دہشت گردی کی نئی لہر

سوموار کو سوات کے علاقے کبل میں واقع محکمہ انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے تھانے میں ہونے والے دھماکے میں ہلاکتوں کی تعداد 18 ہو گئی ہے۔ اس واقعے میں 51 افراد زخمی ہوئے۔ آئی جی پولیس خیبر پختونخوا کے مطابق دھماکے میں 10 پولیس اہلکار اور 3 عام شہری شہید ہوئے جبکہ دہشت گردی کے الزام میں قید 5 ملزمان بھی جان سے گئے؛ اگرچہ اس واقعے میں دہشت گردی کے عنصر کے حوالے سے ابھی متضاد اطلاعات ہیں؛ تاہم اتوار کو (عید کے دوسرے دن) لکی مروت میں سکیورٹی فورسز کے ایک آپریشن کے دوران دو خودکش بمباروں نے خود کو اڑا لیا جبکہ فورسز اہلکاروں کی فائرنگ سے تیسرا دہشت گرد مارا گیا جبکہ ایک اہلکار بھی اس آپریشن میں شہید ہوا۔ یہ آپریشن آرمی کے ایک سینئر افسر لیفٹیننٹ کرنل (ر) مقرب خان کی شہادت کے بعد شروع ہوا تھا جنہیں عید والے دن اپنے مہمان خانے میں لوگوں سے عید ملتے ہوئے شہید کر دیا گیا تھا۔ اس سے قبل بھی کے پی اور بلوچستان کے مختلف علاقوں میں امن دشمنوں کی بزدلانہ کارروائیاں سامنے آتی رہی ہیں؛ تاہم سکیورٹی فورسز کی مؤثر کارروائیوں کے نتیجے میں ملک دشمن عناصر دوبارہ محفوظ ٹھکانے نہیں بنا سکے اور اب چھپ کر اِکا دُکا کارروائی کرتے ہیں لیکن اس میں بھی انہیں شکست کا سامنا ہے اور ہمارے بہادر جوان اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے پاک سرزمین کے امن کو خراب کرنے کی سبھی سازشوں کو ناکام بنا رہے ہیں۔
ماضی میں دہشت گردی کے واقعات پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات بلاتردید کی جا سکتی ہے کہ افغان جنگ سے قبل پاکستان انتہائی پُرامن ملک تھا لیکن نائن الیون کے بعد 2001ء میں امریکہ نے ہمارے ہمسایہ ملک افغانستان پر حملے شروع کر دیے، اس جنگ کا مقصد القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی گرفتاری تھا، امریکی فورسز اسامہ کو تو وہاں گرفتار نہ کر سکیں؛ تاہم چند ہفتوں کی لڑائی کے بعد طالبان حکومت کے خاتمے میں ضرور کامیاب ہو گئیں۔ طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد وہاں وسیع جنگ تو نہیں ہوئی؛ تاہم طالبان نے دشمن کے خلاف گوریلا کارروائیاں جاری رکھیں جن سے نمٹنے کیلئے نیٹو فورسز وہاں موجود رہیں۔ یہ لڑائی 2021ء تک جاری رہی۔ اس بیس سالہ جنگ کے دوران پاکستان دہشت گردی کا نشانہ بنا رہا جبکہ دوسری طرف پاکستان سمیت بعض مسلم ممالک کے تعاون سے امریکہ کے طالبان قیادت کے ساتھ مذاکرات بھی ہوتے رہے اور آخرکار 29 فروری 2020ء کو امریکہ اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان ایک معاہدے پر دستخط ہو گئے۔ اس معاہدے کی رو سے امریکی اور نیٹو افواج طالبان کی جانب سے معاہدے کی پاسداری کی صورت میں ایک سال چھ ماہ میں اپنے تمام فوجیوں کو افغانستان سے نکالنے کا فیصلہ کیا۔ دراصل اتحادی افواج کو افغانستان میں بدترین شکست ہو چکی تھی اور طالبان سے معاہدے کا مقصد افغانستان سے نکلنے کے لیے محفوظ راستے کا حصول تھا۔ اگرچہ اس دوران امریکہ میں حکومت کی تبدیلی سے اس معاہدے پر پس و پیش کا مظاہرہ کیا گیا؛ تاہم بائیڈن انتظامیہ نے کچھ مزید مدت کے حصول کے ساتھ اس معاہدے کو تکمیل تک پہنچایا مگر افغانستان سے انخلا کے وقت ایسی عجلت کا مظاہرہ کیا کہ افغان فورسز اور اشرف غنی حکومت طالبان کے ساتھ ریت کی دیوار ثابت ہوئیں اور چند ہی ہفتوں میں پورا افغانستان طالبان کے زیرِ نگیں آ گیا۔
اگر افغان جنگ سے قبل کے پاکستان کا جائزہ لیا جائے تو 2003ء تک پاکستان میں دہشت گردی نہ ہونے کے برابر تھی۔ مجموعی طور پر سال بھر میں 164 اموات ہوئیں جو 2009ء میں لگ بھگ بیس گنا تک بڑھ کر 3318 تک جا پہنچیں۔ پاکستان میں دہشت گردی سے تمام صوبے متاثر ہوئے؛ تاہم سب سے زیادہ واقعات کراچی شہر، بلوچستان اور ملک کے شمال مغربی حصے میں ہوئے۔ 2001ء سے 2011ء کے دوران 35 ہزار سے زائد پاکستانی شہری دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ مجموعی طور پر پاکستان کے اسّی ہزار سے زائد شہری بیس سالہ افغان جنگ کا لقمہ بنے جن میں دس ہزار سے زائد سکیورٹی فورسز اہلکار اور افسران بھی شامل ہیں۔ حکومت پاکستان کے مطابق دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قومی معیشت کو تقریباً 120 بلین ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔ پاکستان میں حملوں کے بعد دہشت گرد افغانستان بھاگ جاتے تھے، افواج پاکستان نے انٹیلی جنس معلومات پر ملک میں دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم کرنے کے ساتھ ساتھ افغان سرحد پر باڑ لگانے کا کام شروع کیا جس سے دشمن کی نقل و حرکت رک گئی اور ملک میں بڑی حد تک امن قائم ہوگیا؛ تاہم بلوچستان کے راستے دہشت گردوں کی آمد و رفت ہوتی رہی اور سرحدی باڑ اکھاڑنے کے اِکا دُکا واقعات بھی پیش آتے رہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2019ء میں پاکستان میں مجموعی طور پر دہشت گردی کے 229 حملوں ہوئے جن میں 357 افراد ہلاک اور 729 زخمی ہوئے۔ 2020ء میں دہشت گردی کے واقعات میں 36 فیصد جبکہ اموات کی شرح میں تقریباً 38 فیصد کمی آئی۔ اگست 2021ء میں افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد دہشت گرد گروپ پاک افغان سرحدی علاقوں میں منتقل ہو گئے اور دونوں ملکوں کو نشانہ بنانے لگے۔ اس سال 2020ء کے مقابلے میں دہشت گردانہ حملوں میں 56 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا اور 300 حملوں میں 395 افراد ہلاک ہوئے جن میں 186 سویلین جبکہ سکیورٹی فورسز کے 192 اہلکار شہید ہوئے۔ 2022ء اس حوالے سے کافی مہلک رہا اور 506 واقعات میں 973 افراد ہلاک اور 741 زخمی ہوئے۔ پاکستانی فوج کی کارروائیوں میں سینکڑوں دہشت گرد مارے گئے، یوں کالعدم ٹی ٹی پی سمیت بعض امن دشمن عناصر نے وطن عزیز میں دوبارہ محدود کارروائیوں کا آغاز کر دیا۔
یہ بات پوری دنیا جانتی ہے کہ پاکستان میں ہونے والی ہرقسم کی دہشت گردی اور تخریب کاری کے پیچھے مرکزی کردار بھارت کا ہوتا ہے۔ حالیہ دہشت گردی کے حوالے سے پاک فوج کے ترجمان ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف چودھری نے کہا ہے کہ بھارت نے رواں سال اب تک 56 مرتبہ سیز فائر کی خلاف ورزیاں کیں، پاکستان نے بھارت کے6 کواڈ کاپٹرز کو مار گرایا، بھارت کی طرف سے فضائی حدود کی 3 خلاف ورزیاں ہوئیں، سکیورٹی فورسز نے 8269 آپریشنز کیے، دہشت گردی کے ناسور سے نمٹنے کیلئے روزانہ کی بنیاد پر 70 سے زائد آپریشنز کیے جا رہے ہیں، رواں برس 137 جوانوں اور افسران نے جامِ شہادت نوش کیا، پاک فوج کی شبانہ روز کاوشوں کے نتیجے میں الحمدللہ آج ملک بھر میں کوئی نوگو ایریا نہیں ہے، اندرونی و بیرونی چیلنجز کے باوجود افواج پاکستان کی قربانیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ وہ علاقے جو دہشت گردی کا شکار تھے اب وہاں اقتصادی سرگرمیاں جاری ہیں۔ میجر جنرل احمد شریف چودھری نے بتایا کہ پشاور مسجد میں خودکش حملے میں ملوث دہشت گردوں کا تعلق افغانستان کے صوبے قندوز سے تھا، اس حملے کے تین ماسٹر مائنڈز حراست میں ہیں، دہشت گردوں کو ٹریننگ افغانستان کے مختلف علاقوں میں دی گئی۔ اس حملے‘ سہولت کاری اور منصوبہ بندی کیلئے 75 لاکھ روپے دیے گئے۔
بلاشبہ افواجِ پاکستان مہارت اور جذبے کے لحاظ سے اپنا ثانی نہیں رکھتیں، ہماری بہادر سکیورٹی فورسز نے لازوال قربانیوں کے بعد ملک میں امن و امان قائم کیا اوردہشت گردوں کا قلع قمع کیا۔ اب دہشت گرد گروہوں کے بچے کھچے عناصر کو کہیں بھاگنے کا راستہ نہیں مل رہا‘ لہٰذا دوبارہ دہشت گردی کے اِکا دُکا واقعات شروع ہو گئے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے سیاستدان (حزب اقتدار و اختلاف) کم از کم اس نازک گھڑی میں دہشت گردوں کے خلاف متحد ہو کر مشترکہ بیان جاری کریں اور جس طرح ہماری قوم قدم قدم پر افواجِ پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑی ہے‘ اسی طرح تمام سیاستدان بھی یک زبان ہو کر ملک دشمنوں کو سخت پیغام دیں۔ سیاسی اختلافات اپنی جگہ لیکن پاک دھرتی کی حفاظت ہم سب کا فرض ہے اور یہاں امن و امان کاقیام ہماری اپنی ضرورت ہے کیونکہ امن ہو گا تو ہی ہم سب بھی پُرسکون زندگی گزار سکیں گے اور اگر خدانخواستہ خوف اور غیر یقینی کی فضا ہوگی تو پھر ہر ایک کیلئے مشکلات ہوں گی۔ سیاسی اختلافات اور ذاتی مفادات پاک سرزمین کے سامنے کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں