بڑی خوشیوں کے بڑے تقاضے

اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہمیں ایک بار پھر عیدالاضحی منانے اور خوشیاں بانٹنے کا موقع فراہم کر رہا ہے۔ عید پر تمام صاحبِ حیثیت مسلمان قربانی کریں گے اور اپنے عزیزوں‘ دوستوں‘ محلے داروں اور غربا و مساکین میں گوشت تقسیم کریں گے۔ عید مسلمانوں کیلئے بڑا تہوار اور خوشی کا موقع ہوتا ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر کے مسلمان عید کے دن اپنی حیثیت کے مطابق نئے کپڑے پہنتے ہیں‘ مزیدار کھانے بناتے ہیں‘ عزیز و اقارب سے ملتے ہیں‘ دعوت و طعام کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے‘ خصوصاً بچوں کیلئے تو عید کا تہوار دوہری خوشیاں لاتا ہے۔ نئے کپڑوں اور جوتوں کیساتھ دوستوں و رشتہ داروں سے ملاقاتیں ہوتی ہیں اور ساتھ عیدی بھی ملتی ہے جس سے بچے اپنی ننھی ننھی خواہشات کی تکمیل کرتے ہیں۔ مسلمان دو عیدیں مناتے ہیں‘ ایک عید الفطر اور دوسری عید الاضحی۔ حضرت انسؓ بن مالک فرماتے ہیں کہ دورِ جاہلیت میں لوگوں نے سال میں دو دن کھیل کود کے لیے مقرر کر رکھے تھے۔ چنانچہ رسول اللہﷺ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو ارشاد فرمایا کہ تم لوگوں کے کھیلنے کودنے کیلئے جو دو دن مقرر تھے‘ اللہ تعالی نے انہیں ان سے بہتر دنوں میں تبدیل کر دیا ہے یعنی اب عیدالفطر اور عید الاضحی منائی جائیں گی۔ (ابودائود، نسائی، حاکم، مسند احمد) امت مسلمہ حضور نبی کریمﷺ کے یومِ ولادت (بارہ ربیع الاول) کوبھی عید میلادالنبیؐ کے طور پر مناتی ہے۔
عیدالاضحی دس ذی الحجہ کے دن منائی جاتی ہے اور یہ حج کے مکمل ہونے کے بعدآتی ہے۔ حج کی تکمیل یومِ عرفہ میں وقوفِ عرفہ پر ہوتی ہے جو حج کا ایک عظیم رکن ہے جیسا کہ نبی کریمﷺ کا فرمان ہے کہ یومِ عرفہ آگ سے آزادی کا دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ افراد کو اس روز جہنم سے آزادی دیتے ہیں (صحیح مسلم)۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے افضل اور بہتر دن عیدالاضحی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ یومِ عرفہ‘ یوم النحراور ایام تشریق (تیرہ ذی الحجہ تک) ہم اہلِ اسلام کی عید کے دن ہیں اور یہ سب کھانے پینے کے دن ہیں۔ (ترمذی، نسائی، دارمی، مسند احمد)
مناسکِ حج کی ادائیگی کیلئے عازمین کی سعودی عرب روانگی جاری ہے جبکہ راولپنڈی‘ اسلام آباد اور لاہور سمیت تمام چھوٹے بڑے شہروں میں قربانی کے جانوروں کی خرید و فروخت کیلئے مویشی منڈیاں قائم کر دی گئی ہیں۔ ضلع راولپنڈی میں بھی گیارہ عارضی مویشی منڈیاں قائم کی گئی ہیں جہاں قربانی کے جانوروں کی خروید و فروخت جاری ہے۔ مہنگائی اور معاشی بحران کے باوجود لوگ اپنی مالی حیثیت کے مطابق قربانی کے جانور خرید رہے ہیں‘ تاہم بڑے شہروں میں جگہ کی قلت کے باعث زیادہ تر لوگ عید سے ایک آدھ دن پہلے یا عید کے روز ہی جانور خرید کر لاتے ہیں اور اسی دن قربانی کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔ جن لوگوں نے قربانی کے جانور خرید لیے ہیں ان کا پورا گھرانہ ان خوبصورت جانوروں کی خدمت میں مصروف ہے لیکن اب سب سے ضروری بات یہ ہے کہ ہمیں اپنی قربانی اور عید کی خوشیوں میں ایسے لوگوں کو بھی یاد رکھنا ہے جو مہنگائی‘ غربت‘ بیروزگاری یا تنگدستی کے باعث قربانی نہیں کر سکتے۔ جن کے بچے گھر میں قربانی کا جانور تو دور کی بات نئے کپڑوں و جوتوں کو بھی ترستے ہیں‘ جن گھروں میں عید والے دن محلے سے آنے والے کھانوں کا انتظار کیا جاتا ہے اور جو قربانی کے گوشت کے منتظر رہتے ہیں کہ محلے کے مختلف گھروں سے قربانی کا گوشت آئے گا تو وہ بھی اپنے بچوں کو مزیدار کھانا پکا کر کھلائیں گے۔ اسلام میں بھی قربانی کے گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے‘ پہلا حصہ غربا ومساکین کا ہے‘ یہ انہی لوگوں کا حق ہے جو قربانی کی استطاعت نہیں رکھتے‘ دوسرا حصہ عزیز و اقارب کا ہے کیونکہ ہمارا دین ہمیں مضبوط خاندانی نظام کا بھی درس دیتا ہے اور یہ سب کچھ تبھی ممکن ہے جب لوگ ایک دوسرے کا احساس کریں جبکہ شریعت میں تیسرا حصہ قربانی کرنیوالے کا اپنا ہوتا ہے۔ نبی کریمﷺ کے زمانے میں اردگرد اور پڑوسیوں کے حوالے سے اس قدر اہتمام کیا گیا کہ ابتدائی سالوں میں یہ حکم دیا گیا تھا کہ قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ استعمال کرنا ممنوع ہے یعنی تین دن تک جتنا کھا سکتے ہو اتنا گوشت رکھ لو اور باقی سارا تقسیم کردو۔ اگرچہ یہ حکم بعد میں منسوخ کر دیا گیا مگر معاشرتی نظام میں اس کی اہمیت آج بھی باقی ہے۔ اسلام دنیا کا وہ واحد مذہب ہے جو مکمل ضابطہ حیات پیش کرتا ہے مگر اس میں سختی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے ہر کام میں اپنے بندوں کے لیے آسانیاں پیدا کی ہیں یعنی اگر کسی علاقے میں غربا ومساکین موجود نہ ہوں یا گوشت بچ جائے تو قربانی کرنے والا شخص وہ گوشت خود بھی استعمال کر سکتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ پہلے تو انسان محلے میں نمود و نمائش کے لیے مہنگا جانور خرید کر لائے اور پھر قربانی کرکے سارا گوشت اپنے فریزر میں ڈال لے۔
عام طور پر یہ دیکھا جاتا ہے کہ لوگ قربانی کے گوشت کو فریج یا ڈیپ فریزر میں ذخیرہ کر لیتے ہیں تاکہ زیادہ عرصہ تک استعمال کر سکیں‘ یہ بات شریعت کے خلاف بھی نہیں اور گوشت خود کھانے کی اجازت بھی ہے لیکن قربانی کی اصل روح کے منافی ہے کیونکہ عیدالاضحی کے موقع پر قربانی کا مقصد ہی یہ ہے کہ ہم ایسے لوگوں کو بھی گوشت پیش کر سکیں جو اپنی کمزور مالی حیثیت کے باعث عام دنوں میں زیادہ گوشت نہیں کھا سکتے۔ یقین کریں کہ ہم جتنے زیادہ لوگوں میں گوشت تقسیم کریں گے‘ جتنی خوشیاں بانٹیں گے‘ اتنی ہی زیادہ دعائیں سمیٹیں گے۔ اس لیے جو شخص قربانی کا مہنگا جانور خرید سکتا ہے اور عام دنوں میں گوشت بھی خرید کر کھا سکتا ہے اسے چاہیے کہ ہمارے ارد گرد موجود ایسے لوگوں کو‘جو گوشت خریدنے کی سکت نہ رکھتے ہوں‘ اپنی خوشیوں میں شریک کرے۔
قربانی کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ''اور آپؐ اہلِ کتاب کو آدم ؑ کے دو بیٹوں کا واقعہ صحیح طور پر پڑھ کر سنا دیجیے‘ جب ان میں سے ہر ایک نے اللہ کیلئے کچھ نیاز پیش کی تو ان میں سے ایک کی نیاز مقبول ہو گئی اور دوسرے کی قبول نہیں کی گئی‘‘۔ (المائدہ:27) ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے ''اور ہم نے تمہارے لیے قربانی کے اونٹوں کو عبادتِ الٰہی کی نشانی اور یادگار مقرر کیا ہے‘ ان میں تمہارے لیے اور بھی فائدے ہیں‘ سو تم ان کو نحر(ذبح) کرتے وقت قطار میں کھڑا کرکے ان پر اللہ کا نام لیا کرو اور پھر جب وہ اپنے پہلو پر گر پڑیں تو ان کے گوشت میں سے تم خود بھی کھانا چاہو تو کھائو اور فقیر کو بھی کھلائو، خواہ وہ صبر سے بیٹھنے والا ہو یا سوال کرتا پھرتا ہو، جس طرح ہم نے اِن جانوروں کی قربانی کا حال بیان کیا، اِسی طرح ان کو تمہارا تابع دار بنایا؛ تاکہ تم شکر بجالائو!اللہ تعالیٰ کے پاس ان قربانیوں کا گوشت اور خون ہرگز نہیں پہنچتا؛ بلکہ اس کے پاس تمہاری پرہیزگاری پہنچتی ہے ۔(سورۃ الحج : آیات 36تا 37)
بڑی عید میں چند دن باقی رہ گئے ہیں لیکن ہمیں اس عید کے بڑے تقاضے بھی یاد رکھنا ہوں گے‘صاحبِ حیثیت اورمخیر حضرات کوچاہئے کہ قربانی کا زیادہ سے زیادہ گوشت تقسیم کریں تاکہ غریب غربا بھی عید کے موقع پر توکم ازکم پیٹ بھر کر گوشت کھا سکیں کیونکہ اس سال غریب اورمتوسط طبقے کیلئے قربانی کاجانور خریدنا بہت مشکل ہوچکاہے‘ اس کیساتھ ساتھ ہمیں اپنے اردگرد غریب و سفیدپوش لوگوں کی عید کے تحائف کی صورت میں دل کھول کر مدد کرنی چاہئے‘ اس طرح کسی کی عزتِ نفس بھی مجروح نہیں ہوگی اوراس کی مدد بھی ہوجائے گی۔ ہمیں اپنے بچوں کیساتھ آس پاس غریب بچوں کوبھی عیدی دینی چاہئے تاکہ وہ بھی اپنی معصوم خواہشات کی تکمیل کرسکیں۔ جتنی خوشیاں بانٹیں گے یقین کریں عید کامزا اتنا ہی دوبالا ہوگا اور ہمارا دل بھی اتنا ہی زیادہ مطمئن ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں