعظم بھی منتخب ہو گئے۔
یہاں سے ان کی زندگی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے۔ اقتدار سنبھالا تو انہیں ایک نئے تجربے سے گزرنا پڑا۔ اب معلوم ہوا کہ اپوزیشن کی سیاست اور حکومت کرنے میں بھی اتنا ہی فرق ہے جتنا کھیل اور سیاست میں تھا۔ انتخابی مہم کے دوران ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف نے عوام سے جو وعدے کیے تھے اور جو سبز باغ دکھائے تھے‘ انہیں پورا کرنا اتنا آسان نہ تھا ۔ ڈھول دور سے ہی سہانے لگتے ہیں، اپنے گلے میں ڈال کر بجانا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ یہی کچھ وزیراعظم صاحب کے ساتھ بھی ہوا۔ انہیں اپنی ہی کہی ہوئی باتوں پر بار بار 'یو ٹرن‘ لینا پڑا، یعنی قول و فعل کا تضاد بڑھتا گیا۔ نہ سو دنوں کی بات پوری ہو سکی اور نہ چھ ماہ والا وعدہ وفا ہوا۔ ایک سال والا خواب بھی ادھورا ہی رہا۔ ایک کروڑ نوکریوں‘ پچاس لاکھ گھروں‘ کرپشن کو ختم کردینے سمیت کوئی بھی دعویٰ پورا نہیں کیا جا سکا۔ اب تو پی ٹی آئی حکومت نے یہ روش اپنا رکھی ہے کہ ہر مسئلے اور ناکامی کو ماضی کی حکومتوں اور اپوزیشن جماعتوں کے متھے مار دیا جاتا ہے۔ ساڑھے تین برس بعد بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ اب تو حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ قوم کو مزید کوئی مثبت توقع بھی نہیں رہی۔
اس وقت پی ٹی آئی حکومت کو اقتدار میں آئے ساڑھے تین برس سے زائد عرصہ ہو چکا ہے، مہنگائی اور بیروزگاری کے سونامی تو تھمنے کا نام نہیں لے رہے‘ تشویشناک بات یہ ہے کہ ایک کھلاڑی وزیراعظم کے دور میں پاکستان کھیلوں کے عالمی میدانوں میں بھی پیچھے کی طرف گامزن ہے۔ کچھ عرصہ قبل ملک میں 'کامیاب جوان پروگرام‘ کے تحت کھیلوں کے میدان آباد کرنے کے کام کا آغاز ہوا تھا۔ پہلے تو بڑی خوشی ہوئی کہ چلو کسی کو تو کھیلوں کا خیال آیا‘ اس سے ملک کی نوجوان نسل کو کامیابی کی شاہراہ پر چلانے کاایک پلیٹ فارم میسر آئے گا لیکن اس وقت یہ خوشی محدود ہو گئی جب یہ پتا چلاکہ کامیاب جوان پروگرام میں کھیلوں کا باب صرف ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) اور انٹر یونیورسٹیز مقابلہ جات تک ہی محدود ہے۔ اربوں روپے کے فنڈز ہونے کے باوجود اس پروگرام سے ملک کے عام جوانوں کا مستفید ہونا آسان نہیں ہے۔ یہ ایک اچھا پروگرام ہے‘ حکومت کو چاہئے کہ اسے صرف ایچ ای سی اور یونیورسٹیوں تک ہی اس کو محدود نہ رکھے بلکہ اس کا دائرہ وسیع کیا جائے تاکہ نیا ٹیلنٹ سامنے آ سکے اور نوجوان نسل حقیقی معنوں میں اس منصوبے سے استفادہ کر سکے۔
اب حکومت کے اقتدار کا چوتھا سال ہے‘ جو نصف سے زائد گزر چکا ہے۔ بقول شیخ رشید صاحب‘ آخری سال تو ویسے ہی الیکشن کا سال ہوتا ہے۔ اب سب کی نظریں اگلے الیکشنز پر جمی ہیں جن میں بہت کم وقت رہ گیا ہے‘ لہٰذا حکومت کو چاہئے کہ دعووں اور وعدوں کے بجائے عملی سطح پر توجہ دے اور کم از کم کسی ایک شعبے کو ہی ٹھیک کر دے تاکہ عوام‘ جو اس وقت واقعی گھبرا چکے ہیں‘ کو تسلی ہو اور یہ یقین ہو کہ ہم نے تبدیلی کے نام پر جو ووٹ دیے تھے‘ وہ رائیگاں نہیں گئے اور بہتری کے کچھ آثار ہویدا ہوئے ہیں۔ موجودہ دورِ اقتدار کا جائزہ لیتے ہوئے اور عالمی حالات دیکھتے ہوئے مہنگائی اور بیروزگاری کا خاتمہ تو مشکل بلکہ ناممکن نظر آتا ہے‘ البتہ کھیلوں کے شعبے پر تو توجہ دی ہی جا سکتی ہے۔ اگر ایک سابق عالمی چیمپئن اور قومی ہیرو کے دور میں بھی ملک میں کھیلوں کی بحالی کی بنیاد درست نہیں ہو سکی تو پھر یہ کام کب ہو گا؟ اگر خدا نخواستہ یہ کام بھی نہ ہو سکا تو حکومتی ارکان مستقبل میں واقعتاً یہ بات کہتے نظر آئیں گے کہ ہمیں کیا پتا تھا کہ ایک اچھے کھلاڑی کا اچھا ایڈمنسٹریٹر ہونا ضروری نہیں۔