ملکِ عزیز اس وقت شدید معاشی بحران کا شکار ہے اور حکومت مختلف تدابیر اختیار کر کے اس بحران کی شدت کو کم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ معاشی بحران توانائی بحران سے بھی جڑا ہوا ہے کیونکہ ہر ماہ اربوں ڈالر اُس تیل کی امپورٹ پر خرچ کیے جاتے ہیں جس سے بجلی بنائی جاتی ہے۔ پاکستان میں توانائی بحران کاحل اتنا آسان نہیں! اس کے لیے طویل المدت ٹھوس اقدامات کے ساتھ مؤثر حکمت عملی کی بھی ضرورت ہے۔ بجلی شارٹ فال کے فوری اور آسان حل کے لیے حکومت نے کئی بار سورج کی روشنی کا صحیح استعمال کرنے اور رات کو 70 فیصد غیر ضروری لائٹنگ کی بچت کے لیے کاروباری مراکز رات کوجلدی بند کرنے کے احکامات جاری کیے، کئی بار اس پالیسی پر کامیابی سے عملدرآمد بھی ہوا لیکن پھر نامعلوم سیاسی مصلحتوں کا شکار ہو کر اس مثبت فیصلے پر عملدرآمد روک دیا گیا۔ حالانکہ یہ واحد پالیسی تھی جس سے نہ صرف بجلی کی بچت ہو سکتی ہے بلکہ قوم میں نظم و ضبط بھی پیدا ہو سکتا ہے کیونکہ اس وقت ہماری 80 فیصد مارکیٹیں دوپہر سے پہلے کھلتی ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کم ازکم نصف شب تک تمام بازار اور شاپنگ مالز کھلے رہتے ہیں جس سے بجلی کا لوڈ 70 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔ وفاقی حکومت نے ایک بار پھر ملک بھر میں توانائی بچت پروگرام کے تحت شادی ہالز رات 10 اور مارکیٹیں رات 8 بجے بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ کفایت شعاری کے لیے بھی پلان دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے وفاقی کابینہ کے منعقدہ اجلاس کے بعد وفاقی وزرا نے کہا ہے کہ کفایت شعاری سے متعلق پالیسی تشکیل دی جا رہی ہے، دنیا میں واحد ملک پاکستان ہے جس میں رات دیر تک مارکیٹس کھلی رہتی ہیں، تاجر بھی ہمارے بھائی ہیں، کسی کے ساتھ سختی سے نہیں نمٹا جائے گا ۔ توانائی کی بچت کا یہ قومی پروگرام ہے، سنگین معاشی صورتِ حال کے تناظر میں ہمیں اپنی عادتوں میں تبدیلی لانا ہو گی۔ توانائی کی بچت اور کفایت شعاری پروگرام میں ملک کی معاشی نجات ہے، توانائی کی بچت کے سوا ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں، ہمیں اپنے وسائل کے ضیاع کو روکنا ہو گا۔ نئی پالیسی کے تحت سرکاری اداروں میں 20 فیصد افرادی قوت گھر سے کام کرے تو 56 ارب روپے کی بچت ہو گی، نئی پالیسی سے 62 ارب روپے کی بچت ہو گی۔ پرانے پنکھے 120 سے 130 واٹ بجلی استعمال کرتے ہیں جبکہ نئے پنکھے تقریباً 40 سے 60 واٹ بجلی استعمال کرتے ہیں۔ ان پنکھوں کے استعمال سے 15 ارب روپے کی بچت ہو سکتی ہے۔ ایل ای ڈی بلب کے استعمال سے 23 ارب روپے کی بچت ہو گی، گھروں میں پنکھے اور ایئرکنڈیشنڈ کے استعمال میں بچت سے 8 سے 9 ہزار میگاواٹ بجلی بچائی جا سکتی ہے۔ کپیسٹی پیمنٹس کی مد میں 28 ارب ماہانہ بچت ہو گی، گیس فراہم کرنے والی کمپنیاں گیزر کے لیے بچت کے آلات فراہم کریں گی، جس سے 92 ارب روپے سالانہ کی بچت ہو گی۔ متبادل سٹریٹ لائٹس جلانے سے 4 ارب روپے کی بچت ہو گی، ای بائیکس متعارف کرائی جا رہی ہیں، محدود مدت کے اندر یہ موٹر سائیکلیں مارکیٹ میں آ جائیں گی۔ ان کی امپورٹ بھی شروع ہو چکی ہے جبکہ موٹر سائیکل کمپنیوں کے ساتھ بھی اس حوالے سے بات چیت جاری ہے۔ ای بائیکس آنے سے 86 ارب روپے کی بچت ہو گی۔ وفاقی وزرا کا کہنا ہے کہ ہماری ان تجاویز کو مثبت طرح سے دیکھا جائے، یہ اقدامات ناگزیر ہیں‘ ان کے علاوہ اور کوئی حل نہیں، بجلی پیدا کرنے کے لیے کارخانوں میں جو کوئلہ استعمال ہوتا ہے وہ بہت مہنگا ہے، ہم ایک ایک ڈالر بچا رہے ہیں، ملک و قوم کو اس وقت بہت مشکل حالات کا سامنا ہے۔
ہمارا دینِ اسلام بھی ہمیں صبح سویرے کام کاج کے لیے نکلنے کا حکم دیتا ہے اور دن کی روشنی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرنے کی ترغیب دیتا ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ دنیا کے کئی غیر مسلم ممالک نے بعض اسلامی اصولوں کو اپنی عملی زندگی میں اپنا کر دنیاوی ترقی و کامیابی حاصل کرلی لیکن ہم مسلمان اور حاملِ قرآن ہو کر بھی اسلامی اصولوں سے دور ہوتے جا رہے ہیں اور یہی ہمارے بحرانوں کا سبب ہے۔ ہمارے ملک میں دوپہر بارہ بجے سے پہلے تو کوئی مارکیٹ کھلتی ہی نہیں‘ یہی وجہ ہے کہ اب شہریوں کی اکثریت صبح یا دن کے بجائے رات کو مغرب یا عشا کے بعد خریداری کے لیے بازاروں کا رخ کرتی ہے۔ اس وقت تک وہ دن بھر کے کاموں سے فارغ ہو چکے ہوتے ہیں اور ان کے پاس تسلی سے خریداری کا وقت ہوتا ہے۔ دوسرا‘ رات کو رنگ برنگی روشنیاں بھی اپنے دلکش نظاروں سے گاہکوں کی توجہ کا مرکز بنتی ہیں۔ راقم الحروف نے پہلے بھی اپنے ایک کالم میں اس بات کا ذکرکیا تھا کہ 2016ء میں مجھے ویتنام جانے کا موقع ملا تھا۔ یہ ملک طویل امریکی جنگ نے تباہ کر دیا تھا۔ وہاں کے باشندوں کا مذہب بت پرستی ہے لیکن ان لوگوں نے اپنی زندگی میں بعض اچھے (اسلامی) اصول اپنا رکھے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ دنیاوی ترقی کے زینے چڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ وہاں دیکھا کہ وہ لوگ ایمان کی روشنی سے تو محروم ہیں لیکن دن کی روشنی کا استعمال خوب جانتے ہیں۔ وہ فجر کی نماز کے بارے تو نہیں جانتے لیکن سحری کے وقت اٹھنا ان کا قومی معمول ہے اور منہ اندھیرے (علی الصباح) ہی کام و کاروبار کے لیے گھروں سے نکل پڑتے ہیں۔ پوری قوم سورج نکلنے سے پہلے ہی اپنے کام کا آغاز کر چکی ہوتی ہے۔ اسی طرح نوکری پیشہ مرد و خواتین بھی صبح سات بجے سے پہلے اپنی ڈیوٹیوں پر موجود ہوتے ہیں۔ صبح تازہ دم ہونے کی وجہ سے نہ صرف ان کی کارکردگی بہتر ہوتی ہے بلکہ ہشاش بشاش چہرے خوش اخلاقی کا تاثر بھی دیتے ہیں۔ وہاںطلوعِ آفتاب سے پہلے شروع ہونے والا کاروبارِ زندگی سورج کے غروب ہونے سے پہلے ہی ختم ہو جاتا ہے اور شام سے پہلے پہلے تمام لوگ اپنا اپنا کام ختم کرکے گھروں میں پہنچ جاتے ہیں۔ شام کے بعد کوئی بازار یا شاپنگ مال کھلا نہیں ملتا‘ اس لیے جس کسی نے بھی جو چیز خریدنی ہو‘ وہ دن کو ہی خریداری کر لیتا ہے کیونکہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ شام کے بعد صرف ہوٹل یا مساج سنٹر ہی کھلا مل سکتا ہے‘ یا کوئی میڈیکل سٹور وغیرہ۔ عام کاروباری مراکز کہیں کھلے نہیں ملیں گے۔ اس طرح وہ قوم اپنی بجلی کی بچت بھی کر لیتی ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہاں ہم نے ایک لمحے کے لیے بھی بجلی کی لوڈشیڈنگ نہیں دیکھی۔ اس کے برعکس جب سے ہم نے دن کی روشنی کا صحیح استعمال ترک کیا ہے‘ ہماری کل بجلی کی کھپت کا 70 فیصد حصہ رات کو کمرشل لائٹوں پر ضائع ہو جاتا ہے حالانکہ کئی ممالک ایسے ہیں جہاں بجلی کی طلب ہماری بجلی کی پیداوار سے کہیں زیادہ ہے مگر وہاں پر لوڈشیڈنگ نہیں ہوتی کیونکہ وہ دن کی روشنی کو بھی بروئے کار لاتے ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ ہمیں ضرورت کے مطابق بجلی کی پیداوار کے باوجود طویل لوڈشیڈنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
بات رات 8 بجے مارکیٹیں بند کرنے کی ہو رہی تھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ وفاقی حکومت کو چاہئے کہ ملک بھر میں عام مارکیٹ کا نظام الاوقات صبح سات سے شام سات بجے تک کر دے، اس کے بعد صرف ریسٹورنٹس اور میڈیکل سٹورز ہی کو کھلا رہنے کی اجازت دی جائے۔ کریانہ سٹورز بھی شام سات بجے بند کر دیے جائیں۔ مارکیٹوں کا وقت تبدیل ہو گا تو لوگ خودبخود اپنی خریداری کا وقت بھی ٹھیک کر لیں گے۔ اس سے قوم میں نظم و ضبط پیدا ہوگا اور توانائی کا بحران بھی حل ہو جائے گا۔ وزیراعظم شہباز شریف اور ان کے اتحادیوں نے جب سے نظام حکومت سنبھالا ہے‘ انہیں معیشت اور توانائی کے بحرانوں نے کمر سیدھی کرنے کا موقع ہی نہیں دیا۔ وفاقی حکومت کا مجوزہ توانائی بچت اور کفایت شعاری منصوبے کے تحت کاروباری مراکز جلد بند کرنے کا فیصلہ لوڈشیڈنگ سے نجات کے ساتھ قوم میں ڈسپلن بھی پیدا کرے گا۔ اگر ہم دن کی روشنی کا صحیح استعمال کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو یہی ہماری قومی ترقی کی ٹھوس ابتدا ہو گی۔ حکومت کی مذکورہ بالا پالیسی خوش آئند ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس پر قومی اتفاقِ رائے کس حد تک پیدا کیا جا سکتا ہے؟ کاش ایسا مستقل طور پر ہو جائے اور ہماری قوم میں ایک نظم و ضبط بھی پیدا ہو جائے۔