پاکستان بمقابلہ بھارت:صنعت وتجارت اورزراعت…(9)

گزشتہ کالموں میں ہم نے پاکستان کی زراعت، صنعت اور تجارت کے حوالے سے جائزہ لیا، آج ہم اپنے ہمسایہ اور راویتی حریف ملک بھارت کی اکانومی کا جائزہ لیں گے۔ پاکستان دشمنی اور مسلمانوں سے مخاصمت کے سبب بھارت کے خلاف ہمارا ردعمل ایک فطری عمل ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ وطن عزیز پاکستان کے خلاف کسی بھی قسم کی سازش کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا لیکن موجودہ سائنسی دور میں دیرینہ نفرت یا محبت سے کام نہیں چلتا بلکہ زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے عوام کی فلاح و بہبود اور معاشی ترقی کے لیے ٹھوس اقدامات بھی ضروری ہیں اور یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ معاشی و اقتصادی لحاظ سے بھارت اس وقت ہم سے بہت آگے نکل چکا ہے اور ہم ابھی تک آئی ایم ایف کے سامنے کشکول پھیلائے اس کی عوام کش شرائط ماننے پر مجبور ہیں۔ بھارتی معیشت کاجائزہ لیں تو وہ ایک مخلوط منصوبہ بند معیشت سے ایک مخلوط متوسط آمدنی والی ترقی پذیر سماجی مارکیٹ کی معیشت میں تبدیل ہو چکی ہے جس میں سٹریٹیجک شعبوں میں ریاست کی شرکت قابلِ ذکر ہے، جو جی ڈی پی کے لحاظ سے دنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت ہے اور قوتِ خرید (Purchasing Power Parities) کے لحاظ سے تیسری سب سے بڑی معیشت ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے مطابق فی کس آمدنی کی بنیاد پر بھارت جی ڈی پی (نامزد) کے لحاظ سے139 ویں اور جی ڈی پی (پی پی پی) کے لحاظ سے 127ویں نمبر پر ہے۔ 1947ء یعنی آزادی سے لے کر 1991ء تک یکے بعد دیگرے بھارتی حکومتوں نے سوویت طرز کی منصوبہ بند معیشت کی پیروی کی اور وسیع ریاستی مداخلت اور معاشی ضابطے کے ساتھ تحفظ پسند معاشی پالیسیوں کو فروغ دیا۔ سرد جنگ کے خاتمے اور 1991ء میں ادائیگیوں کے شدید توازن کے بحران میں بھارت میں ایک وسیع اقتصادی لبرلائزیشن کو اپنایا۔ 21ویں صدی کے آغاز سے سالانہ اوسط جی ڈی پی نمو 6 فیصد سے 7 فیصد رہی ہے۔ 19ویں صدی کے اوائل میں استعمار کے آغاز تک برصغیر پاک و ہند کی معیشت ریکارڈ شدہ تاریخ میں دنیا کی سب سے بڑی معیشت تھی۔ قوتِ خرید (پی پی پی) کے لحاظ سے 2022ء میں عالمی معیشت میں بھارت کا حصہ 7.2 فیصد تھا جبکہ مجموعی اعتبار سے یہ تقریباً 3.4 فیصد تھا۔
بھارت میں آج بھی غیر رسمی گھریلو معیشتیں کارفرما ہیں۔ کووڈ 19 نے اقتصادی ترقی اور غربت میں کمی کے پروگرام کو الٹ دیا تھا۔ کریڈٹ تک رسائی کی کمزوریوں نے نجی کھپت اور افراطِ زر کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ نئی سماجی اور بنیادی ڈھانچے کی ایکویٹی کوششیں 2016ء میں ''ڈی مونیٹائزیشن‘‘ کے جھٹکوں اور 2017ء میں گڈز اینڈ سروسز ٹیکس کے نفاذ کی وجہ سے اقتصادی ترقی میں کمی آئی۔ بھارت کی جی ڈی پی کا تقریباً 70 فیصدگھریلو استعمال کی اشیا صنعتوں سے چلتا ہے۔ انڈیا دنیا کی چھٹی سب سے بڑی صارفین کی منڈی ہے۔ نجی کھپت کے علاوہ بھارت کی جی ڈی پی حکومتی اخراجات، سرمایہ کاری اور برآمدات سے چلتی ہے۔ 2022ء میں بھارت دنیا کا چھٹا سب سے بڑا درآمد کنندہ اور نواں سب سے بڑا برآمد کنندہ ملک تھا۔ بھارت یکم جنوری 1995ء سے عالمی تجارتی تنظیم کا رکن رہا ہے۔ یہ کاروبار کرنے میں آسانی کے انڈیکس میں 63ویں اور عالمی مسابقتی رپورٹ میں 68ویں نمبر پر ہے۔ بھارتی روپیہ اور ڈالر کی شرح میں انتہائی اتار چڑھائو کی وجہ سے بھارت کی برائے نام جی ڈی پی بھی نمایاں طور پر اتار چڑھائو کا شکار ہوتی ہے۔ 476 ملین کارکنوں کے ساتھ بھارتی لیبر فورس دنیا کی دوسری سب سے بڑی ورک فورس ہے۔ بھارت میں ارب پتیوں کی دنیا میں سب سے زیادہ ہے اور معاشرتی سطح پر آمدنی میں انتہائی عدم مساوات پائی جاتی ہے۔ متعدد چھوٹ کی وجہ سے بمشکل 2 فیصد بھارتی انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ 2008ء کے عالمی مالیاتی بحران کے دوران، معیشت کو ہلکی سست روی کا سامنا کرنا پڑا۔ بھارت نے کینیشین پالیسی کی توثیق کی اور ترقی کو فروغ دینے اور طلب پیدا کرنے کے لیے (مالی اور مالیاتی) محرک اقدامات شروع کیے۔ اس کے بعد کے سالوں میں معاشی نمو بحال ہوئی۔ عالمی بینک کے مطابق پائیدار اقتصادی ترقی کے حصول کے لیے بھارت کو پبلک سیکٹر میں اصلاحات، بنیادی ڈھانچے، زرعی اور دیہی ترقی، زمین اور مزدوری کے ضوابط کو ہٹانے، مالی شمولیت، نجی سرمایہ کاری اور برآمدات کو فروغ دینے کی ضرورت ہے، علاوہ ازیں تعلیم، اور صحت عامہ پر توجہ دینی چاہیے۔ 2021ء کے پیو ریسرچ کے سروے کے مطابق 6 کروڑ 60 لاکھ سے زیادہ بھارتیوں کو متوسط طبقے کے طور پر درجہ بند کیا گیا ہے اور صرف 1 کروڑ 60 لاکھ بھارتی ہی اعلیٰ اور متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔
2022ء میں بھارت کے دس سب سے بڑے تجارتی شراکت دار امریکہ، چین، متحدہ عرب امارات (یو اے ای)، سعودی عرب، روس، جرمنی، ہانگ کانگ، انڈونیشیا، جنوبی کوریا اور ملائیشیا تھے۔ 2021-22ء میں بھارت میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) 82 بلین ڈالر تھی۔ ایف ڈی آئی کی آمد کے لیے نمایاں شعبے سروس سیکٹر، کمپیوٹر انڈسٹری اور ٹیلی کام انڈسٹری تھے۔ بھارت کے کئی ممالک اور بلاکس کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدے ہیں، جن میں آسیان، سافٹا، مرکوسور، جنوبی کوریا، جاپان، آسٹریلیا، متحدہ عرب امارات، اور کئی دیگر شامل ہیں جو یا تو زیرِ عمل ہیں یا مذاکرات کے مرحلے میں ہیں۔ بھارت میں سروس سیکٹر جی ڈی پی کے 50 فیصد سے زائد ہے اور سب سے زیادہ تیزی سے ترقی کرنے والا شعبہ بنا ہوا ہے جبکہ صنعتی شعبہ اور زرعی شعبہ افرادی قوت کی اکثریت کو ملازمت دیتا ہے۔ بمبئی سٹاک ایکسچینج اور نیشنل سٹاک ایکسچینج مارکیٹ کیپٹلائزیشن کے لحاظ سے دنیا کے سب سے بڑے سٹاک ایکسچینجز ہیں۔ بھارت دنیا کا چھٹا سب سے بڑا صنعتکار ملک ہے جو عالمی پیداوار کے 2.6 فیصد کی نمائندگی کرتا ہے۔ بھارت کی تقریباً 65 فید آبادی دیہی ہے اور اپنے ملک کے جی ڈی پی میں تقریباً 50 فیصد حصہ ڈالتی ہے۔ بھارت کے پاس غیر ملکی زرمبادلہ کے دنیا کے پانچویں بڑے ذخائر ہیں جن کی مالیت 561 بلین ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ جی ڈی پی کے 83 فیصد کے ساتھ بھارت پر عوامی قرضہ بہت زیادہ ہے، جبکہ اس کا مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کا 6.4 فیصد ہے۔ بھارت کو بیروزگاری، بڑھتی ہوئی آمدنی میں عدم مساوات اور مجموعی طلب میں کمی کا سامنا ہے۔ بھارت کی مجموعی گھریلو بچت کی شرح 2022ء میں جی ڈی پی کا 29.3 فیصد رہی۔ حالیہ برسوں میں آزاد ماہرینِ اقتصادیات اور مالیاتی اداروں نے مرکزی حکومت پر مختلف اقتصادی اعداد و شمار میں ہیرا پھیری کرنے کا الزام لگایا ہے، خاص طور پر جی ڈی پی کی نمو کے حوالے سے تنقید کی گئی ہے۔ 2021-22ء میں جی ڈی پی کے حصہ کے طور پربھارت کے مجموعی سماجی اخراجات 8.6 فیصد تھے جودیگر ترقی پذیر (او سی ڈی سی)ممالک کے اوسط سے بہت کم ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت میں مسلمانوں سمیت تمام اقلیتیں غیر محفوظ ہیں۔ لیکن جب تک پڑوسی ممالک سے موازنے اور زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے ہم اپنے معاشی حالات کا صحیح جائزہ نہیں لیں گے اور اقتصادی ترقی کیلئے ٹھوس اقدامات نہیں کریں گے اس وقت تک ہم دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے پرمجبور رہیں گے۔ بھارت نے اپنے ملک میں ڈیم بنائے اور ہمارا پانی روک لیا۔ وہ جب چاہتا ہے پانی چھوڑ کر پاکستان میں سیلابی تباہ کاریوں کا سبب بنتا لیکن ہم آج تک کالاباغ ڈیم پر ہی اتفاقِ رائے نہیں کر سکیں ہیں۔ بھارت صنعتی ترقی میں چین کے پیچھے پیچھے ہے اور ہم چین کی دوستی کے باوجود اس سے فائدہ اٹھانے کے بجائے اپنی صنعتوں کوبند کرکے سارا سرمایہ زرعی زمینوں پر ہائوسنگ منصوبے بنانے پر لگا رہے ہیں جس سے نہ صرف بیروزگاری عام ہو رہی ہے بلکہ ملک میں مہنگائی کاطوفان بھی بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ اگر اب بھی ہم نے زمینی حقائق کے مطابق درست فیصلے نہ کیے تو معاشی تباہی ہمارا مقدر بنی رہے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں