ملک میں اس وقت جو سیاسی کھیل جاری ہے وہ عام آدمی کی سمجھ بوجھ سے بالاتر ہے۔ ویسے بھی عوام اور 'خواص‘ کی ترجیحات میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ اپنے گزشتہ ایک کالم میں بھی لکھا تھا کہ قومی سیاست میں جاری جوڑ توڑ کو عوام محض ایک کھیل سمجھ کر انجوائے کریں کیونکہ ہمارے سیاست دانوں کے مفادات کچھ اور ہیں جبکہ غریب آدمی کا اصل مسئلہ تو آلو، پیاز، آٹے اورگھی کے نرخ ہیں‘ جو روز بروز اس کی پہنچ سے دور ہوتے جا رہے ہیں؛ تاہم ہمیں اس بات پر اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکرادا کرنا چاہئے کہ ایک بار پھر رمضان المبارک کی برکتیں سمیٹنے اور اپنے ایمان کو تازہ کرنے کی سعادت نصیب ہو رہی ہے۔ شریعت اسلامیہ میں روزہ کا مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ انسان طلوع فجر سے غروب آفتاب تک اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کیلئے کھانے، پینے سمیت ان افعال و اعمال سے پرہیز کرے جن کی عمومی حالات میں اجازت ہوتی ہے جبکہ ممنوعہ افعال و اعمال تو روزے میں زیادہ سختی سے منع کیے گئے ہیں۔ رمضان المبارک کے روزے دو ہجری میں فرض کیے گئے اور نبی اکرمﷺ نے اپنی زندگی میں نو برس رمضان المبارک کے روزے رکھے۔ امام نوویؒ لکھتے ہیں: رسول اکرمﷺ نے نو رمضان المبارک کے روزے رکھے، اس لیے کہ ہجرت کے دوسرے سال شعبان میں رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے تھے اور نبی کریمﷺ گیارہ ہجری‘ ربیع الاول کے مہینے میں وصال فرما گئے۔ (المجموع)
قرآنِ پاک کی سورۃ البقرہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ''اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر روزے فرض کیے گئے تھے تاکہ تم متقی و پرہیزگار بن جائو‘‘۔ اس حوالے سے علماء کرام نے بیان کیا ہے کہ روزہ ان افراد پر واجب ہے جن میں درج ذیل شرائط پائی جاتی ہوں؛ بالغ ہو، عاقل ہو، روزہ رکھنے کی قدرت رکھتا ہو، مسافر نہ ہو، روزہ رکھنا کسی بیماری میں اضافے یا صحت کے لیے ضرر کا باعث نہ ہو۔ علاج و معالجہ کی غرض سے روزے میں مشروط چھوٹ دی گئی ہے۔ جیسے گردے کے مریضوں کے لیے پتھری سے چھٹکارا صرف دن میں پانی یا دیگر مائعات استعمال کرنے سے ہی حاصل ہوتا ہے‘ لہٰذا ایسے مریض کو ڈاکٹر کی آرا کے ساتھ مفتیانِ دین اور علمائے کرام سے بھی رائے لازمی لینی چاہیے۔
اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرہ کی آیت 185 میں فرمایا ''رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اتارا گیا ہے‘ جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور (جس میں) رہنمائی کرنے والی اور (حق و باطل میں) امتیاز کرنے والی واضح نشانیاں ہیں، پس تم میں سے جو کوئی اس مہینہ کو پا لے تو وہ اس کے روزے ضرور رکھے اور جو کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں (کے روزوں) سے گنتی پوری کرے، اللہ تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لیے دشواری نہیں چاہتا، اور اس لیے کہ تم گنتی پوری کر سکو اور اس لیے کہ اس نے تمہیں جو ہدایت فرمائی ہے اس پر اس کی بڑائی بیان کرو اور اس لیے کہ تم شکر گزار بن جاؤ‘‘۔ اس سے اگلی آیت میں ارشادِ خداوند کریم ہے: اور (اے پیغمبر) جب آپ سے میرے بندے میرے بارے میں دریافت کریں تو (کہہ دیں کہ) میں تو تمہارے پاس ہوں۔ جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں ‘ پس ان کو چاہیے کہ مجھ پر ایمان لائیں تاکہ ہدایت کا راستہ پائیں‘‘۔ہمیں اس رمضان المبارک میں اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق مزید مضبوط بنانا ہے۔
ایک حدیث شریف میں آتا ہے کہ ''جو شخص بحالتِ ایمان ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھتا ہے اس کے سابقہ گناہ بخش دیے جاتے ہیں‘‘۔ (صحیح بخاری) اسی طرح رمضان المبارک کی راتوں میں تراویح و نوافل متعلق حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ''جس نے ایمان کی حالت میں ثواب کی نیت سے رمضان المبارک (کی راتوں)میں قیام کیا تو اس کے سابقہ تمام گناہ معاف کر دیے گئے‘‘۔ رمضان المبارک کی برکتیں اور سعادتیں اس قدر زیادہ ہیں کہ باقی گیارہ مہینے مل کر بھی اس کی برابری نہیں کر سکتے۔
ہمیں رمضان میں روایتی طور پر عبادات کے ساتھ ساتھ قرآن پاک کی تلاوت کو اپنا شعار بنانا چاہیے، نماز پنجگانہ کی ادائیگی میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کے احکامات کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔ روزے میں صرف بھوک پیاس ہی نہیں بلکہ آنکھوں‘ کانوں اور دل و دماغ سمیت پورے جسم کو روزے کے تابع کرنا ہو گا۔ زکوٰۃ اصل مستحقین تک پہنچانا ہو گی اور روزے کا مکمل اجر و ثواب حاصل کرنے کے لیے غیر ضروری طور پر باہر نکلنے اور باہمی جھگڑوں سے اجتناب کرنا ہوگا۔ اگر ہم نے ان ساری باتوں پر عمل کر لیا تو یقین جانیں کہ ہم رمضان المبارک کی برکات سے صحیح فائدہ اٹھانے کے میں ان شاء اللہ ضرور کامیاب ہو جائیں گے۔ رمضان المبارک کا پہلا عشرہ نزولِ رحمت کا سبب ہے‘ اس کا درمیانی عشرہ مغفرت اور آخری عشرہ نارِ جہنم سے نجات کیلئے ہے‘ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ پورے ماہ مقدس کا احترام کرتے ہوئے اس کی برکات سمیٹیں۔ رسول کریمﷺ کا فرمان ہے ''رمضان کی آخری شب میری امت کی بخشش کا فیصلہ ہو گا۔ کسی نے عرض کی: ''یا رسول اللہﷺ! کیا آپﷺ کی مراد شبِ قدر ہے؟‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا: نہیں! لیکن جب کوئی محنت کرنے والا محنت کرتا ہے اور اپنی ڈیوٹی کو اچھے طریقے سے انجام دیتا ہے‘ تو وہ پورے اجر کا حق دار ہوتا ہے۔ (مسند احمد)۔ اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوتاہے کہ ہمیں شبِ عید (چاند رات) پر بھی عبادات کا خصوصی التزام کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ سے عاجزی و انکساری کے ساتھ دعا مانگنی چاہیے اور اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ بہت غفور الرحیم ہے‘ وہ ہمیں بغیر مانگے سب کچھ عطا فرماتا ہے‘ اگر ہم عاجزی کے ساتھ دعا اور توبہ و استغفار کریں تو یقینا اس کی قبولیت میں کوئی شک وشبہ کی گنجائش ہی نہیں۔ رمضان المبارک کے روزوں کے حوالے سے فطرانہ دینا واجب ہے، اس کے لیے اپنے لیے اور ان لوگوں کے لیے‘ جو اس کے ہاں کھانا کھاتے ہوں‘ان غذائوں میں سے جو لوگ استعمال کرتے ہیں (مثلاً گندم، جو، خرما، کشمش، چاول، جوار یا ان جیسی دیگر اجناس) فی کس تین کلو گرام یا ان کی قیمت مستحق شخص کو دے۔
روزہ درحقیقت انسان میں صبر، برداشت اور دوسروں کی بھوک کا احساس پیدا کرتا ہے، اس سے انسان میں تقویٰ، صبر و شکر اور نفس پر غلبہ پانے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ یہ واحد عبادت ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ ''روزہ خاص میرے لیے ہے اور میں خود ہی اس کا اجر دوں گا‘‘۔ آج کل ملک میں جو سیاسی ہلچل جاری ہے‘ اس کی بنیادی وجوہات میں مہنگائی سرفہرست ہے جس نے عام آدمی کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے اور سفید پوش طبقے کیلئے تو گھر کا چولہا جلانا بھی مشکل ہو گیا ہے، ان حالات میں ہم پر لازم ہے کہ رمضان المبارک کی آمد سے قبل ہی اپنے اردگرد ایسے افراد کا خاص جائزہ لیں جو مہنگائی اور بیروزگاری کے باعث سخت پریشان ہیں، ہمیں رمضان المبارک سے قبل اپنے سٹور راشن سے بھرنے کے بجائے ان غریب رشتہ داروں اور ہمسایوں کو بھی یاد رکھنا چاہیے جو سحری و افطاری میں دستر خوان سجانے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ ہمیں چاہئے کہ عید کیلئے ضرورت سے زائد شاپنگ کرنے کے بجائے مستحقین کو کپڑوں اور راشن کا تحفہ دیں۔ یقینا ان نیک اعمال کی برکت سے اللہ پاک ہمارے روزے اور عبادات کو قبول فرمائے گا اور عید کی خوشیاں دوبالا فرما دے گا۔ چلیں! آج سے ہی استقبالِ رمضان کا آغاز کریں اور کسی غریب کے گھر راشن کا تحفہ پہنچا کر اطمینانِ قلب حاصل کریں۔