افغانستان میں امریکی جنگ کے حوالے سے یہ باتیں اب کئی حوالوں سے سامنے آ چکی اور ریکارڈ کا حصہ بن چکی ہیں کہ بلیک واٹر سمیت کئی امریکی ادارے چوری چھپے طالبان کے علاقوں میں بھی اسلحہ پھینک دیتے تھے تاکہ یہ جنگ طویل ہو اور ان کے کنٹریکٹس چلتے رہیں۔ انہیں نہ تو امریکی مفادات سے کوئی غرض تھی اور نہ ہی قیمتی انسانی جانوں کی پروا تھی۔ وہ تو صرف یہ جانتے تھے کہ اگر جنگ ختم ہو گئی یا یکطرفہ ہو کر رہ گئی تو پھر شاید ان کی ضرورت نہیں رہے گی اور ان کے کنٹریکٹس ختم کر دیے جائیں گے۔ آج کل پاکستان کی سیاسی صورتِ حال بھی کچھ ایسے ہی مسائل سے دوچار ہے۔ میں پہلے بھی اپنے ایک کالم میں لکھ چکا ہوں کہ اس وقت پاکستان کی تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں، حتیٰ کہ آزاد اراکین اسمبلی بھی ملک کے کسی نہ کسی حصے میں برسرِ اقتدار ہیں۔ لگ بھگ سبھی پارٹیاں اور سیاست دان اقتدار میں اپنا شیئر انجوائے کر رہے ہیں۔ جو برسر اقتدار ہو‘ حاکم وقت ہو‘ بااختیار ہو‘ وسائل پر قابض ہو‘ خود کو آئین و قانون سے ماورا سمجھتا ہو تو اسے غریب عوام کے مسائل سے کیا پریشانی لاحق ہو سکتی ہے؟ وہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے کیوں خوفزدہ ہو گا؟ وڈیروں کو پتا ہے کہ اگر ان کے علاقے میں سیلاب آ بھی گیا تو پانی کا رخ کسی غریب بستی کی جانب موڑ دیا جائے گا۔ غیر ملکی خیمے، راشن اور دیگر امپورٹڈ امدادی سامان اپنے گوداموں میں ذخیرہ کیا جا سکتا ہے بلکہ سیلاب متاثرین کے نام پر چندہ جمع کرنے کا بھی یہ بہترین موقع ہے۔ امدادی سامان اور رقوم کا کوئی آڈٹ تو ہوتا نہیں اور نہ ہی کسی دوست ملک نے عطیہ کردہ خیموں کی گنتی کرانی ہے کہ متاثرین میں کتنے تقسیم ہوئے اور کتنے گوداموں میں دب گئے۔ اس لیے کسی کو کوئی فکر نہیں۔ یقین کریں ہمارے زیادہ تر سیاست دان سب ''ٹکر کے لوگ‘‘ ہیں اور یہ ایک دوسرے کا ہر طرح سے مقابلہ کر سکتے ہیں۔ انہیں کسی قسم کا خوف نہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر کوئی ان کے خلاف وفاق میں کارروائی کرے گا تو وہ اس کے خلاف اپنے صوبے میں جوابی کارروائی کا اختیار رکھتے ہیں جبکہ تیسرا فریق جانتا ہے کہ وہ اپنی صوبائی حکومت میں کسی کے خلاف بھی قانون کو استعمال کر سکتا ہے، یعنی اگر ان سیاستدانوں کو کسی آئینی و قانونی شکنجے میں جکڑا جائے گا تو وہ مزاحمت کے طور پر اپنے زیرِ اقتدار علاقوں میں مقدمات درج کرا کے دبائو ڈال سکتے ہیں۔ یہ سب کچھ کوئی عام آدمی تو نہیں کر سکتا۔ غریب بندے کے خلاف کوئی جھوٹا مقدمہ بھی درج ہو جائے تو اس کے لیے ضمانت کرانا ہی کارِ محال ہو کر رہ جاتا ہے۔ پہلے تو وکیلوں کی فیس ہی مشکل ہو جاتی ہے اور پھر کوئی ضمانتی بھی نہیں ملتا۔
