برصغیر کے اس حصے (موجودہ پاکستان) میں کھیلوں کے سامان کی تیاری اور پیداوار 1800ء کے آغاز میں ہی شروع ہو گئی تھی۔ یہاں سپورٹس انڈسٹری کی بنیاد انگریز فوج کے ایک سپاہی سردار گنڈا سنگھ نے رکھی تھی، جس نے سیالکوٹ شہر میں کھیلوں کا سامان تیار کرنے والی پہلی فیکٹری قائم کی تھی۔ شروع میں یہ فیکٹری صرف کرکٹ کے بلّے اور پولو سٹک جیسا کھیلوں کا سامان تیار کرتی تھی لیکن بعد ازاں یہاں پر کھیلوں کا یونیفارم بھی تیار کرنا شروع کر دیا گیا۔ سیالکوٹ میں کھیلوں کے سامان کی صنعت نے اس دوران تیزی سے ترقی کی اور اب یہ شہر بین الاقوامی سطح پرسپورٹس گڈز بنانے کے حوالے سے ایک مشہور مرکز بن چکا ہے جبکہ پاکستان کی برآمدات کے حوالے سے بھی یہ اہم شراکت داروں میں سے ایک ہے۔ آج ہم اپنے کالم میں قارئین کے لیے پاکستان میں کھیلوں کی صنعت کے بارے میں کچھ اہم حقائق بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ان پر تبادلۂ خیال کرتے ہیں تاکہ معلوم ہو سکے کہ اس شہر نے عالمی سطح پر پہچان کیسے حاصل کی۔
سیالکوٹ کی کھیلوں کی صنعت جو دو صدیوں سے زیادہ پرانی ہے اور دنیا کے کئی مشہور برانڈز کو سامان فراہم کرتی ہے‘ کے بارے میں کچھ حقائق حیران کن ہیں۔ اس خطے میں کھیلوں کا سامان بہترین خام مال جیسے چمڑے، لکڑی، گوند، نایلان گٹس، ربڑ اور مختلف قسم کے کیمیکلز سے بنایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مال نہ صرف اچھے معیار کا ہوتا ہے بلکہ انتہائی پائیدار بھی ہوتا ہے۔ سپورٹس ہسٹری کا جائزہ لیں تو پاکستان جرمنی، امریکہ، برطانیہ، فرانس اور اٹلی سمیت تقریباً 90 مختلف مغربی و یورپی ممالک کو کھیلوں کا سامان برآمد کرتا ہے، اس طرح ہمارے ملک نے کھیلوں کے سامان کی بین الاقوامی تجارت میں ایک نمایاں مقام حاصل کیا ہے۔ مصنوعات کی رینج میں فٹ بال، والی بال، رگبی، کرکٹ، ہاکی، بیس بال، ٹینس، بیڈمنٹن، اور دیگر کھیلوں کی مختلف اقسام میں استعمال ہونے والے آلات شامل ہیں۔ یہ ساحل سمندر کی گیندیں، جال، دستانے، حفاظتی محافظ، پیڈ اور کھیلوں کے لباس بھی تیار کرتا ہے۔ پاکستان اپنی کھیلوں کی مصنوعات کا ایک بہت بڑا حصہ مشہور بین الاقوامی برانڈز کو برآمد کرتا ہے۔ اعلیٰ معیار اور کم اسیمبلنگ لاگت سے ہمارے ملک نے کئی دہائیوں سے کھیلوں کے سامان کے عالمی تبادلے میں ایک سرکردہ لیڈر کے طور پر اپنی صورتحال کو ناقابلِ یقین حد تک برقرار رکھا ہے۔ پاکستان میں تیار کردہ کھیلوں کا سامان مقامی اور عالمی‘ دونوں برانڈز کو فراہم کیا جاتا ہے۔ جو اشیا برآمد کی جاتی ہیں وہ ایک ٹارگٹڈ مارکیٹ کی شرط کے عین مطابق بنائی جاتی ہیں جو مختلف خطوں کے لحاظ سے مختلف ہو سکتی ہیں۔
پاکستان میں کھیلوں کے سامان کی صنعت کی وجہ سے سیالکوٹ شہر میں کھیلوں کے مقامی مینوفیکچررز کے پورٹ فولیو اور ساکھ میں کافی اضافہ ہوا ہے اور اس میں تنوع آیا ہے۔ فٹ بال، دستانے، اور کھیلوں کے یونیفارم برآمد کیے جانے والے کھیلوں کے کُل سامان میں 80 فیصد یا اس سے بھی زائد ہیں۔ پاکستان میں بننے والے فٹ بالز دنیا بھر میں بین الاقوامی ٹورنامنٹس میں استعمال ہوتے رہے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ 1990ء سے لے کر آج تک پاکستانی تیار کردہ فٹ بال فیفا ورلڈ کپ کا حصہ بنے ہیں تو غلط نہ ہو گا۔ اگرچہ بیچ میں ایک آدھ سال کچھ مسائل درپیش رہے مگر جلد ہی ان پر قابو پا لیا گیا۔ پاکستان کو ورلڈ کپ کے لیے ہاتھ سے سلے ہوئے فٹ بال فراہم کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ قطر میں کھیلے گئے پچھلے فیفا ورلڈکپ میں بھی سیالکوٹ کے بنے ہوئے پاکستانی فٹ بال ہی استعمال ہوئے تھے جو یقینا ہمارے لیے ایک اعزاز کی با ت ہے۔ لیکن دوسری طرف پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال کے باعث بہت بڑے پیمانے پر کام کرنے کے باوجود‘ پاکستان میں کھیلوں کے سامان کی صنعت کو اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے مختلف النوع چیلنجز کا سامنا ہے۔
آج ہم اس بات کا جائزہ لیں گے کہ بڑے چیلنجز کون سے ہیں اور ان پر کیسے قابو پایا جا سکتا ہے۔ ٹیکنالوجی کی کمی سپورٹس گڈز انڈسٹری کو لاحق بڑے خدشات میں سے ایک ہے۔ جدید ترین تکنیکی آلات کا استعمال پیداوار کو تیز کر سکتا ہے، اس طرح اس شعبے کی کارکردگی مزید بہتر ہو سکتی ہے۔ پاکستان میں کھیلوں کے سامان کی تیاری میں دنیا کے ساتھ ایک سنجیدہ مقابلہ پایا جاتا ہے اور ٹیکنالوجی کے مؤثر استعمال کے ساتھ یہ شعبہ اپنے تمام بڑے حریفوں کو پیچھے چھوڑنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ ٹیکنالوجی ہی واحد چیز نہیں ہے جس میں ہماری کھیلوں کے سامان کی صنعت پیچھے ہے، اس شعبے کو توانائی اور ہنرمندمزدوروں کی کمی کا بھی سامنا ہے۔ حکومتی اربابِ بست و کشاد کو ان تمام مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ملک میں کھیلوں کے ساز و سامان کی صنعت کی بقا اور ترقی کے لیے بہت ضروری ہے۔
کورونا کی عالمی وبا کے دوران پاکستانی کھیلوں کے سامان کی برآمدات میں 30 فیصد تک کمی واقع ہوئی تھی جس کے بعد سے اب تک کھیلوں کا سامان تیار کرنے والی صنعت اپنی بحالی کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔ برآمدات میں کمی سے 25 فیصد کارکنوں کا روزگار ختم ہوا اور اگرمعاشی صورتحال میں بہتری نہ آئی اور یہی حال جاری رہا تو خدشہ ہے کہ مزید 25 فیصد کا رکن روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ کووڈ 19 کی وبا کے باعث برآمدی آرڈرز کی معطلی اور منسوخی کی وجہ سے کھیلوں کا سامان تقریباً تین برس تک گوداموں میں پڑا رہا اور ہمارے برآمدی آرڈرز کی وصولی میں 70 فیصد تک کمی ہوئی؛ تاہم یورپ میں چند فٹ بال لیگز اور کرکٹ لیگز کی بحالی سے کچھ بہتری آئی۔ سپورٹس انڈسٹری آج بھی اپنی بحالی کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔ گزشتہ دو‘ تین برسوں کے دوران کھیلوں کے سامان کی برآمد کورونا سے قبل کے ایک ارب ڈالر کے مقابلے میں 700 ملین ڈالر تک کم رہی۔ صنعتی سرگرمیوں میں کمی کے باعث صنعت سے وابستہ ہزاروں کارکنان کا روزگار ختم ہوا ہے۔
پاکستان میں تیار کیا جانے والا کھیلوں کا سامان دنیا بھر کے ممالک کو برآمد کر کے زرمبادلہ کمایا جاتا ہے؛ تاہم کورونا وائرس کی عالمی وبا کے بعد سے سپورٹس کی لوکل انڈسٹری مشکلات کا شکار ہے اور اپنی بحالی کے لیے سخت جدوجہد کر رہی ہے۔ صنعت کی بحالی کے لیے حکومت نے ایک چینی فرم کو لاہور کے اطراف میں 150 ملین ڈالر کا انڈسٹریل پارک بنانے کی اجازت دی ہے۔ چیلنج فیشن انڈسٹریل پارک کے نام سے پنجاب میں اس بڑے پیمانے پر انڈسٹریل اسٹیٹ پروجیکٹ پر کام جاری ہے، اس پیمانے پر چلنے والا صنعتی پارک ملک کی جاب مارکیٹ میں نمایاں طور پر حصہ ڈالنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ چیلنج فیشن انڈسٹریل پارک سے مقامی لوگوں کے لیے تقریباً 10 ہزار سے11 ہزار روزگار کے نئے مواقع پیدا ہونے کی امید ہے۔ اس بڑے پیمانے پر سہولت کو کھیلوں کے یونیفارم کی تیاری کے لیے جدید ترین رنگائی اور کپڑے کی تیاری کے یونٹوں کے ساتھ ڈیزائن کیا گیا ہے، جس سے یہ پاکستان کو کھیلوں کے سامان کی برآمد کا ایک بڑا مرکز بنا دے گا۔
بلاشبہ دنیا بھر میں پاکستانی کھیلوں کا سامان سب سے زیادہ پسند کیا جاتا ہے اور اس کی طلب بھی بہت ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت سپورٹس انڈسٹری کے لیے خصوصی مراعات کا اعلان کرے، ٹیکسوں میں خصوصی رعایت دی جائے تاکہ مقامی کھلاڑی بھی سستا‘ معیاری سامان استعمال کر کے عالمی سطح پر ملک کا نام روشن کر سکیں۔ اب یہی ایک شعبہ رہ گیا ہے جس کے ذریعے ہم اپنی برآمدات کو تیزی سے بڑھا سکتے ہیں کیونکہ اگر حکومت نے توجہ نہ دی تو خدانخواستہ اس صنعت کا حال بھی ٹیکسٹائل جیسا ہو سکتا ہے اور ہمارے آرڈرز ہمسایہ ممالک یا کوئی دوسرا حریف لے سکتا ہے۔ لہٰذا اب بھی وقت ہے کہ اربابِ اختیار توجہ دیں اور کھیلوں کی صنعت کو مزید ترقی دے کر قومی معیشت کو سہارا دینے کی سعی کریں۔ (جاری)