ہجوم کی انسانیت

پی ٹی آئی نے عمران خان کی قیادت میں اٹھائیس اکتوبر کو لبرٹی چوک لاہور سے لانگ مارچ کا آغازکیا جس نے طے شدہ شیڈول کے مطابق چار نومبر کو اسلام آباد پہنچنا تھا۔ لانگ مارچ کا آغاز بڑے پُرجوش انداز سے ہوا۔ لاہور کی سڑکوں پر ٹریفک جام کی وجہ سے ہزاروں کا قافلہ بھی لاکھوں کا دکھائی دے رہا تھا اور منٹوں کاسفر گھنٹوں میں طے ہو رہا تھا۔ جوں جوں لاہور شہرکی حدود ختم ہوتی جا رہی تھی‘ کپتان کا قافلہ بھی سکڑتا گیا۔ اس لانگ مارچ کے دوران ایک نئی حکمتِ عملی متعارف کرائی گئی۔ شروع سے آخر تک لوگوں کی شمولیت سے ہٹ کر ایسی حکمتِ عملی اختیار کی گئی کہ لانگ مارچ جس شہر یا علاقے میں داخل ہوتا‘ وہاں کے لوگ اس میں شامل ہوتے‘ کچھ دیر اور کچھ دور تک قافلے کے ساتھ چلتے اور پھر اپنی اپنی راہ لیتے‘ جس کے بعد نئے لوگ اس میں شامل ہوتے جاتے۔ جب یہ قافلہ کامونکی کے علاقے میں پہنچا تو ایک افسوسناک حادثہ پیش آیا۔ مارچ کی کوریج کرنے والی ایک خاتون صحافی صدف نعیم کنٹینر تلے آ کر فرائض کی انجام دہی کے دوران شہید ہو گئیں۔ اس حادثے نے ملک بھر کو سوگوار کر دیا اور خان صاحب نے بھی اس حادثے کے سوگ میں لانگ مارچ کو وہیں روک دیا۔ ضلع گوجرانوالہ کے علاقے میں کم از کم دو روز تک لانگ مارچ چلتا رہا۔ اسی دوران ایک پولیس اہلکار بھی دورانِ ڈیوٹی دل کا دورہ پڑنے سے عدم سدھار گیا جبکہ ایک ٹرک پر کھڑے کچھ لوگ درختوں میں الجھ کر نیچے گر گئے جنہیں ہسپتال منتقل کیا گیا مگر ایک شخص جانبر نہ ہو سکا۔ اس دوران یہ اعلان کیا گیا کہ اب لانگ مارچ چار نومبر کے بجائے گیارہ؍ بارہ نومبر کو اسلام آباد پہنچے گا۔ حکمتِ عملی ایسی اختیار کی گئی کہ لانگ مارچ کا دورانیہ جس قدر چاہے‘ بڑھایا جا سکے۔
کرتے کرتے عمران خان کا یہ لانگ مارچ ساتویں روز کو جب وزیرآباد کے قریب پہنچا تو اللہ والا چوک میں کنٹینر پر فائرنگ کا تشویشناک واقعہ پیش آیا۔ ایک شہری نے حملہ آور کو پستول نکالتے دیکھا تو فوراً اس پر جھپٹا‘ دیگر کئی افراد نے بھی اسے روکنے کی کوشش کی مگر اس دوران ایک برسٹ فائر ہو گیا جس سے ایک شہری اپنے تین بچوں کے سامنے خالقِ حقیقی سے جا ملا جبکہ سابق وزیراعظم عمران خان اور پی ٹی آئی رہنمائوں سمیت چودہ لوگ زخمی ہو گئے۔ اس واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر ایک تصویر دیکھی جو اس وقت سے دل ودماغ پرچھائی ہوئی ہے اورشاید زندگی بھر نہ بھول سکے۔ یہ واقعتاً بے بسی کی تصویرتھی جسے سبق آموز بھی کہا جا سکتا ہے اور عبرتناک بھی۔ یہ تصویر اسی بدنصیب شہری معظم گوندل کی تھی جو لانگ مارچ میں اپنے چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کے سامنے تڑپ تڑپ کر جاں بحق ہو گیا۔ فائرنگ کے اس واقعے کے بعد کئی افراد ہیرو بن گئے اور کئی زیرو ہو گئے۔ عقل یہی کہتی ہے کہ پی ٹی آئی کے اس قافلے میں معظم گوندل سے زیادہ عمران خان کے ساتھ پیار کرنے والا اور چاہنے والا جانثار کوئی دوسرا نہ تھا۔ اکیلا وہی تھا جو اپنے معصوم بچوں سمیت لانگ مارچ میں شریک ہوا تھا اور جب اس نے حملہ آور کو گولیاں چلاتے دیکھے تو چھپ کر جان بچانے کے بجائے حملہ آور کو قابو کرنے کی کوشش کی اور اسی دوران اس کی گردن میں گولی لگی اور وہ موقع پر ہی دم توڑ گیا۔ معظم گوندل شہید کا دس برس کا بیٹا اس سارے واقعے کا چشم دید گواہ تھا۔ وہ میڈیا کے نمائندوں کو بتا رہا تھا کہ سب لوگ بھاگ رہے تھے اور ہم پاپا کو اٹھا رہے تھے لیکن وہ اٹھ نہیں پا رہے تھے‘ پاپا نے عمران خان کو گولی مارنے والے کو پکڑنے کی کوشش کی تھی لیکن اس نے پاپا کو بھی گولی مار دی۔ معظم گوندل جائے وقوعہ یعنی اللہ والا چوک سے لگ بھگ تین کلومیٹر دور واقع علاقے مصطفی آباد کے رہائشی تھے۔ وہ بسلسلہ روزگار کویت میں مقیم تھے اور ایک ہفتہ پہلے ہی چھٹی پر گھر آئے تھے۔ ایک ماہ اپنے بچوں کے ساتھ گزارنے کے بعد انہوں نے واپس کویت چلے جانا تھا مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
ایک خاموش کارکن نے اپنے لیڈر کے لیے اپنی جان کی قربانی دے دی مگر قیادت سمیت پوری پارٹی نے اس کے ساتھ جو سلوک کیا‘ اس کی ساری کہانی بیان کرنے کے لیے بس وہ بلاعنوان تصویر اور چند سیکنڈز کی ایک وڈیو ہی کافی ہیں‘ جو اس وقت سوشل میڈیا پر وائرل ہیں۔ یہ بات تو واضح ہے کہ وہاں موجود ہزاروں لوگوں نے صرف اپنی جان بچائی، پارٹی لیڈران بھی اپنی جان بچانے اور خان صاحب کی مرہم پٹی اور حفاظت پر لگ گئے اور کسی نے تڑپتے معظم گوندل کی طرف مڑ کر بھی نہ دیکھا۔ معظم کے دو بیٹے‘ جن کی عمریں دس سال اور چھ سال ہیں‘ جائے حادثہ پر موجود ‘ایک دوسرے کو پریشان نگاہوں سے دیکھتے ہوئے پریشانی کے عالم میں بار بار اپنے باپ کو پکار رہے تھے مگر ان کی پکار ان کا باپ نہیں سن سکتا تھا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ان معصوم بچوں کی چیخیں کسی سیاسی لیڈر کے کانوں تک نہیں پہنچیں تو وہاں موجود دیگر افراد بھی ان کو نظر انداز کرتے رہے۔ بے شک زندگی اور موت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے لیکن شاید بروقت طبی امداد ملتی تو کم از کم اس کے معصوم بچوں کو وہ اذیت ناک منظر نہ دیکھنا پڑتا۔ جائے وقوعہ پر موجود افراد کے مطابق ایمولینس اس واقعے کے دس منٹ بعد پہنچی تھی۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ جب قافلے کے ساتھ میڈیکل فرسٹ ایڈ کا بھی مکمل بندوبست تھا تو شہید کارکن کو بروقت طبی امداد کیوں نہیں دی گئی؟ کم از کم درجنوں افراد نے کپتان کے اس جانثار کارکن کو تڑپتے دیکھا ہو گا، متعدد نے اس کے بچوں کی چیخ و پکار بھی سنی ہو گی لیکن شاید سب آنکھیں پھیر کر گزر گئے اور کسی نے بھی اس کی جان بچانے کی کوشش نہ کی۔ وہاں موجود ہجوم کی انسانیت تو وہیں دم توڑ گئی تھی۔ اس حادثے کے بعد پی ٹی آئی کے کچھ مقامی لوگوں نے تو معظم کے گھر والوں سے رابطہ کیا اور شہید کے جنازے میں بھی شرکت کی مگر قومی سطح کا کوئی بھی لیڈر نہ جنازے میں شریک ہوا اور نہ ہی مقتول کے بچوں کے پاس گیا۔ اس واقعے کے تین دن بعد جا کر پارٹی قیادت کو ہوش آیا‘ جس کے بعد فواد چودھری، حماد اظہر اور زلفی بخاری معظم گوندل کے گھر پہنچے جہاں ان کے والد سے تعزیت کی اور ملزمان تک پہنچنے کی یقین دہانی کرائی۔ اس موقع پر اعلان کیا گیا کہ شہید کارکن کے بچوں کی کفالت کا ذمہ پارٹی اپنے سر لے گی اور پھر ہفتے کو پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے خود پر ہونے والے قاتلانہ حملے میں جاں بحق ہونے والے کارکن معظم کے بچوں اور اہلِ خانہ سے ملاقات کی اور مقتول معظم کے والد نواز گوندل کو چیک پیش کیے۔عمران خان نے یہ یقین دہانی کرائی کہ شہید معظم کے لواحقین کی مزید مالی معاونت کریں گے جبکہ انہوں نے بچوں کی کفالت کا بھی اعلان کیا۔
یہ بھی خبر آئی ہے کہ پنجاب حکومت نے بھی معظم گوندل کے اہلِ خانہ کو پچاس لاکھ روپے مالی امداد دینے اور بچوں کی کفالت کااعلان کیاہے، لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ اکثر ایسے اعلانات محض اعلانات ہی ثابت ہوتے ہیں اور عملی اقدامات میں نہیں ڈھل سکتے۔ ماضی میں اس طرح کے دعوے رات گئی‘ بات گئی کا مصداق ثابت ہوئے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ سب کچھ بھلا دیا جاتا ہے۔ دوسرا سوال یہ بھی ہے کہ ان معصوم بچوں کی خواہشیں اور فرمائشیں ان کا والد پوری کیا کرتا تھا اور جس طرح عمران خان کی جھلک دکھانے کے لیے اپنے بچوں کو وہ پیار سے وہاں لایا تھا اور اس دوران اپنی جان کی بازی ہار گیا‘ کیا یہ پچاس لاکھ روپے معظم کی بیوہ، یتیم بچوں اور فیملی کے دکھوں کا مداوا کر سکتے ہیں؟ کیا یہ پچاس لاکھ روپے خرچ کر کے وہ معصوم بچے ایک بار بھی اپنے والد کی پیار بھری آواز سن سکتے ہیں؟ نہیں‘ ہرگز نہیں! یہ دنیا اس قدر خودغرض ہے کہ کسی کو اپنے سوا کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ کاش کوئی ہمارے لیڈران کو بتائے کہ وہ جانثار کارکنان جو آپ کی سیاسی تحریکوں‘ لانگ مارچز اور دھرنوں میں اپنی جانوں کی قربانی پیش کرتے ہیں‘ ان کے اہلِ خانہ‘ ان کے یتیم بچوں کو جو حوصلہ آپ کی جانب سے ان کے سر پر ہاتھ رکھنے سے مل سکتا ہے‘ وہ شاید حکومت کے دیے ہوئے پیسوں سے نہیں مل سکتا۔ لانگ مارچ چند دن بعد دوبارہ شروع ہو جائے گا‘ سیاسی گہماگہمیاں بھی عروج پر ہوں گی مگر جس گھر کا واحد کفیل رخصت ہو گیا‘ اس کا پرسانِ حال کون ہو گا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں