موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب پاکستان کے چار موسم رفتہ رفتہ دو موسموں یعنی محض گرمی اور سردی تک محدود ہوتے جا رہے ہیں۔ اب موسم گرما میں درجہ حرارت پہلے سے زیادہ ہونے لگا ہے جبکہ موسم سرما میں بھی پہلے سے زیادہ ٹھنڈ، طوفانی بارشیں اور برف باری ہونے لگی ہے۔ گرمی کا دورانیہ طویل ہو گیا ہے جبکہ سرما سمٹ گیا ہے؛ البتہ ان دونوں موسموں کی شدت میں خاصا اضافہ ہو گیا ہے۔ بہار اور خزاں کے موسم تو اب محض چند ہفتوں بلکہ دنوں تک محدود ہوتے جا رہے ہیں۔ اسی موسمیاتی تبدیلی کے باعث گزشتہ برس ہمارے ملک میں تباہ کن سیلاب آیا تھا جس کے نقصانات کا ازالہ کئی دہائیوں تک بھی مشکل نظر آتا ہے۔ اس وقت بھی کئی سیلاب زدگان کھلے آسمان تلے بیٹھے اہلِ وطن کی مدد کے منتظر ہیں۔
جہاں تک موسم گرما کی بات ہے تو شدید گرمی میں امیروں کے لیے تو ایئرکنڈیشنڈ گاڑیاں، دفاتر، گھر، ہوٹل‘ غرض ہر جگہ راوی سکون ہی سکون لکھتا ہے جبکہ غریب آدمی گرمی میں کسی چھائوں کے نیچے کچھ دیر آرام کرکے گزارا کر لیتا ہے۔ آج کل سردی کی شدت میں جس قدر تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے‘ اب بارشوں اور برف باری کے نئے سلسلے شروع ہو رہے ہیں‘ ان حالات میں غریبوں کی مشکلات بھی کافی بڑھ گئی ہیں۔ امیر آدمی تو سردیوں میں بھی کچھ نہ کچھ بندوبست کر لیتا ہے، گھر اور گاڑی میں ہیٹر کے علاوہ موسم کی ضرورت کے مطابق گرم ملبوسات بھی خرید سکتا ہے لیکن غریب آدمی کے لیے تو آج کل گیس و بجلی کے بل اور دو وقت کی روٹی کے لیے آٹا پورا کرنا ہی مشکل ہو چکا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو موجودہ صورت حال میں غریبوں کے بچے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں، بچوں کوصبح سویرے شدید سردی میں سکول و کالج جانا ہوتا ہے۔ عام آدمی کے بچے سخت موسم کا مقابلہ کرنے کے لیے مہنگے گرم ملبوسات خریدنے کی سکت نہیں رکھتے۔ سکول یونیفارم والی جرسی‘ جیکٹ یا کوٹ موسم کی شدت کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ امیرزادے تو یونیفارم سے ملتے جلتے گرم ملبوسات خرید سکتے ہیں۔ وہ گھر سے ہیٹر والی گاڑی میں سکول آتے ہیں جبکہ مہنگے سکولوں کے کلاس رومز میں بھی ہیٹر لگے ہوتے ہیں۔ اصل مسئلہ یہاں بھی غریبوں کا ہی ہے جنہیں گرم ملبوسات کے لیے لنڈا بازار کا رخ کرنا پڑتا ہے اور وہاں اپنی پسند اور یونیفارم سے ملتے جلتے رنگ اگر قسمت سے مل جائیں تو مل جائیں‘ وگرنہ عام طور پر لنڈا بازار میں رنگ برنگا مال ہی دستیاب ہوتا ہے‘ جو یونیفارم سے مطابقت نہیں رکھتا۔
آج کل ایک عام شکایت سننے میں آ رہی ہے کہ بعض چھوٹے تعلیمی ادارے اپنے طلبہ و طالبات کو مجبور کرتے ہیں کہ صرف یونیفارم والی جیکٹ یا کوٹ پہن کر ہی سکول آئیں، ان نجی سکولوں کے یونیفارم اوپن مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہوتے لہٰذا والدین سکول کے اندر موجود شاپس سے ہی مہنگے داموں یونیفارم خریدنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض سکولوں کی انتظامیہ اور ٹیچرز بچوں کو سردی سے بچائو کے لیے کسی دوسرے رنگ کی جیکٹ یا جرسی پہننے کی اجازت نہیں دیتے جس کی وجہ سے غریب بچے بیمار ہو جاتے ہیں۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں اساتذہ کرام حالات و واقعات کے مطابق کمپرومائز کر لیتے ہیں لیکن اصل مسئلہ گلی محلے کے چھوٹے سکولوں کا ہے۔ اب محکمہ سکول ایجوکیشن کی جانب سے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے جس میں تمام (نجی وسرکاری) سکولوں کو ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ یونیفارم سے متعلق پالیسی میں نرمی برتیں اور طلبہ کو کسی بھی رنگ کا سویٹر، جیکٹ، ٹوپی اور جرابیں پہننے کی اجازت دیں۔اس سے یقینا متوسط اور غریب طبقے کو کچھ آسرا ہو گا جو موجودہ معاشی صورتحال میں اپنے بچوں کو مہنگے گرم ملبوسات فراہم نہیں کر سکتے۔ اب اگر سٹوڈنٹس کو سردی سے بچنے کے لیے یونیفارم سے ہٹ کر گرم جیکٹس زیب تن کرنے کی اجازت دی گئی ہے تو امید ہے کہ بچے اس سرد موسم میں احتیاط کا مظاہرہ کریں گے اور سردی میں بیمار نہیں ہوں گے۔ سکولوں کی انتظامیہ اور اساتذہ کو چاہیے کہ اگر کوئی بچہ یونیفارم کے اوپر کسی بھی رنگ کی جرسی‘ کوٹ‘ جیکٹ یا سویٹر پہن کر سکول آتا ہے تو اس کی حوصلہ افزائی کریں تاکہ وہ احساسِ کمتری کا شکار نہ ہو۔
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ امرا کے بچے اکثر نت نئے ڈیزائن کی جیکٹوں اور دیگر گرم ملبوسات کو خرید خرید کر اپنی الماری بھرتے رہتے ہیں جبکہ بیشتر کے پہننے کی کبھی نوبت ہی نہیں آتی۔ فالتو جیکٹیں اور کوٹ وغیرہ الماریوں میں ہی پڑے رہتے ہیں‘ ہمیں چاہیے کہ جوگرم ملبوسات ہمارے استعمال میں نہیں ہیں یا ضرورت سے زائد ہیں‘ وہ اپنے اردگرد، ہمسایوں یا محلے میں رہنے والے غریبوں کو تحفتاً دے دیں تاکہ وہ بھی سردی سے بچ سکیں۔ رواں ہفتے سردی کی شدت میں خاصا اضافہ ہوا ہے، بارشوں اور برف باری کا نیا سلسلہ شروع ہو چکاہے لہٰذا ہمیں پہلی ترجیح میں اپنی ضرورت سے زائد گرم ملبوسات اور جوتے وغیرہ غریبوں میں تقسیم کرنے چاہئیں تاکہ کسی غریب کا بچہ سردی میں ٹھٹھرتا نہ رہ جائے۔