بات سیاست دانوں کی ہو رہی تھی۔ سیاسی رہنمائوں کی تقریریں سنیں تو ایسا لگتا ہے کہ ان کا دنیا میں آنے کا مقصد ہی یہ تھا کہ مخلوق کی خدمت کے لیے دن رات ایک کر دیں لیکن جب ان کے کام دیکھیں تو خوف آتا ہے۔ یہاں مجھے سابق وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کی بات یاد آتی ہے جو وہ برملا کہا کرتے ہیں کہ پاکستانی سیاست دان صرف مفاد کی سیاست کرتا ہے۔ دیکھا جائے تو یہ بات قرینِ حقیقت ہے کہ ہماری سیاست صرف اقتدار کے گرد ہی گھومتی ہے۔ اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے کے لیے لیڈرز کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ ہمارے سیاست دان الیکشن جیتنے کے لیے کوئی بھی حربہ استعمال کر سکتے ہیں۔ اپنی پارٹی چھوڑ سکتے ہیں، وفاداریاں تبدیل کر سکتے ہیں، اپنے منشور سے پیچھے ہٹ سکتے ہیں، کسی کی وفاداری خرید سکتے ہیں اور کسی کے ہاتھوں اپنا ووٹ تک فروخت کر سکتے ہیں۔ الغرض انتخابات میں کامیابی اور اقتدار کے ایوان تک پہنچنے کے لیے ہر قسم کی 'قربانی‘ دینے کو تیار رہتے ہیں۔ سیاسی نمائندے عوام کے خادم تو ہوتے ہیں لیکن صرف پولنگ والے دن تک۔ اس کے بعد اگر جیت جائیں تو سکیورٹی کے نام پر اپنے دروازے غریبوں کے لیے بند کر دیتے ہیں اور اگر ہار جائیں تو پھر اختیارات نہ ہونے کا بہانہ بنا لیتے ہیں اور ووٹروں کو کہا جاتا ہے کہ آئندہ مجھے اکثریت سے کامیاب کرانا تاکہ تمہارے کام کرا سکوں۔ خدمت کی سیاست تو خدا جانے اس ملک میں کب ہوتی تھی اور وہ کون سے سیاست دان تھے جو عام آدمی کے مسائل حل کرنے کے لیے فکرمند رہا کرہتے تھے۔ اب تو عوامی خدمت کے دعویدار سیاسی رہنما الیکشن سے پہلے انتخابی مہم کے لیے نت نئی بلٹ اور بم پروف گاڑیاں خریدتے ہیں اور جیتنے کے بعد تو سب کچھ اَپ گریڈ اور 'رینوویٹ‘ ہوتا ہی ہے۔
کہنے کو تو عوام بڑے باشعور ہو چکے ہیں، میڈیا نے عام آدمی کو اس کے حقوق سے آگاہ کر دیا ہے اور اب لوگ آنکھیں بند کر کے کسی کے پیچھے نہیں چلتے مگر لگتا ایسا ہے کہ سوشل میڈیا پر جھوٹی خبروں اور پروپیگنڈے کی بھرمار نے عام آدمی کی مَت مار دی ہے۔ لوگوں کو یہ بات ابھی تک سمجھ ہی نہیں آ رہی کہ سوشل میڈیا پرچلنے والے ٹرینڈز سیاسی رہنمائوں کی مقبولیت سے زیادہ ان کے میڈیا سیل کی مصنوعی کامیابی کا مظہر ہوتے ہیں۔ ان ٹرینڈز میں عوامی فلاح و بہبود کی کوئی بات نہیں کی جاتی۔ عام شہریوں کے مسائل کو ڈسکس نہیں کیا جاتا۔ مہنگائی میں کمی کی کوئی تجویز نہیں دی جاتی۔ بیروزگاری کے خاتمے کا کوئی حل نہیں بتایا جاتا اور نہ ہی غریبوں کے حقوق کی بات کی جاتی ہے بلکہ سوشل میڈیا کے سارے ٹرینڈز سیاسی مخالفین پر تنقید کرنے اور ان پر کیچڑ اچھالنے کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ ایک دوسرے کی آڈیوز اور وڈیوز کو ایڈیٹ کرکے وائرل کیا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ سیاست دانوں کے ذاتی میڈیا سیلز کرتے ہیں جن کا مقصد اپنے رہنمائوں کے حق میں کمپین چلانا اور مخالفین کو بدنام کرنا ہوتا ہے، لیکن عوام ابھی تک یہ سب کچھ سمجھنے سے قاصر ہیں اور وہ اسے لیڈروں کی عوامی مقبولیت سمجھتے ہیں۔ کوئی یہ نہیں سوچتا کہ غریب آدمی کے مسائل کے حوالے سے تو سوشل میڈیا پر بات تک نہیں کرتا، اگر کوئی ڈالر کی اونچی پرواز یا پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی بات کرتا بھی ہے تو اس کا مقصد محض سیاسی مخالفین پر تنقید اور اپنے نمبر ٹانکنا ہوتا ہے۔
حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں کا جائزہ لیاجائے تو سب سے زیادہ نقصان پہلے سے مہنگائی کی چکی میں پسنے اور خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنیوالے غریب طبقے کا ہوا ہے۔ آئے روز کسی وڈیرے‘ کسی سردار کے گودام سے متاثرینِ سیلاب کے لیے عطیہ کیے جانے والا امدادی سامان برآمد ہو رہا ہے جبکہ متاثرین کی اکثریت آج بھی کھلے آسمان تلے بے یارو مددگار پڑی ہے۔ لاکھوں لوگ خوراک اور ادویات سے محروم ہیں جبکہ متعدد علاقوں میں پانی اترنے کے بعد اب غذائی قلت کا سامنا ہے۔ مختلف وبائی امراض بھی تیزی سے پھیل رہے ہیں لیکن حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف سے تعلق رکھنے والے سیاست دان متاثرہ علاقوں میں محض فوٹو سیشن کراتے اور ہیلی کاپٹروں پر سیر سپاٹے کرتے نظر آ رہے ہیں۔ یقینا متاثرین کی بحالی کا کام بھی ہو رہا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کارکردگی سے زیادہ پوائنٹ سکورنگ ہو رہی ہے۔
ضرورت اس امرکی ہے کہ عوام اپنے حقوق کا ادراک کریں اور عوامی خدمت کے نام پر ووٹ لینے والے ایسے سیاست دانوں کا محاسبہ کریں جو الیکشن کے بعد غائب ہو جاتے ہیں اور انتخابی موسم میں ووٹ لینے کے لیے دوبارہ غریبوں کی دہلیز پر پہنچ جاتے ہیں۔ ایسے افراد کو مسترد کر کے صرف انہیں ووٹ دیے جائیں جو منتخب ہونے کے بعد بھی حلقے کے عوام سے رابطہ رکھتے ہیں۔ دوسری طرف سیاست دانوں کو بھی یہ بات سوچنی چاہئے کہ آخر کب تک وہ عوام کو بیوقوف بناتے رہیں گے۔ یہ عوام ہی تو ہیں جن کے ووٹوں کی طاقت سے وہ اقتدار کے ایوانوں تک پہنچتے ہیں۔ جن کے ووٹوں سے انہیں وسیع اختیارات ملتے ہیں۔ اپنے پہاڑ جیسے مفادات کا تحفظ ضرورکریں لیکن غریبوں کی چھوٹی چھوٹی ضروریات کا بھی احترام کریں۔ سیاستدان تو اقتدار میں اپنا حصہ انجوائے کر رہے ہیں لیکن عوام کا کیا قصورہے جو پہلے مہنگائی کی چکی میں پس رہے تھے اور اب سیلاب میں ڈوب کر مر رہے ہیں۔ سیاستدان شاید اس وقت تک عوام کے بارے میں نہیں سوچیں گے جب تک عام آدمی خود اپنے حقوق کے بارے میں نہیں سوچے گا۔