'صبح، دوپہر، شام‘ کی اصطلاح پہلے زیادہ تر طبی نسخوں کے استعمال میں مستعمل تھی لیکن اب یہ ڈالر کے لیے بھی استعمال ہو رہی ہے جس کی قدر روزانہ تین بار تبدیل ہو رہی ہے۔ اس تبدیلی کا مطلب کمی یا بیشی نہیں ہے بلکہ اب تو لگ بھگ ہر روز اضافہ ہی دیکھنے کو مل رہا ہے۔ پاکستانی کرنسی کی قدر آئے روز گرتی چلی جا رہی ہے اور ڈالر مسلسل اونچی اڑان بھرتا ہوا اوپن مارکیٹ میں ٹرپل سنچری کا ہدف عبور کر چکا ہے۔ اسی طرح بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی ہفتہ وار بنیادوں پر رد و بدل کیا جا رہا ہے۔ مزید ستم یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے بجلی اور پٹرول کے نرخوں میں دو یا تین بار بڑا اضافہ کیا جاتا ہے اور پھر تین‘ چار مہینوں میں ایک بار اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف عوام کو معمولی سا ریلیف دے دیا جاتا ہے ، یعنی تیس سے چالیس فیصد تک اضافہ کرنے کے بعد دو‘ تین فیصد کمی کرکے حاتم طائی کی قبر پر لات مارنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بجلی، گیس، پٹرول، ڈیزل اور ڈالر مسلسل مہنگے ہوتے جا رہے ہیں اور یہی وہ عوامل ہیں جن کی بنیاد پر ہر شے کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے۔ بجلی اور گیس مہنگی ہوتی ہے تو اس کا اثر تمام صنعتوں پر پڑتا ہے، ہر چیز کی لاگت بڑھ جاتی ہے لہٰذا قیمت میں اضافہ تو ہونا ہی ہے۔ اسی طرح جب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو نقل و حمل اور رسد کی لاگت اور کرایہ وغیرہ بڑھتا ہے اور پھر سبزیوں اور پھلوں سمیت ہر چیز پر اس کا اثر پڑتا ہے۔ اسی طرح سیمنٹ اور سریا سمیت تعمیراتی میٹریل کی لاگت بھی بڑھ جاتی ہے۔ غرض تمام اشیائے ضروریہ کے نرخ بڑھ جاتے ہیں اور 'روٹی، کپڑا اور مکان‘ غریب کی دسترس سے باہر ہو جاتے ہیں۔
پہلے جب ملک کے اندر اشیائے ضروریہ کی قلت پیدا ہو جاتی تھی یا کسی بھی وجہ سے ان کی قیمتیں بڑھنے لگتی تھیں تو بیرونِ ملک سے وہ چیز درآمد کرکے طلب و رسد کا فرق ختم کیا جاتا تھا لیکن اب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ڈالر روز بروز مہنگا ہونے اور زرمبادلہ کے ذخائر نہ ہونے سے امپورٹس بھی بند ہو چکی ہیں۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں‘ جمعے کے اخبارات کی شہ سرخیاں ہی دیکھ لیں۔ ''پاکستان میں ڈالر کی انٹربینک قیمت میں اچانک 18 روپے سے زائد کا اضافہ دیکھا گیا جو پاکستانی کرنسی کی قدر میں ساڑھے چھ فیصد سے زیادہ کمی کے مترادف ہے۔ ڈالر کی قدر میں اضافے کا سلسلہ دو روز قبل ہی شروع ہو گیا تھا اور یکم مارچ کو کاروبار کے اختتام پر ڈالر کا پاکستان میں انٹربینک ریٹ چار روپے اضافے کے بعد 266 روپے 11 پیسے تھا؛ تاہم جمعرات کو مارکیٹ کھلتے ہی ڈالر کی قدر میں تیزی سے اضافہ ہونا شروع ہوا اور چند ہی گھنٹے میں ایک ڈالر کی قیمت انٹر بینک میں تقریباً 19 روپے اضافے کے بعد 285 روپے تک پہنچ گئی جو ملکی تاریخ میں ایک نیا ریکارڈ ہے۔ اس طرح جمعرات کو کاروبار کے اختتام پر ڈالر کا ریٹ 285.09 پر بند ہوا۔ یہی نہیں بلکہ اوپن مارکیٹ میں ایک ڈالر 300 روپے سے بھی زیادہ میں فروخت ہوا اور اب بعض شہروں میں ڈالر 320 روپے میں بھی نہیں مل رہا‘‘۔
ڈالر کی قدر میں اضافہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب پاکستان سنگین معاشی بحران سے دوچار ہے اور ملک میں زرمبادلہ کے ذخائر چار ارب ڈالر سے بھی کم رہ گئے ہیں۔ دوسری جانب حکومت اس بحران سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب دیکھ رہی ہے۔ جنوری کے آخر میں پاکستان میں زرِ مبادلہ کی ایکسچینج کمپنیوں نے اعلان کیا تھا کہ ڈالر کی قیمت پر لگایا جانے والا مصنوعی کیپ ختم کر دیا گیا ہے جس کے بعد کرنسی مارکیٹ میں کچھ استحکام دیکھنے کو ملا تھا اور آئی ایم ایف کی ٹیم کے دورۂ پاکستان کے بعد روپے کی قدر میں کچھ اضافہ بھی دیکھا گیا تھا؛ تاہم اس دورے کے بعد اب تک آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کے قرض پروگرام کے حوالے سے معاہدے کے بارے میں کوئی اعلان سامنے نہیں آیا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے گزشتہ ہفتے یہ کہا گیا تھا کہ آئی ایم ایف سے معاہدے میں مزید کچھ وقت لگے گا۔ ماہرینِ معاشیات کا کہنا ہے کہ یہی غیر یقینی صورت حال مارکیٹ پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ حکومت آئی ایم ایف کو مالی مدد کے لیے منا پائے گی یا نہیں‘ یہ ایک بہت بڑا سوال ہے۔ علاوہ ازیں ملک میں اس خدشے کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے کہ روپے کی قدر میں کمی کے معیشت اور ایک عام آدمی پر کتنے گہرے اثرات پڑیں گے اور آیا روپے کی قدر بحال ہو بھی سکتی ہے؟
ڈالر کی قیمت میں اضافے کے بعد صرافہ بازار میں سونے کی قیمت کو بھی پَر لگ گئے جو بڑھ کر ایک بار پھر 2 لاکھ روپے سے تجاوز کر گئی۔ آل پاکستان جیمز اینڈ جیولرز ایسوسی ایشن کے مطابق ڈالر کی قیمت بڑھنے کے بعد ملک میں فی تولہ سونے کا دام 9400 روپے بڑھ گیا، اس اضافے کے بعد ملک میں فی تولہ سونا ایک مرتبہ پھر دو لاکھ سے تجاوز کر کے 2 لاکھ 6 ہزار 500 روپے کا ہوگیا، اسی طرح 10 گرام سونے کا بھائو 8058 روپے بڑھ کر ایک لاکھ 77 ہزار 40 روپے ہو گیا۔ عالمی صرافہ بازار میں سونے کا دام 27 ڈالر اضافے کے بعد 1837 ڈالر فی اونس ہو گیا ہے۔ اگر بجلی، گیس، پٹرول اور ڈالر کی قیمتوں میں مسلسل اضافے سے صرف امیر طبقہ متاثر ہوتا تو شاید اتنا فرق نہ پڑتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کا براہِ راست اثر وطن عزیز کے عام آدمی یعنی غریب شہریوں پر پڑتا ہے کیونکہ جب بھی کوئی چیز مہنگی ہوتی ہے تو صنعتکار اور تاجر اپنا منافع کم نہیں کرتے بلکہ وہ قیمت میں اسی تناسب سے اضافہ کرکے اس کا سارا بوجھ عام صارف پر ڈال دیتے ہیں۔ ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن کے ذرائع کے مطابق امریکی ڈالرکی قدر میں حالیہ اضافے کی بنیادی وجہ آئی ایم ایف کی نئی شرائط ہیں۔ ان میں سے ایک بڑی شرط یہ ہے کہ افغانستان کے ساتھ جس ریٹ پر ڈالر کی ٹریڈ ہو رہی ہے‘ اس کے مطابق انٹربینک ڈالر کا ریٹ طے کیا جائے۔ دوسرے لفظوں میں آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ جو گرے مارکیٹ کا ریٹ ہے‘ وہی ڈالر کا اصل ریٹ ہے اور بینکنگ چینلز میں ڈالر کا وہی ریٹ ہونا چاہیے جو گرے مارکیٹ میں ہے۔
زمینی حقائق بتا رہے ہیں کہ ملکی معیشت اس وقت تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے اور اس سے براہِ راست عوام متاثر ہو رہے ہیں لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کو اس مہنگائی کی کوئی پروا نہیں۔ حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف‘ یعنی دونوں طرف کے سیاست دان اپنے اپنے مفادات کی جنگ لڑنے میں مصروف ہیں۔ کوئی اپنی حکومت بچانے اور اپنے مفادات کے تحفظ میں لگا ہوا ہے تو کوئی اقتدار میں آنے کے لیے مہم چلا رہا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن‘ دونوں جانب سے مہنگائی کم کرنے کا کوئی ٹھوس فارمولا سامنے آنا تو دور کی بات‘ اس کا ذکر بھی سننے کو نہیں ملتا۔ بات حقائق کی ہو رہی ہے تو یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے عوام اپنے حقوق کی بات نہیں کرتے جس کی وجہ سے سیاست دان بھی مطمئن ہو رہتے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ الیکشن میں کس طرح کے نعروں اور دعووں سے لوگوں کو بیوقوف بنا کر ووٹ لینے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ملک کی سنگین معاشی صورتحال کے باوجود کسی سیاسی جماعت کا ایجنڈا ملک سے مہنگائی و بیروزگاری کا خاتمہ نہیں۔ عوام مہنگائی کی چکی میں اس قدر پِس چکے ہیں کہ شاید اب اپنے حق کی بات کرنے کی سکت بھی نہیں رکھتے، لیکن جب تک لوگ اپنے نمائندوں سے اپنے حق کی بات نہیں کریں گے‘ اس وقت تک یونہی مسائل کے گرداب میں پھنسے رہیں گے۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا