میں اس ملکِ خداداد کا ایک آزاد شہری اور جمہوریت کا بڑا حامی ہوں۔ جب سے ہوش سنبھالا ہے‘ جمہوریت کی تعریفیں ہی سنتا اور پڑھتا چلا آ رہا ہوں۔ مجھ سے جب بھی سوال ہوتا ہے کہ ملک میں کون سا نظام حکومت ہونا چاہئے تو میں جمہوری نظام کی حمایت کرتا ہوں لیکن جب بھی مجھ سے یہ سوال پوچھا جائے کہ پاکستان میں کون سی حکومت عوام کے لیے سب سے بہتر رہی تو بدقسمتی دیکھیے کہ میرے ذہن میں صرف سابق صدر جنرل ضیاء الحق کا دورِ حکومت ہی ابھرتا ہے‘ جو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ اگرچہ اس دورِ حکومت میں کسی کو جمہوریت کا نام لینے کی بھی اجازت نہیں تھی، ملک میں مارشل لا نافذ تھا اور ایک منتخب جمہوری حکومت کے بجائے ایک طالع آزما ملک کے سیاہ و سفید کا مالک تھا۔ ممکن ہے کہ آپ سوچیں ایک طرف میں جمہوریت کا حامی ہوں تو دوسری جانب ڈکٹیٹر کے دورِ حکومت کو عوام کے لیے سب سے اچھا قرار دے رہا ہوں تو معاملہ یہ ہے کہ یہ تضاد کی بات نہیں بلکہ ایک ایسی تلخ حقیقت ہے جسے کوئی نہیں جھٹلا سکتا۔
ضیاء الحق کے دور سے پہلے کس کا دور زیادہ اچھا یا برا تھا‘ یہ جاننے کے لیے آپ کو تاریخ کی کتابیں پڑھنا ہوں گی یا مجیب الرحمن شامی جیسے سینئر صحافیوں کی محافل سے استفادہ کرنا ہو گا کیونکہ میں اپنے مشاہداتی علم کی بنیاد پر صرف آخری پانچ دہائیوں کی بات کر سکتا ہوں کہ جس عرصہ میں راقم الحروف نے ہوش سنبھالا اور حالات کا بخوبی مشاہدہ کیا۔ میں نے جب ہوش سنبھالا تو ملک میں ضیاء الحق کا مارشل لاء نافذ تھا۔ عوامی خدمت کے دعویدار اور جمہوریت پسند سیاستدانوں پر لاتعداد قسم کی پابندیاں عائد تھیں، اظہارِ رائے کی آزادی تک نہ تھی، مہنگائی یا بیروزگاری کے خلاف احتجاج کرنے کا حق تک حاصل نہ تھا۔ ایک سرکاری ٹیلی وژن کے سوا کوئی دوسرا چینل نہیں تھا۔ پرنٹ میڈیا بھی کھل کر سب کچھ نہیں چھاپ سکتا تھا، سنسرشپ اپنی انتہائوں پر تھی۔ بہت سے صحافیوں کو اس دور میں کوڑے بھی پڑے۔ سوشل میڈیا تو دور کی بات، اُس وقت انٹرنیٹ کی سہولت بھی میسر نہ تھی لیکن اس کے باوجود‘ جمہوریت پسند سیاست دانوں کے بقول‘ اس گیارہ سالہ ''آمرانہ جبریت‘‘ کے دور میں مہنگائی کا نام و نشان تک نہ تھا۔ کسی کو جرأت نہیں ہوتی تھی کہ ذخیری اندوزی کرکے مصنوعی مہنگائی کرتا یا بلیک مارکیٹنگ ہوتی۔ سرکاری و نجی ملازمین کی تنخواہ جتنی بھی تھی‘ اس کے اندر نہ صرف اچھا گزارہ ہوتا تھا بلکہ ہر خاندان اپنی ماہانہ آمدنی میں سے کچھ نہ کچھ بچت بھی کر لیتا تھا۔ امن و امان کی صورتحال تمام جمہوری ادوار سے کہیں بہتر تھی۔ خواتین اور بچے محفوظ زندگی گزار رہے تھے۔ سٹریٹ کرائمز نہ ہونے کے برابر تھے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ مارشل لا کی سختیوں، خامیوں اور قباحتوں کے باوجود لوگوں کی عزتِ نفس محفوظ تھی۔ سرکاری اداروں میں نماز کے لیے وقت نکالا جاتا تھا لیکن اس کے باوجود حاضری اور کارکردگی موجودہ دور سے زیادہ بہتر تھی۔ بیشک ہمارے معاشرے میں ہر دور میں خواتین کا احترام کیا جاتا رہا ہے لیکن خواتین کا جتنا احترام اس دور میں کیا جاتا تھا‘ اتنا نہ تو اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں آیا اور بدقسمتی سے نہ ہی اس کے بعد۔ اس دور میں ٹیلی وژن پر بھی خوتین اینکرز، نیوز کاسٹر زاور اداکارائوں کے لیے دوپٹہ لازمی تھا۔ شاید کئی حلقے اسے عورت کی آزادی سے متصادم قرار دیں لیکن اگر ہم اپنے ملک کو اسلامی جمہوریہ پاکستان قرار دیتے ہیں تو یہاں اسلامی اقدار کی پاسداری بھی ہونی چاہئے۔ مارشل لا کے باوجود عوام میں اداروں کو بڑی عزت تھی۔ مارشل لا کے اسی ''سیاہ‘‘ دور میں کھیل و ثقافت کے شعبے بھی مثالی ترقی کر رہے تھے اور پاکستان سپورٹس کے کئی شعبوںمیں دنیا بھر پر حکمرانی کر رہا تھا۔
مذکورہ بالا سطور کا مقصد جمہوریت کو ناپسندیدہ کہنا یا ڈکٹیٹرشپ کی حمایت ہرگز نہیں بلکہ یہ موازنہ اس لیے کیا گیا ہے کہ ہم جیسے جمہوریت پسند سفید پوشوں کا اب اس نام نہاد جمہوری دور میں جینا محال ہو چکا ہے۔ جس کا جب دل چاہتا ہے‘ ذخیری اندوزی کرکے اور اشیائے ضروریہ کی مصنوعی قلت پیدا کرکے مہنگائی کا طوفان برپا کر دیتا ہے۔ ملکی ضروریات کو مدنظر رکھے بغیر برآمدات کے نام پر پہلے اپنی اجناس اور مصنوعات سستے داموں بیرونِ ملک بھیجی جاتی ہیں اور پھر وہی مال کئی گنا زائد قیمت ادا کر کے درآمد کیا جاتا ہے جس سے ایک طرف قومی خزانے کو بھاری نقصان پہنچتا ہے اور دوسری طرف عوام کو بھی اشیائے ضروریہ مہنگے داموں خریدنا پڑتی ہیں۔ مہنگائی اس قدر بڑھ چکی بلکہ بے قابو ہوچکی ہے کہ بے شمار ملازمت پیشہ افراد‘ جن کی تنخواہیں خاصی مناسب ہیں‘ کے لیے روٹی اور کپڑا پورا کرنا مشکل ہو چلا ہے۔ اس جمہوریت میں خواتین اوربچوں کے لیے گھر سے نکلنا تک محفوظ نہیں رہا، سٹریٹ کرائمز اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ لوگ گھر کے باہر گلی میں یا سڑک پر موبائل فون پر بات بھی نہیں کر سکتے۔ سرکاری دفاتر اور تعلیمی اداروں میں نماز کے اوقات ختم کر دیے گئے لیکن اس کے باوجود حاضری و کارکردگی ناگفتہ بہ ہے۔ عدلیہ اور دیگر ریاستی اداروں پر تنقید گویا رواج بن چکا ہے اور ہر کوئی سستی شہرت کے لیے بغیر سوچے سمجھے بیان بازی کر رہا ہے۔ سیاسی اقدار تو بالکل مفقود ہو کر رہ گئی ہیں۔ پہلے سیاسی مخالفت ہوتی تھی لیکن کبھی کسی سیاسی حریف کو جانی دشمن نہیں سمجھا جاتا تھا بلکہ لوگ اپنے مخالفین کا بھی دل و جان سے احترام کرتے تھے لیکن اب تو سیاستدان سرعام ایک دوسرے کو گالیاں دیتے ہیں، ایک دوسرے کے گریبان پکڑے جاتے ہیں بلکہ تشدد کے واقعات میں بھی کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ ملک میں کسی کی جان، مال اور عزت محفوظ نہیں۔ کیا یہی جمہوریت ہے؟
