تین دہائیوں پہ محیط اپنی صحافتی زندگی میں ایسے بے شمار حادثات اور واقعات کی کوریج اور پورٹنگ کی‘ جن میں بڑی تعداد میں قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع ہوا۔ سابق وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت تو میری آنکھوں کے سامنے کا واقعہ ہے۔ اس خوفناک خودکش دھماکے کے بعد ہر طرف خوفناک مناظر تھے۔ اس کے علاوہ بھی درجنوں خودکش اور بم دھماکوں کی رپورٹنگ کی‘ جن میں متعدد شہادتیں ہوئیں۔ راولپنڈی شہر کے سب سے بڑے شاپنگ سنٹر گگھڑ پلازے میں خوفناک آتشزدگی بھی اپنی آنکھوں سے دیکھی‘ جس کے بعد یہ بلند و بالا عمارت دیکھتے ہی دیکھتے راکھ کا ڈھیر بن گئی اور پھر اسے زمین بوس ہوتے بھی دیکھا۔ اسی دوران وہاں دوسروں کی جان بچانے کے لیے امدادی سرگرمیوں میں مصروف ریسکیو 1122، فائر بریگیڈ اور دیگر اداروں کے متعدد اہلکار و رضاکار جامِ شہادت نوش کر گئے۔ غرض اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران کئی بار قیامت صغریٰ کے مناظر اور موت کو قریب سے دیکھا لیکن دو واقعات بلکہ سانحات ہمیشہ کے لیے دل و دماغ پر نقش ہو چکے ہیں۔ ان واقعات میں آنسوئوں کو روکنا کسی بھی انسان کے لیے ممکن نہیں تھا اور اس کی وجہ ان سانحات میں معصوم بچوں کا بڑی تعداد میں شہید ہونا ہے۔ گزشتہ روز یعنی 16 دسمبر کو پوری قوم سانحۂ مشرقی پاکستان اور سانحۂ آرمی پبلک سکول پشاور کی یادیں تازہ ہونے پر غمگین تھی۔ راقم الحروف کے ذہن کے پردے پر بھی اس حوالے سے دو واقعات فلم کی طرح چلنے لگے جن کی یاد نے پریشان کر کے رکھ دیا۔ آنکھیں نم ہو گئیں اور دل بجھ سا گیا۔
پہلا واقعہ تو وہ قیامت صغریٰ تھی جو 8 اکتوبر 2005ء کی صبح 8 بج کر 50 منٹ پر زلزلے کی صورت میں برپا ہوئی تھی اور جو آج بھی ایک ڈرائونے خواب کی طرح یاد ہے۔ ہفتہ وار چھٹی کے باوجود جب ٹیلی وژن پر ہولناک تباہی کے مناظر دیکھے تو رہا نہ گیا اور دفتر جا پہنچا۔ شمالی علاقہ جات خصوصاً آزادکشمیر سے تباہی و بربادی کی بے شمار خبریں موصول ہو رہی تھیں۔ اس وقت سوشل میڈیا کی ایسی بہتات نہیں تھی جس کے باعث صحیح حالات و واقعات دو روز بعد ہی سامنے آئے اور پھرآزادکشمیر سے سردار سکندر حیات کا رُلا دینے والا بیان سننے کو ملا کہ ''میں تو اب قبرستان کا وزیراعظم رہ گیا ہوں‘‘۔ دو روز بعد دفتر سے ہدایت ملی کہ آپ نے ٹیم کے ہمراہ زلزلے کی رپورٹنگ کے لیے آزاد کشمیر جانا ہے۔ یہ رمضان المبارک کا مہینہ تھا‘ اس لیے سحری و افطاری کے لیے کھجوریں‘ پھل اور منرل واٹر کی بوتلیں وغیرہ گاڑی میں رکھ لیں۔ ماسک اور ڈسپوز ایبل گلوز بھی خرید لیے اور اگلی صبح مظفر آباد روانہ ہو گئے۔ آزادکشمیر پہنچے تو واقعی قیامت صغریٰ کا منظر تھا۔ سردار سکندر حیات کا بیان حقیقت دکھائی دے رہا تھا۔ ہر طرف انسانی نعشیں بکھری پڑی تھیں، تعفن پھیل رہا تھا، کوہالہ پل سے لے کر مظفرآباد شہر تک‘ نہ توکوئی پولیس اہلکار نظر آیا اور نہ ہی کوئی انتظامی افسر دکھائی دیا۔ پاکستانی یا کشمیری حکمران تو دور کی بات‘ کوئی مقامی سیاسی یا عوامی نمائندہ بھی نظر نہ آیا۔ اس سانحے میں 87 ہزار سے زائد افراد جاں بحق، 75 ہزار سے زائد زخمی اور لاکھوں بے گھر ہوئے تھے۔ اس تباہی کو وہی سمجھ سکتا ہے جس نے قیامت کے یہ مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رکھے ہوں۔ کوئی عمارت، کوئی سڑک، کوئی گلی حتیٰ کہ کوئی جگہ ایسی نہ تھی جہاں انسانی نعشوں کے ڈھیر نہ لگے ہوں۔ جب ہم مظفر آباد پہنچے‘ اس وقت تک کوئی امدادی ٹیم وہاں نہیں پہنچی تھی اور نہ ہی امدادی سرگرمیاں شروع ہوئی تھیں۔ قیامت صغریٰ کی اس گھڑی میں سب سے دردناک مناظر وہاں دیکھنے کو ملے جہاں سرکاری یا نجی سکول ہوا کرتے تھے اور جو زلزلے کے سبب زمین بوس ہو کر ننھے فرشتوں کی اجتماعی قبر بن چکے تھے۔ سکولوں کے ملبے میں معصوم طلبہ و طالبات کی کتابیں، کاپیاں، سکول بیگ، شوز، لنچ بکس اور دیگر سامان بکھرا پڑا تھا جو اس امر کی نشاندہی کر رہا تھا کہ ان ننھے بچوں کے والدین اور دیگر عزیز و اقارب بھی قیامت خیز زلزلے میں لقمۂ اجل بن چکے تھے ورنہ وہ کم از کم اپنے بچوں کی نشانیاں وہاں سے ضرور اٹھا لیتے۔ یقین جانیں پورا علاقہ اجڑی ہوئی ویران بستیوں کا منظر پیش کر رہا تھا لیکن جب بھی کسی سکول والی جگہ پر بچوں کی بکھری ہوئی نعشیں اور ان کی کتابیں وغیرہ نظر آتیں تو آنکھوں سے آنسوئوں کا نہ رکنے والا سلسلہ خود بخود جاری ہو جاتا۔
دوسرا واقعہ 16 دسمبر 2014ء کو آرمی پبلک سکول پشاور پر اُن بزدل دہشت گردوں کا حملہ تھا‘ جو ہماری بہادر افواج کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں رکھتے تھے اور اسی لیے انہوں نے ننھے فرشتوں پر حملہ کرکے اپنی بزدلی کا ثبوت پیش کیا۔ بتایا جاتا ہے کہ اس دن پشاور میں بہت ٹھنڈ تھی‘ کچھ بچوں نے ضد کی کہ وہ سکول نہیں جائیں گے لیکن والدین نے انہیں یہ کہتے ہوئے سکول بھیج دیا کہ چند دن تک ویسے ہی سردیوں کی تعطیلات شروع ہو جائیں گی‘ ایسے میں چھٹی کرنا مناسب نہیں۔ بہت سے بچوں کو سکول جانے کی اس لیے جلدی تھی کہ امتحانات کے بعد پرچے چیک ہو رہے تھے اور اس روز ان کا رزلٹ آنا تھا۔ خواتین و مرد اساتذہ اور کالج کا دیگر سٹاف‘ سبھی حسبِ معمول وارسک روڈ پر واقع اے پی ایس پہنچے۔ سکول کی گھنٹی بجی اور سب درس و تدریس میں مشغول ہو گئے۔ عینی شاہدین کے مطابق نو سے دس بجے کے درمیان کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سات دہشت گرد ایف سی (فرنٹیر کور) کی وردیوں میں ملبوس سکول میں پچھلی طرف سے داخل ہوئے اور ہال میں جا کر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ اس کے بعد انہوں نے کلاس رومز کا رخ کیا اور وہاں پر موجود بچوں کو چن چن کر گولیاں ماریں۔ ادارے کی پرنسپل سمیت کئی اساتذہ کو نشانہ بنایا۔ اس دلدوز سانحے میں نو اساتذہ اور تین فوجی جوانوں سمیت 144 شہادتیں ہوئیں جبکہ 113 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ شہید ہونے والے 132 بچوں کی عمریں 9 سے 18 سال کے درمیان تھیں۔ پاکستانی آرمی نے آپریشن کرتے ہوئے 950 بچوں و اساتذہ کو سکول سے باحفاظت باہر نکالا۔ ایک دہشت گرد نے خود کو دھماکے سے اڑایا جبکہ دیگر چھ آپریشن میں مارے گئے۔ یہ ملکی تاریخ کا سب سے مہلک دہشت گردانہ حملہ تھا جس نے 2007ء کے کارساز بم دھماکے کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔
مبصرین کے مطابق عسکریت پسندوں کی یہ کارروائی 2004ء میں روس میں ہونے والے بیسلان سکول پر حملے سے ملتی جلتی تھی۔ دہشت گردوں کے حملے کے بعد پندرہ منٹ کے اندر اندر ہی سکول میں آرمی کا آپریشن شروع ہوگیا جس کے تحت اساتذہ اور طالب علموں کو ریسکیو کرنے کا کام شروع ہوا۔ غازی بچوں اور اساتذہ کو حفاظت سے باہر نکال کر سکول سے متصل پارک میں بھیجا گیا۔ پاک فوج نے اس آپریشن کے دوران تمام دہشت گردوں کو جہنم واصل کر دیا۔ یہ خبر پورے ملک میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ ہسپتالوں کے سرد خانوں میں جگہ ختم ہو گئی لیکن شہیدوں کے جسدِ خاکی آنے کا سلسلہ نہ رکا۔ لواحقین نے اس موقع پر بہت صبر اور ہمت دکھائی۔ ان کے حوصلے نے پوری قوم کو نیا ولولہ دیا اور پھر پاک فوج نے یہ عزم کیا کہ اس ملک سے دہشت گردی کے خاردار شجر کو اکھاڑ پھینکیں گے۔ پھر اسی جذبے کو لے کر نیشنل ایکشن پلان کی بنیاد رکھی گئی جس کے بعد آپریشن ضربِ عضب کا دائرہ مزید وسیع کیا گیا اور دہشت گردوں کا ہر ممکن تعاقب کیا گیا۔ اس واقعے کو آٹھ برس بیت چکے ہیں لیکن یہ زخم آج بھی تازہ ہیں۔
ہم ہرسال مذکورہ واقعات کی برسی منا کر اور ننھے شہدا کو زبانی خراجِ تحسین پیش کر کے سمجھتے ہیں کہ ہماری ذمہ داری پوری ہو گئی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم قوم کے اُن تمام بچوں کی تعلیم و تربیت کا بندوبست کریں جو کسی بھی وجہ سے سکول جانے سے محروم ہیں۔ جب امیر و غریب کا ہر بچہ زیورِ تعلیم سے آراستہ ہو گا تو یہی ان بزدل دہشتگردوں کی اصل شکست ہو گی اور اسی صورت میں ننھی شہادتیں رنگ لائیں گی۔ صرف ایک دن کو یوم سیاہ کے طور پر منانا کافی نہیں بلکہ سرکاری و نجی سطح پر تعلیمی سہولتوں کو غریب کے بچوں تک پہنچا کر ہی ہم ننھے شہدا کو صحیح معنوں میں خراجِ تحسین پیش کر سکتے ہیں۔