2018ء میں سپریم کورٹ پانی کی کمی اور ڈیموں کی تعمیر کے حوالے سے کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر چکی ہے، جبکہ ڈیموں کی تعمیر اور کام کی نگرانی کے لیے عملدرآمد کمیٹی بھی قائم کی گئی تھی۔ عدالتِ عظمیٰ کے تفصیلی فیصلے میں عملدرآمد کمیٹی کا سربراہ چیئرمین واپڈا کو مقرر کیا گیا تھا اور اس میں ماہرین، وفاق اور خیبر پختونخوا حکومت کے حکام شامل کیے گئے تھے۔ عملدرآمد کمیٹی نے تین ہفتوں کے بعد اپنی جامع رپورٹ بھی جمع کرانا تھی۔ کمیٹی نے کیا رپورٹ پیش کی یا اس کو کیا رکاوٹیں پیش آئیں، اس بارے پھر کبھی بات ہو گی۔ ابھی صرف اس فیصلے کا ذکر کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے اپنے تفصیلی فیصلے میں کہا تھا کہ کالاباغ ڈیم کی پہلی فزیبلٹی رپورٹ 1956ء میں بنائی گئی، 16 ستمبر 1991ء کو مشترکہ مفادات کونسل نے کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا فیصلہ کیا اور پھر ڈیم کے حق میں دوسرا فیصلہ 9 مئی 1998ء کو کیا گیا، لیکن مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلوں پر آج تک عمل نہیں کیا گیا۔ وفاقی حکومت کالا باغ ڈیم سے متعلق آرٹیکل 154 کے تحت مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلوں پر عملدرآمد کرے۔ مذکورہ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ مقامی اور بین الاقوامی ماہرین نے کالاباغ ڈیم کو بہترین قرار دیا ہے، ڈیموں کی عدم تعمیر کے باعث ملک کو پانی کی قلت کا سامنا ہے اور ہر سال سیلاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن پھر بھی ڈیم کی تعمیر میں رکاوٹیں ڈالی گئیں، ڈیم کے مخالفین کے خدشات غلط فہمیوں پر مبنی ہیں۔ صوبے قومی مفاد میں کالاباغ ڈیم کے حوالے سے اختلافات ختم کریں اور حکومت نیک نیتی سے ڈیم کے حوالے سے خدشات دور کرے۔
2018ء میں‘ عمران خان کے دورِ حکومت میں قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران پی ٹی آئی کے رکن علی محمد خان نے نئے ڈیموں کی تعمیر کیلئے قراداد پیش کی، جس پر اپوزیشن جماعتوں نے 'متنازع‘ ڈیموں کی تعمیرکے خلاف احتجاج کیا۔ پیپلز پارٹی کے یوسف تالپور نے کہا کہ وہ ڈیم نہ بنائے جائیں جن کو تین صوبے مسترد کر چکے ہیں؛ بھاشا ڈیم پر ان کی پارٹی کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما (موجودہ وزیر دفاع) خواجہ آصف نے کہا کہ واٹر پالیسی میں بھاشا اور گومل ڈیم پر مکمل اتفاق ہوا تھا، صوبوں کے درمیان متفقہ واٹر پالیسی پر دستخط ہوئے تھے، ہمیں پانی کی بچت کیلئے بھی اقدامات کرنا پڑیں گے، پانی جمع کرنے سے زیادہ اہم پانی بچانا ہے۔ سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ خواجہ آصف نے جس دستاویز کا ذکر کیا ہے‘ اس سے ہمیں اتفاق ہے، اگر خیبر پختونخوا اور سندھ کو کالا باغ ڈیم پر اعتراضات ہیں تو ہم یہ منصوبہ نہیں چھیڑیں گے، کالا باغ ڈیم پر بلاوجہ قومی بحث شروع کرا دی گئی ہے، ہم وفاق کی مضبوطی کیلئے صوبوں کے تحفظات کا احترام کریں گے۔ یہ قرارداد منظور تو ہو گئی لیکن یوسف تالپور، خواجہ آصف اور شاہ محمودقریشی کے بیانات سے واضح ہوگیا کہ کسی بھی جماعت کو یہ اہم قومی منصوبہ اپنی سیاست سے زیادہ عزیز نہیں۔
اگر موجودہ حالات و واقعات کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کیا جائے تو صورتِ حال 2018ء سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی اور خیبر پختونخوا میں عوامی نیشنل پارٹی تو پہلے ہی اس منصوبے کی مخالف رہی ہیں اور ان دونوں جماعتوں کی سیاست ہی کالاباغ ڈیم کی مخالفت پر چلی آ رہی ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ماضی میں اس اہم قومی منصوبے کی حامی کہلانے والی پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف بھی پُراسرار طور پر خاموش ہیں حالانکہ اس وقت ایک جماعت مرکز میں برسر اقتدار ہے اور دوسری پارٹی پنجاب اور خیبر پختونخوا میں۔ کے پی میں گزشتہ نو سال سے پی ٹی آئی حکومت کر رہی ہے۔ سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں منرل واٹر بنانے والی کمپنیوں سے متعلق ایک ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران بیرسٹر اعتزاز احسن سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیے تھے کہ میں نے آرٹیکل چھ کا مطالعہ شروع کر دیا ہے، جن لوگوں نے اب ڈیم بنانے سے روکنے کی کوشش کی‘ ان کے خلاف آرٹیکل چھ (غداری) کے تحت کارروائی کروں گا کیونکہ یہ قوم کا اجتماعی مفاد ہے۔ میں پہلے بھی اپنے کالم میں یہ عرض کر چکا ہوں کہ سیاسی مخالفین پر غداری کے الزامات لگانے کے بجائے موجودہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے سبق سیکھا جائے اور کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے اتفاقِ رائے پیدا کیا جائے اور جو عناصر بھی اس قومی منصوبے کی بے جا مخالفت کریں‘ ان کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی کی جائے۔
ہم خیبر پختونخوا کے تحفظات پر تفصیلی بات کر چکے ہیں کہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر سے نوشہرہ شہر اورگرد و نواح کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا بلکہ ان علاقوں کو سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچایا جا سکے گا۔ اسی طرح صوبہ سندھ میں ایک پروپیگنڈا یہ کیا جاتا ہے کہ کالاباغ ڈیم کی وجہ سے دریائوں میں پانی نہیں چھوڑا جائے گا اور سمندر کا پانی اوپر چڑھ آئے گا جو کراچی اور سندھ کو ڈبو دے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ کراچی سطح سمندر سے سات میٹر بلند ہے اور جیسے جیسے سندھ کے میدانی علاقوں کی طرف آتے جائیں‘ یہ اونچائی بڑھتی جاتی ہے۔ دریا جب سمندر میں گرتا ہے تو چھوٹی چھوٹی نہروں میں تقسیم ہو جاتا ہے، جسے ''ریور ڈیلٹا‘‘ بھی کہتے ہیں۔ یہ علاقہ تقریباً ایک کلومیٹر تک کا ہوتا ہے۔ مدوجزر یعنی سمندر کے اتار چڑھائو کی صورت میں بھی یہ علاقہ سمندر کے پانی کے نیچے نہیں آتا۔ لہٰذا کالاباغ ڈیم کے بننے کی وجہ سے سمندر کا پانی نہ صرف کراچی شہر بلکہ سندھ بھر کو کسی بھی طرح کا کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ اگر سمندر کے پانی کی سطح میں کوئی تبدیلی آتی ہے یا آ رہی ہے تو اس کا ڈیم سے قطعاً کوئی تعلق نہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ڈیم کی تعمیر سے دریائوں کے بہائو میں کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ ڈیم کو بھرنے کے لیے صرف ایک بار پانی درکار ہوتا ہے، اس کے بعد جتنا پانی آئے گا‘ وہ دریائوں اور نہروں میں ہی جائے گا۔ ہم پہلے ہی اس ڈیم کی تاخیر سے بہت نقصان اٹھا چکے ہیں بلکہ مسلسل خسارے میں جا رہے ہیں۔ کالاباغ ڈیم کی اوسط گنجائش چھ ملین ایکڑ فٹ کا اگر پچھلے بیس سال کا تخمینہ لگایا جائے تو اب تک ایک سو بیس ملین ایکڑ فٹ پانی ہم ضائع کر چکے ہیں۔ یہ پانی کی اتنی مقدار ہے جتنی دریائے سندھ میں پورے ایک سال کے دوران پانی کی مقدار ہوتی ہے جبکہ چونتیس سو میگاواٹ سالانہ بجلی نہ بنا کر ہم نے پچھلے بیس سال میں اڑسٹھ ہزار میگاواٹ بجلی مہنگے داموں اور دیگر ذرائع سے خریدی ہے۔ اگر اس کی مالیت کا اندازہ لگایا جائے تو یہ اربوں ڈالر بنتے ہیں جو اس پورے پروجیکٹ کی لاگت سے بھی کئی گنا زیادہ ہوں گے۔ اگر واپڈا کے مہیا کردہ اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو کل ملا کر تمام فوائد کی لاگت لگ بھگ اسی ارب روپیہ سالانہ بنتی ہے۔ اگر کالا باغ ڈیم 1983ء میں مکمل ہو گیا ہوتا تو ان 39 سالوں میں ہم کھربوں ڈالر بچا سکتے تھے۔ اتنا تو ہم نے بیرونی قرضہ بھی نہیں لیا ہوا جس پر سود در سود ادا کرنے سے اس وقت معیشت کی حالت ا س قدر پتلی ہو چکی ہے۔ زمینی حقائق کو مدنظر رکھاجائے تو کسی بھی سیاسی جماعت کی طرف سے اس اہم منصوبے پر کوئی خاص پیش رفت نظر نہیں آتی‘ یعنی کوئی بھی ریاست کیلئے اپنی سیاست دائو پر لگانے کو تیار نظر نہیں آتا۔ ان حالات میں ملکی اداروں کو کالاباغ ڈیم کی تعمیر پر قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کیلئے آگے آنا ہوگا کیونکہ اگر آج ہم نے کوئی ٹھوس فیصلہ نہ کیا اور یہ ڈیم نہ بنایا تو پھر سیلاب بھی آتے رہیں گے، نوشہرہ اور سندھ کے ہزاروں دیہات بھی ڈوبتے رہیں گے اور ہمیں چند سالوں میں سو روپے فی یونٹ پر بجلی بھی خریدنا پڑے گی۔ وزیراعظم صاحب کو سوچنا ہو گا کہ وہ پاکستان کیلئے اپنی پارٹی کے ماضی کے بیانیے پر عمل کرتے ہوئے کالاباغ ڈیم بناتے ہیں یا پھر حکومت بچانے کیلئے اس منصوبے کو سیاست کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔ یہی فیصلے کی گھڑی ہے! اگر ملک کو سیلابوں اور معاشی تباہیوں سے بچانا ہے تو کالاباغ ڈیم بنانا ہے۔ (ختم)