دنیا میں متعدد ایسے ممالک ہیں جو وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بعد آزاد ہوئے لیکن آج وہ ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کے سیاسی و معاشی حالات ہم سے بہت بہتر ہیں، انفراسٹرکچر ہماری نسبت بہت بہترہے، تعلیمی معیار زیادہ بلند ہے، صحت کی سہولتیں جدید ترین ہیں، توانائی جیسے بحرانوں کا بھی انہیں سامنا نہیں، عوام خوشحال ہیں اور معیشت روز بروز ترقی کی جانب گامزن ہے جبکہ ہمارا ملک اپنے قیام کے 75 برس بعد بھی ترقی کی شاہراہ پر گامزن نہیں ہو سکا ہے بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ابھی تک ہم ایک منظم قوم ہی نہیں بن سکے۔ ہم آج تک نہ تو اپنے حقوق جان سکے ہیں اور نہ ہی اپنے فرائض سمجھ پائے ہیں۔ ہمارا کوئی نظام یا کوئی پالیسی بھی کامیاب قرار نہیں دی جا سکتی۔ ملک میں ابھی تک نظامِ صحت کا بنیادی ڈھانچہ ہی نہیں بن سکا اور نہ ہی ابھی تک ہم یہ فیصلہ کر سکے ہیں کہ ہم نے اپنے بچوںکو بنیادی تعلیم مادری زبان میں دینی ہے‘ قومی زبان میں یا انٹرنیشنل زبان میں؟ ہم نے اپنا نصاب تعلیم اردو میں پڑھانا ہے یا انگریزی میں؟ ہمارے جیسے اردو میڈیم والوں کی اکثریت ساری زندگی غلطی کے احتمال اور شرمندگی کے خوف سے انگریزی نہیں بول سکتی جبکہ انگلش میڈیم والوں کو اردو کی گنتی تک نہیں آتی۔ سیاسی جماعتیں گزشتہ کئی دہائیوں سے اپنی انتخابی مہم کے دوران ملک میں یکساں نظام تعلیم رائج کرنے کے دعوے اور وعدے تو کرتی رہی ہیں لیکن برسر اقتدار آ کر وہ یہ سب کچھ بھول جاتی ہیں۔ پھر ان کی ترجیحات ہی یکسر تبدیل ہو جاتی ہیں۔ امیروں کے بچے میرٹ پر نہ بھی آئیں تو سیلف فنانس سکیم کے تحت کسی بھی من پسند مضمون میں اعلیٰ ڈگری لے سکتے ہیں جبکہ پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پسنے والے غریبوں کے بچوں کو میرٹ پر آنے کے باوجود اچھے اداروں میں انٹری ٹیسٹ کے نام پر ہی باہر کر دیا جاتا ہے۔ اگر کہیں انہیں داخلہ مل بھی جائے تو عام آدمی کے لیے اپنے بچوں کے تعلیمی اخراجات پورے کرنا محال ہو جاتا ہے۔ نجی اداروں نے تو بلڈنگ سے لے کر عملے کی تنخواہوں تک بھاری اخراجات پورے کرنا ہوتے ہیں‘ اس لیے پرائیویٹ اداروں کی فیسیں کی تو سمجھ آتی ہے لیکن سرکاری جامعات کی فیسیں کیوں عام شہریوں کی پہنچ سے باہر ہوتی جا رہی ہیں؟