محکمہ موسمیات کے مطابق ملک کے مختلف حصوں میں بارشوں اور برف باری کا نیا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ اسلام آباد میں وقفے وقفے سے بارش کا امکان ہے جبکہ بلوچستان کے بیشتر اضلاع میں موسم شدید سرد رہے گا۔ کوئٹہ، ژوب، بارکھان میں بارش جبکہ بلوچستان کے پہاڑوں اور چند دیگر مقامات پر شدید بارش اور برفباری ہو سکتی ہے۔ زیارت، نوکنڈی، چاغی، نوشکی، قلات، دالبندین، ہرنائی، قلعہ سیف اللہ، قلعہ عبداللہ، چمن، مسلم باغ اور پشین میں بارش، مکران کے ساحلی علاقوں میں ہلکی بارش کی توقع ہے۔ پنجاب کے خطہ پوٹھوہار، سرگودھا، میانوالی، خوشاب، لیہ، بھکر، فیصل آباد، ٹوبہ ٹیک سنگھ، جھنگ، گوجرانوالہ، گجرات، حافظ آباد، سیالکوٹ، نارووال، شیخوپورہ، ننکانہ، قصور، ساہیوال، اوکاڑہ اور لاہور میں بھی بارشوں کا امکان ہے۔ مری، گلیات اور گرد و نواح میں درمیانی سے شدید نوعیت کی برفباری کا امکان ہے۔ ڈیرہ غازی خان، مظفر گڑھ، ملتان، خانیوال اور پاکپتن میں ہلکی بارشیں ہو سکتی ہیں۔ سندھ کے بیشتر اضلاع میں موسم سرد اور خشک، خیبر پختونخوا کے بیشتر اضلاع میں بھی بارش اور برفباری کا امکان ہے۔ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے بیشتر علاقوں میں مطلع ابر آلود رہنے اور برفباری کی توقع ہے۔
مذکورہ بالا خبر آپ کے ساتھ شیئر کرنے کا مقصد محض آپ کو یہ بتانا ہے کہ ہر طرف سردی کی شدید لہر ہے۔ عوام کے جان و مال کی حفاظت حکومت کی ذمہ داری تو ہے ہی لیکن ہمارا بھی فرض ہے کہ اپنی استطاعت و استعداد کے مطابق اپنے عزیز و اقارب، دوستوں، رشتہ داروں اور محلے داروں کی اس طریقے سے مدد کریں کہ ان کی عزتِ نفس بھی مجروح نہ ہو اور وہ سرد موسم کی شدت سے بھی بچ جائیں۔ صاحبِ حیثیت اور مخیر حضرات کو چاہیے کہ اپنے علاقے میں غریبوں کی ضروریات پوری کرنے کی کوشش کریں۔ خصوصاً سیلاب سے متاثرہ اور شدید برفباری والے علاقوں میں زیادہ سے زیادہ گرم ملبوسات، راشن، خشک میوہ جات اور دیگر اشیائے ضروریہ پہنچائیں۔ فلاحی اداروں کو اپنی سرگرمیاں مزید تیزکر کے جلد از جلد متاثرہ علاقوں میں امدادی اشیا پہنچانی چاہئیں جبکہ حکومتی و انتظامی عہدوں پر براجمان اربابِ اختیار کو بھی چاہیے کہ اشیائے ضروریہ کی تقسیم میں شفافیت کا خیال رکھیں اور اس عمل کواتنا پیچیدہ نہ بنائیں کہ امداد پہنچنے سے پہلے ہی کوئی غریب سردی کی شدت کا شکار ہو جائے۔
حکومت کو چاہیے کہ کم از کم ایک ماہ کے لیے گرم ملبوسات اور لنڈے کے سامان پر ٹیکس چھوٹ دے تاکہ مہنگائی کی چکی میں پسنے والا عام آدمی اپنے اور اپنے خاندان کے سردی سے بچائو کابندوبست کر سکے۔ دوسری جانب ہمیں یہ امر بھی پیشِ نظر رکھنا چاہیے کہ اگر ہماری ضرورت سے زائد گرم ملبوسات الماریوں میں ہی پڑے رہیں گے تو وہ خراب ہی ہوں گے لہٰذا بہتر یہی ہے کہ ہم انہیں دوسروں کو تحفتاً دے کر بدلے میں اپنی آخرت کے لیے کچھ سامان کر لیں۔