عوام جن سیاست دانوں کو اپنے نمائندے کے طور پر ووٹ دے کر اسمبلیوں میں بھیجتے ہیں، وہی لیڈر اسمبلی میں قانون سازی یا عوامی مسائل پر بحث اور انہیں حل کرنے اور ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کے بجائے ذاتی مفادات اور اقتدار کے حصول کے لیے تمام حدیں عبور کر جاتے ہیں۔ نہ تو اسمبلی‘ سینیٹ اور ایوان کا احترام ملحوظ رکھا جاتا ہے اور نہ ہی تقریروں اور ٹیلی وژن مباحثوں میں اخلاق برتا جاتا ہے۔ بڑے بڑے قومی عہدوں پر براجمان شخصیات خواتین کے بارے بھی گفتگو کرتے ہوئے نہ تو اپنے عہدے اور مرتبے کا لحاظ کرتی ہیں اور نہ ہی معاشرتی اقدار اور روایات کا خیال رکھتی ہیں۔ کیا یہی جمہوریت ہے کہ سیاسی بیان بازی میں قومی مفادات کو بھی پس پشت ڈال دیا جائے؟ نام نہاد جمہوریت کے دعویدار اقتدار کے حصول کے لیے سب کچھ دائو پر لگا دیتے ہیں۔ اپوزیشن میں جو وعدے اور دعوے کیے جاتے ہیں‘ اقتدار ملنے پر وہ سب فراموش کر دیے جاتے ہیں۔ ایک دوسرے پر الزامات عائد کرتے وقت انتہائی غیرسنجیدہ اور بسا اوقات غیر اخلاقی گفتگو کا سہارا لیا جاتا ہے۔ دو‘ ڈھائی ماہ قبل وفاقی حکومت کی تبدیلی کے دوران قومی اسمبلی میں عوام نے جو کچھ دیکھا‘ جس طرح ہر کوئی آئین و قانون کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرنا چاہتا تھا، جس طرح من پسند فیصلوں کے لیے عدلیہ کے حوالے سے تبصرے کیے جاتے رہے، جس طرح ریاستی اداروں اور اہم شخصیات پر بلاوجہ تنقید کی جاتی ہے، کیا یہ جمہوریت ہے؟ پنجاب اسمبلی میں گزشتہ دو ماہ سے جو کچھ ہو رہا ہے‘ کیا یہ جمہوریت ہے؟ گزشتہ روز پنجاب اسمبلی میں بجٹ اجلاس کے دوران جو کچھ عوام نے دیکھا، کیا یہ جمہوریت ہے؟ ملکی کرنسی آج بری طرح زوال پذیر ہے، مہنگائی نہایت تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے، رزق حلال میں سفید پوش طبقے کا جینا محال ہو چکا ہے، کسی کی عزتِ نفس محفوظ نہیں، آئین و قانون کی پاسداری صرف غریب اور بے بس کے لیے رہ گئی ہے، سیاسی مخالفت دشمنیوں میں بدل چکی ہے، اگر یہی جمہوریت ہے تو پھر ہم جیسے جمہوریت پسندوں کو بھی سوچنا پڑے گا کیونکہ ایسے نظام کا کیا فائدہ جس میں غریب کو بچوں سمیت خودکشی کرنی پڑے جبکہ بااثر افراد کے آگے قانون دست بستہ کھڑا ہو۔ جمہوریت کے لیے جمہوری اقدار کو بھی پروان چڑھانا ہو گا، ایک دوسرے کی عزت نفس کے ساتھ قوم کی ضروریات کا بھی خیال رکھنا ہوگا، قومی مفادات کو ذاتی مفاد پر ترجیح دینا ہوگی اور عوام کے مسائل حل کرنا ہوں گے، اس کے بغیر ملک میں حقیقی جمہوریت کا خواب تعبیر نہیں پا سکتا۔