اب اگر کوئی شخص اپنے بیٹے یا بیٹی کو فیس کی بچت کے لیے کسی سرکاری سکول یا کالج میں داخل کرائے تو اس کا صرف اتنا ہی فائدہ ہوتا ہے کہ روزانہ صبح بچے پڑھائی کے بہانے گھر سے نکل جاتے ہیں اورعام آدمی اپنے بچوں کو یونیفارم میں دیکھ کر ایک عرصہ تک مطمئن ہو جاتا ہے کہ اس کی اولاد تعلیم حاصل کر رہی ہے لیکن حقیقت میں تین چوتھائی سرکاری تعلیمی اداروں کی حالت ناقابلِ بیان ہو چکی ہے۔ اکثر اساتذہ اپنے فرائضِ منصبی کے برعکس محض سرکاری ملازم کی حیثیت سے سال بھر یونین بازی اور سیاسی سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں۔ سرکاری کالجوں کے طلبہ کی تھوڑی سی تعداد ہی اپنی مطلوبہ ڈگری حاصل کرنے میں کامیاب ہو پاتی ہے۔ علاوہ ازیں تعلیمی اداروں میں آئے روز کے لڑائی جھگڑوں کے واقعات الگ ہیں اور ملک کا کوئی ایک صوبہ بھی ان سے محفوظ نہیں ہے۔ ملک میں صرف طبقاتی نظام تعلیم ہی مسئلہ نہیں ہے بلکہ اب ہر شعبۂ زندگی میں دہرا معیار، تفریق اور تخصیص پائی جاتی ہے۔ غریب کے بچے کو پبلک پارکوں میں نصب اچھے جھولوں پر بھی بیٹھنا نصیب نہیں ہوتا۔ کسی قدیمی پارک کے ٹوٹے ہوئے بوسیدہ اور زنگ آلود جھولوں پر کھیلنا ہی ان کی قسمت میں لکھا رہ گیا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اب تو قبرستانوں میں بھی عوام اورخواص کی تفریق ہونے لگی ہے، عام قبرستان میں خودرو جھاڑیوں میں اپنے پیاروں کی قبر تلاش کرنا آسان کام نہیں رہا جبکہ اکثر اوقات قبرستانوں میں جانور قبروں کی بے حرمتی کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں۔ اس کے برعکس پوش علاقوں کے قبرستانوں میں قبر کے لیے بھی پلاٹ نمبر الاٹ کیا جاتا ہے اور وہاں صفائی ستھرائی اور دیکھ بھال کیلئے ہر وقت گورکن موجود رہتے ہیں۔ صحت کی سہولتوں کی تفصیلات میں جائیں تو ملک میں اربوں روپے کی لاگت سے بننے والے متعدد ہسپتال صرف اس لیے کئی برس تک کھنڈر عمارت کی شکل اختیار کیے رہتے ہیں کہ حاکم وقت کو یہ خدشہ لاحق رہتا ہے کہ اگر یہ ہسپتال فعال ہو گیا تو اس کا کریڈٹ کہیں پچھلی حکومتوں اور سابق حکمرانوں کو نہ مل جائے۔
سیاست دانوں کے انتخابی نعرے اور وعدے ہوتے ہی الیکشن جیتنے اور حصولِ اقتدار کے لیے ہیں۔ میں پہلے بھی اپنے کئی کالموں میں مثالوں کے ساتھ یہ بات بیان کر چکا ہوں کہ سیاست دان ہمیشہ اپنا مفاد مقدم رکھتا ہے، وہ قوم کے اجتماعی مفاد کے بجائے ذاتی معاملات کو ترجیح دیتا ہے اور اس مقصد کے لیے سچ و جھوٹ، حلال و حرام، اچھائی و برائی، آئین و قانون اور شہرت یا بدنامی سمیت کسی بات کی پروا نہیں کی جاتی۔ یہ سب نے دیکھ رکھا ہے کہ سیاست دان جب چاہیں‘ اپنی بات سے مکر جاتے ہیں‘ جب چاہیں اقتدار کے لیے زندگی بھر کے محسنوں کو بھول جاتے ہیں اور اپنے بدترین سیاسی مخالفین سے اتحاد کر لیتے ہیں لیکن عوام ہیں کہ کبھی اپنے حقوق کے بارے میں سنجیدہ ہوکر نہیں سوچتے۔ کبھی اس بات پر غور نہیں کرتے کہ پارلیمنٹیرینز کی تنخواہوں میں کس تناسب سے اضافہ ہو رہا ہے اورعام سرکاری ملازم کی تنخواہ کتنے فیصد بڑھی ہے؟ ارکانِ اسمبلی و ممبرانِ سینیٹ کو سالانہ ہوائی جہاز کے کتنے ٹکٹس مفت ملتے ہیں اور غریب کے لیے چلنے والی میٹرو بس کی سبسڈی کیوں بتدریج ختم کر دی جاتی ہے؟ حکمرانوں کو سرکاری خرچ پر بیرونِ ملک سمیت ملک کے اندر بھی علاج و معالجہ کی اعلیٰ درجے کی بہترین سہولتیں میسر ہیں اور غریب مریضوں کو ایمرجنسی میں بھی ادویات اور طبی آلات کیوں میسر نہیں آ پاتے؟ اگر ایک حکومت عوام کوکوئی ریلیف دیتی ہے تو اگلی حکومت ہاتھ دھو کر اس منصوبے کے پیچھے کیوں پڑ جاتی ہے؟ جب کوئی وی آئی پی حرکت کرتا ہے تو ایمبولینس تک اس کے سکواڈ کا حصہ ہوتی ہے، اس کے برعکس غریب عوام کے لیے بنائے گئے سرکاری ہسپتالوں کی ایمرجنسی اور او پی ڈیز میں ڈاکٹرز جبکہ سرکاری تعلیمی اداروں میں اساتذہ محض سیاسی بنیادوں پر آئے روز ہڑتال کیے رہتے ہیں‘ ایک ہی ملک میں‘ ایک ہی معاشرے میں یہ تضاد کیوں ہے؟
ہمیں آزادی کے 75 برس بعد بھی ترقی پذیر بلکہ پسماندہ رکھنے میں جتنا قصور ہمارے سیاست دانوں کا ہے‘ شاید اس سے زیادہ ہم عوام قصوروار ہیں۔ جن سیاسی لیڈروں کی خاطر ہم نے اپنے خاندان، گلی، محلے، علاقے اور شہر میں دشمنیاں تک مول لے رکھی ہیں، جن کی خاطر ہم ایک دوسرے کو برے القابات سے نوازتے ہیں‘ ان سب کا مفاد اور مقصد ایک ہی ہے۔ انہیں صرف اقتدار و اختیار چاہیے۔ اس کے لیے کسی بھی وقت وہ اپنے ووٹروں، پارٹی، منشور حتیٰ کہ قومی مفادات کی قربانی دے سکتے ہیں لیکن عوام ہیں کہ انہی سیاست دانوں کے لیے اپنے ہی دوستوں، محلے داروں اور عزیز و اقارب کے گریبان پہ بھی ہاتھ ڈالنے سے نہیں کتراتے۔ ایک دوسرے کو گالیاں دیتے ہیں، دوستیوں کو دشمنیوں میں بدل لیتے ہیں، اپنے کام و کاروبار کو چھوڑ کر سیاسی جلسوں اور ریلیوں میں وقت برباد کرتے ہیں۔ جب پسندیدہ لیڈران اقتدار میں آ جاتے ہیں تب بھی عوام کا حال نہیں پوچھتے۔ پھر پانچ برس تک عوام گلے شکوے کرتے رہتے ہیں۔ جب تک ہم اپنے حقوق کو سمجھیں گے نہیں اور اپنے فرائض ذمہ داری سے ادا نہیں کریں گے، اس وقت تک ہمارے حالات یونہی رہیں گے۔ ہمیں سوچنا ہو گا کہ ہم نے اپنا آزاد وطن تو پچھتر سال پہلے حاصل کر لیا لیکن ہم ایک قوم کب بنیں گے؟ 2023ء الیکشن کا سال ہے اور پنجاب میں تو صوبائی اسمبلی کے انتخابات کا پراسیس شروع بھی ہو چکا ہے‘ لہٰذا عوام کے پاس بہترین موقع ہے کہ سیاست دانوں کی ماضی کی کارکردگی کے ساتھ ان کے کردار کو بھی مدنظر رکھیں اور ایسے نمائندوں کو منتخب کریں جو واقعی ایک قوم بننے کے لیے ہماری صحیح رہنمائی کر سکیں اور ملک کو بحرانوں سے نکال کر ترقی کی شاہراہ پر گامزن کر سکیں۔