پاکستان میں آج بھی سچے، کھرے، ایماندار اور جمہوریت پسند سیاستدان موجود ہیں لیکن مجموعی طور پر اگر ہم قومی سیاست کاجائزہ لیں تو بدقسمتی سے ہر کوئی اپنے مفادات کے گرد گھومتا نظر آتا ہے۔ سابق وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کی بات درست دکھائی دیتی ہے کہ پاکستانی سیاست دان ہمیشہ مفاد کی سیاست کرتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آج کل کسی بھی لیڈر، کسی بھی جماعت یا کسی بھی سیاسی اتحاد کو نہ تو جمہوریت کی پروا ہے اور نہ ہی قومی معیشت کا خیال ہے۔ کسی کو بھی عوامی مسائل حل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے اور نہ ہی کسی کو ملک میں جاری توانائی بحران پر قابو پانے کی فکر ہے۔ ہر کوئی اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے، اپنا اقتدار بچانے، مخالفین کو نیچا دکھانے اور انہیں جیلوں میں بند کرنے کا خواہش مند نظر آتا ہے۔ اپنے ان مقاصد کے لیے بعض اوقات وہ ملکی مفادات کو بھی دائو پر لگانے سے گریز نہیں کرتا۔ حقیقت یہی ہے کہ اس وقت ہماری سیاست جھوٹ، فریب، الزام تراشی، مخالفت برائے مخالفت، لوٹ مار اور مال بنائو پالیسیوں کے گرد گھومتی نظر آ رہی ہے۔ ہر کوئی شدت سے اقتدار کی کرسی پر بیٹھنے کا متمنی ہے اور مخالفین کا ناطقہ بند کرنا ہی اس کی اولین ترجیح ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکمران طبقات محض یہی چاہتے ہیں کہ ملک کیا‘ دنیا بھر کی ساری دولت ان کے ذاتی اکائونٹس میں منتقل ہو جائے اور پھر ان سے کوئی حساب کتاب بھی نہ لیا جائے جبکہ اپوزیشن چاہتی ہے کہ حکمرانوں کو کرپشن کے مقدمات میں تاحیات نااہل کر کے جیل بھیج دیا جائے اور حکومت ہمیشہ کے لیے ان کے سپرد کر دی جائے۔ اقتدار کی اس رسہ کشی کے باعث عوام مہنگائی، بیروزگاری، لوڈشیڈنگ اور لاقانونیت کی دلدل میں مسلسل دھنستے چلے جا رہے ہیں اور سیاست دان شہریوں کو اس دلدل سے نکالنے کے بجائے میوزیکل چیئر کے کھیل میں مصروف ہیں۔
میاں نواز شریف وزیراعظم تھے تو عمران خان نے بدعنوانی و ناانصافی کے نظام کے خلاف تبدیلی کا نعرہ لگا کر نوجوان نسل کو پکارا۔ انہوں نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ایک سو چھبیس دن کا طویل احتجاجی دھرنا دیا، اس دھرنے نے ایک طرف ترقیاتی عمل کا پہیہ سست کیا اور دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں کو سیاسی طور پر متحرک کرنے میں اہم کردار اداکیا۔ احتجاجی دھرنے کے دوران عمران خان مسلسل ''امپائر‘‘ کو پکارتے رہے اور اس سے انگلی کھڑی کرنے (مخالفین کو آئوٹ کرنے) کا مطالبہ دہراتے رہے لیکن ملکی ادارے اس سیاسی جھمیلے میں بظاہر غیر جانبدار رہے اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اپنی مدت پوری کی؛ تاہم وزیراعظم میاں نواز شریف عدالتِ عظمیٰ سے پاناما کیس میں نااہل قرار دے دیے گئے جس سے خان صاحب کے لیے ایوانِ اقتدار کا راستہ مزید آسان ہو گیا۔
اس میں کچھ شک نہیں کہ 2018ء کے عام انتخابات میں نوجوان نسل نے تبدیلی سرکار کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا اور پی ٹی آئی نے مرکز کے ساتھ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں بھی حکومت بنا لی جبکہ بلوچستان میں بھی وہ حکومتی اتحاد کا حصہ بنی۔ بعض حلقوں کا ماننا ہے کہ گزشتہ عام انتخابات میں کپتان کو کچھ طاقتوں کی مدد اور معاونت بھی حاصل تھی جس کا اظہار مختلف مواقع پر کیا جاتا رہا ہے۔ الیکٹ ایبلز کو پی ٹی آئی میں شامل کرانا اس مفروضے کو تقویت دیتا ہے۔ بہرکیف‘ تبدیلی کا نعرہ لگا کر اقتدار حاصل کرنے والے چیئرمین پی ٹی آئی‘ وزیراعظم ہائوس میں قدم رکھنے کے بعد انصاف، میرٹ، سادگی اور سرکاری محلات کو جامعات میں تبدیل کرنے کے اپنے وعدوں کو فراموش کر بیٹھے اور ان کی توجہ اور توانائیاں سیاسی مخالفین پر مقدمات قائم کرنے، انہیں جیلوں میں ڈالنے اور نااہل کرانے پر مرکوز نظر آئیں۔ اہم قومی معاملات کو پس پشت ڈال دیا گیا جس سے مہنگائی و بیروزگاری میں اضافہ ہوا، ملکی معیشت کمزور ہوئی اور توانائی بحران پھر سے سر اٹھانے لگا۔ غیر مستحکم اقتصادی صورتِ حال کے باعث آئی ایم ایف نے اپنی شرائط مزید سخت کر دیں اور سٹیٹ بینک کا کنٹرول حکومت کے ہاتھ سے نکل گیا جس کے بعد سے آج تک امریکی ڈالر قابو میں نہیں آ رہا اور اوپن مارکیٹ میں سٹہ مافیا کی من مانیاں جاری ہیں۔
