ہم بڑے فخر سے بتاتے ہیں کہ ہم ایک ایسے ملک کے شہری ہیں جو آزاد ہے اور جس کا قیام کلمہ طیبہ کی بنیاد پر عمل میں آیا‘ جہاں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ یہاں بسنے والے دیگر تمام مذاہب کے افراد کو اپنے عقیدے‘ ثقافت‘ رسم و رواج اور عبادات سمیت ہر قسم کی آزادی میسر ہے۔ ہم اس آزاد ریاست پر اللہ پاک کا جتنا شکر ادا کریں‘ کم ہے لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے سیاست دانوں کو ملک میں صحیح اسلامی جمہوریت پروان چڑھانے، اس ملک کو ترقی یافتہ ملک بنانے اور یہاں سے غربت، مہنگائی اور بیروزگاری کا خاتمہ کر کے عوام کو خوش حال بنانے سے زیادہ اقتدار کی مسند تک پہنچنے کی خواہش ہوتی ہے۔ وہ اس منزل کو پانے کے لیے ہر جائز و ناجائز حربہ استعمال کرتے ہیں۔ جھوٹ بولتے ہیں، عوام کو دھوکا دیتے ہیں، بلند بانگ دعوے کرتے ہیں، سبز باغ دکھاتے ہیں، اپنے حلقے کو لندن اور پیرس سے زیادہ خوبصورت و ترقی یافتہ بنانے کے دعوے کرتے ہیں، الیکشن کے دنوں میں حلقے کے غریب ووٹروں سے بھی رشتہ داری اور تعلق جوڑ لیتے ہیں، میلے کچیلے لباس میں ملبوس افراد کو گلے لگا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وہ بھی انہی میں سے ہیں اور ان کی نمائندگی و آواز بننے کے لیے سیاست کے میدان میں اترے ہیں۔ شہروں میں پینے کے صاف پانی، جدید سیوریج سسٹم، اعلیٰ تعلیم اور جدید صحت کی سہولتوں جبکہ دیہی علاقوں میں بجلی، گیس ہر گھر تک پہنچانے اور سڑک، سکول، کالج، ہسپتال بنانے اور دیگر بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ہر بیروزگار کو اچھی نوکری دینے کے پُرکشش اعلانات کیے جاتے ہیں۔
انتخابات کا مرحلہ مکمل ہو جائے تو پھر ہارنے والا تو یہ کہہ کر عوام سے تعلق توڑ لیتا ہے کہ وہ تو الیکشن ہار گیا ہے‘ لہٰذا اس کے اختیار میں کچھ نہیں‘ اب اگلے پانچ سال تک اہالیانِ علاقہ کی خدمت سے وہ قاصر ہے؛ تاہم جو امیدوار انتخابی معرکہ جیت جاتا ہے‘ اس کے قدم ہی زمین پر نہیں پڑتے۔ وہ ہوائوں میں اڑنے لگتا ہے۔ وہی ڈیرہ جہاں حلقے کے غریبوں کو ٹیلی فون کرکر کے بلایا جاتا اور ان کی خاطر تواضع کی جاتی تھی‘ سکیورٹی کے نام پر اسی ڈیرے کے راستے غریبوں کے لیے بند کر دیے جاتے ہیں۔ کوئی پینے کے صاف پانی کا مطالبہ کرے تو اسے بتایا جاتا ہے کہ ماضی میں تو ان کے اجداد جوہڑوں اور تالابوں سے پانی بھرتے رہے اور ان کی صحت فلٹر والا پانی پینے والوں سے زیادہ اچھی ہوتی تھی، کوئی بجلی اور گیس کی بات کرے تو اسے بھی ماضی کی مثالیں پیش کی جاتی ہیں، کوئی سڑک کی بات کرے تو اسے سمجھایا جاتا ہے کہ سڑک یا پل ترقی کی علامت نہیں بلکہ اصل چیز تعلیم و صحت کی سہولتیں ہیں۔ اگر کوئی غریب علاقے کے سرکاری سکول میں اساتذہ یا تعلیمی سہولتوں کی عدم دستیابی کی شکایت کرے تو اسے فنڈز کی کمی کا بہانہ سنا کر بچوں کو نجی اداروں میں تعلیم حاصل کرانے کا مشورہ دیا جاتا ہے لیکن یہ نہیں بتایاجاتا کہ اٹھارہ‘ بیس ہزار روپے ماہوار آمدنی والا شخص اپنے بچوں کی ہزاروں روپے کی فیسیں کیسے ادا کرے؟ کوئی پریشان حال شہری اپنی یا اپنے بیروزگار بچوں کی نوکری کی درخواست لے کر جائے تو یہ کہہ کر اس کا منہ بند کرا دیا جاتا ہے کہ خزانہ خالی ہے‘ تنخواہیں دینے کے لیے پیسے نہیں ہیں‘ حکومت پہلے ہی لوگوں کو نوکریوں سے نکال رہی ہے ایسے میں نئی بھرتیاں کیسے کی جا سکتی ہیں؟
اسے بدقسمتی ہی کہیے کہ اس آزاد مملکت کی سیاست زیادہ تر جھوٹ، فریب، رشوت، سفارش، منافقت اور دھوکا دہی پر مدار کرتی ہے۔ الیکشن سے پہلے جو انتخابی منشور دیا جاتا ہے‘ جو وعدے اور دعوے کیے جاتے ہیں اور عوام کو جو سبز باغ دکھائے جاتے ہیں‘ اقتدار میں آنے کے بعد وہ سب بھلا کر اور پس پشت ڈال کر ہمارے نمائندوں کی اکثریت اپنے جائز و ناجائز مفادات اور خواہشات کی تکمیل میں مگن ہو جاتی ہے۔ سب کی کوشش ہوتی ہے کہ سب سے پہلے اپنے بچوں کو بیرونِ ملک سیٹ کرایا جائے یا کسی مستحق کے حق پر ڈاکا ڈال کر کسی پُرکشش اسامی پر انہیں ایڈجسٹ کرا دیا جائے۔ پھر اپنی گاڑیوں کو اَپ گریڈ کیا جاتا بلکہ انہیں بم پروف بنایا جاتا ہے۔ جائیدادوں میں اضافے کے لیے غریبوں کی زمینیں اونے پونے داموں خریدنے کے ساتھ‘ جہاں دائو لگے‘ قبضہ کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ بسا اوقات ان مقاصد کے لیے سیاسی اثر و رسوخ اور سرکاری مشینری کو بھی بھرپور استعمال کیا جاتا ہے۔ ہزاروں روپے تنخواہ لینے والے ملازمین کو سخت معاشی حالات کا بتا کر ان کی تنخواہوں میں اضافے سے انکار کر دیا جاتا ہے لیکن اپنی لاکھوں روپے تنخواہوں اور مراعات میں کئی گنا تک اضافہ ناگزیر قرار دیا جاتا ہے۔ غریب عوام کو کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی بھوک پیاس کو ہمت و حوصلے سے برداشت کریں‘ گھبرائیں نہیں جبکہ حکومتی شاہ خرچیوں کا سلسلہ برقرار رہتا ہے۔ اگر عوام سخت معاشی حالات یا کسی سرکاری پالیسی پر انگلی اٹھائیں تو ساری ذمہ داری ماضی کے حکمرانوں پر ڈال کر انہیں چور‘ لٹیرا قرار دے کر برا بھلا کہا جاتا ہے۔
ہمارے عوام بھوک اور افلاس تو برداشت کر سکتے ہیں بلکہ سات دہائیوں سے کر ہی رہے ہیں لیکن آج کل ملکی سیاست میں عدم برداشت کی جو روایت زور پکڑتی جا رہی ہے‘ وہ پورے معاشرے کے لیے زیادہ خطرناک اور نقصان دہ ثابت ہو رہی ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ ہمارے سیاست دان قوم کو تو مہنگائی، بیروزگاری، توانائی بحران اور دیگر مسائل کو ملکی مفاد میں برداشت کرنے اور نہ گھبرانے کا درس دیتے ہیں لیکن خود معمولی سی تنقید بھی برداشت نہیں کرتے۔ حزبِ اقتدار کے رہنما ہوں یا حزبِ اختلاف کے‘ سبھی سیاسی میدان میں ایک دوسرے کا مقابلہ کرنے کے بجائے مخالفین کی ذات پر کیچڑ اچھال کر حتیٰ کہ ایک دوسرے کے خاندان کو ہدفِ تنقید بنا کر خوش ہوتے ہیں۔ اب جو صورتِ حال دیکھی جا رہی ہے‘ ایسی نوے کی دہائی سے پہلے تک نہ تھی۔ نوے کی دہائی میں‘ جب ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے مابین سیاسی انتقام کی جنگ شروع ہوئی تو میدانِ سیاست میں بہت سی ایسی آلائشیں در آئیں جنہوں نے پورے ماحول کو متعفن کر دیا۔ بعد ازاں میثاقِ جمہوریت کے تحت دونوں پارٹیوں کی قیادت نے ملک میں جمہوریت کے استحکام کی خاطر ایک دوسرے کو برداشت اور باہم تعاون کرنے کا معاہدہ کیا۔ محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد اگرچہ اس میثاق پر اس کی روح کے مطابق عمل تو نہ ہو سکا لیکن ایک دوسرے کی مدتِ اقتدار مکمل کرنے کی حد تک ضرور ساتھ دیاگیا۔ تنقید بھی سیاسی بیان بازی تک محدود رہی لیکن اب حالات دوبارہ منفی رخ لیتے دکھائی دے رہے ہیں بلکہ ماضی سے بھی بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ تمام اطراف سے سیاست دانوں نے مخالفین پر ذاتی حملے تیز کر دیے ہیں۔ اگر یہ مان لیں کہ آئندہ عام انتخابات قریب آنے کی وجہ سے سیاسی بازار گرم ہے تو پھر یہ معاملہ زیادہ تشویشناک ہے کیونکہ یہ ماحول سیاسی عدم برداشت کی غمازی کر رہا ہے۔ سیاست باہمی اختلافات کو مشترکہ پلیٹ فارم پر گفت و شنید سے حل کرنے کا نام ہے مگر ہماری بیشتر سیاسی قیادت تنقید بالکل بھی برداشت نہیں کرتی۔
ہماری قوم کرکٹ کے معاملے میں جذباتی رجحان رکھتی ہے، سب جانتے ہیں کہ جب بھی قومی کرکٹ ٹیم روایتی حریف انڈیا سے کوئی سیریز ہار جاتی ہے تو اسے سخت عوامی تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن جب گزشتہ سال ورلڈ کپ کے مقابلوں میں بھارت کو ہرایا تو پوری قوم ٹیم پر نثار ہوئی جا رہی تھی۔ معلوم ہوا کہ کارکردگی اچھی نہ ہو تو تنقید برداشت کرنا ہی پڑتی ہے اور جب نتائج بہتر ہوں تو قوم بے لوث محبت کا اظہار بھی کرتی ہے۔ کاش کوئی ہمارے سیاست دانوں کو بھی یہ بات بتائے کہ عوامی تنقید پر ناراض ہونے کے بجائے عوامی مسائل حل کرنے پر اپنی توانائیاں صرف کریں‘ عوام خود ہی ان کے گیت گائیں گے۔ حکومت اور اپوزیشن کو سیاسی مخالفت میں اس حد تک ہرگز نہیں جانا چاہیے جہاں سے واپسی کا راستہ نہ ملے۔ انہیں سیاسی میدان میں ایسی اچھی روایات قائم کرنی چاہئیں جن کی دنیا مثال دے۔