اقتدار کی مسند پر بیٹھ کر خان صاحب ہمیشہ یہی کہتے رہے کہ حکومت اور ملکی ادارے ایک پیج پر ہیں۔ وہ ہمیشہ قومی اداروں کی تعریف کرتے اور سیاسی مخالفین کو آڑے ہاتھوں لیتے۔ 2021ء کے آخر میں ملک کے سیاسی حالات بدلنے لگے۔ اس وقت تک مہنگائی و بیروزگاری کی چکی میں پسنے والے عوام تبدیلی سرکار سے بیزار ہو چکے تھے۔ متحدہ اپوزیشن نے کپتان کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش کی اور بالآخر انہیں گھر بھیج دیا۔ اس سارے عمل کے دوران پی ٹی آئی نے اداروں سے بار بار رابطہ کرکے مدد طلب کی لیکن جواب ملا کہ وہ مکمل غیر جانبدار ہیں اور سیاست میں کوئی مداخلت نہیں کی جائے گی، سیاست دان اپنے مسائل پارلیمنٹ میں حل کریں اور اداروں کو خواہ مخواہ سیاست میں نہ گھسیٹا جائے۔ یہ صورتحال شاید کپتان کے لیے پریشان کن تھی جس پر انہوں نے ''نیوٹرل‘‘ کی اصطلاح کو آڑے ہاتھوں لیا اور اس پرسخت تنقید کی۔ پی ٹی آئی کی جانب سے اداروں کو سوشل میڈیا پر تنقید کانشانہ بنایا جانے لگا، مختلف قسم کے الزامات عائد کیے گئے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اب انہیں یہ احساس ہوتا نظر آ رہا ہے کہ پاکستانی عوام اپنے ملکی اداروں بالخصوص افواجِ پاکستان سے بے پناہ محبت کرتے ہیں اور من گھڑت الزامات کو کسی طور برداشت نہیں کر سکتے۔
کالم لکھتے ہوئے سابق وزیراعظم عمران خان کا ایک بیان نظر سے گزرا جس میں وہ ایک طرف قومی اداروں سے شکوہ کر رہے ہیں تو دوسری طرف شفاف انتخابات کرانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ لاہور میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ حالات تب بہتر ہوں گے جب سبھی ادارے قانون کی بالادستی کے لیے کام کریں گے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ پنجاب میں اگر ان کا مینڈیٹ کم کرنے کی کوشش کی گئی تو وہ مزاحمت کریں گے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ جنوبی پنجاب کے ہمارے لوگوں کو (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کے لیے کہا جا رہا ہے۔ ایک ایسا سیاستدان‘ جو ایک بڑی سیاسی جماعت کا سربراہ ہو‘ ملک کا وزیراعظم رہ چکا ہو اور ہمیشہ آئین و قانون کی بالادستی کی بات کرتا ہو‘ اس کے منہ سے یہ بات اچھی نہیں لگتی۔ خان صاحب کو علم ہونا چاہیے کہ شفاف انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ذمہ داری ہے‘ یہ دیگر ریاستی اداروں کا کام نہیں ہے۔ ویسے بھی کل تک بیانیہ کچھ اور تھا۔ آپ کہہ رہے تھے کہ اگر ادارے نیوٹرل ہیں تو پھر نیوٹرل ہی رہیں۔ ایک طرف آپ جمہوریت کی بات کرتے ہیں اور قومی اداروں پر سیاسی مداخلت کے الزامات عائد کرتے ہیں اور دوسری طرف خود ہی ان سے غیر جمہوری اور غیرآئینی مطالبات کر رہے ہیں۔
زمینی حقائق کو دیکھ کر یہی کہا جا سکتا ہے کہ سیاست دان اپنے ذاتی مفادات اور اقتدار کے حصول کیلئے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ سیاست دانوں کو عوامی مسائل صرف الیکشن ڈے تک یاد رہتے ہیں۔ جیسے ہی پولنگ کا وقت ختم ہوتا ہے‘ ان کی نئی مصروفیات شروع ہو جاتی ہیں اور اس کے بعد ان کے پاس عام آدمی کیلئے وقت ہی نہیں ہوتا۔ قومی حالات بدلنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ عوام خود کو بدلیں، اپنے حقوق کو سمجھیں اور دلفریب نعروں اور جھوٹے وعدوں کے جھانسے میں نہ آئیں۔ یہ الیکشن کا سال ہے‘ اگر عوام سکھ کا سانس لینا چاہتے ہیں اور ملکی حالات میں بہتری کے خواہاں ہیں تو پھر مفاد پرستوں کو مسترد کر کے ایسے لوگوں کا انتخاب کریں جو اسمبلی میں پہنچ کر اپنی جیب بھرنے کے بجائے عوام کا خیال رکھیں۔ بقول شاعر:
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا